Sunday, 15 February 2015

حدیث کی تحقیق میں جمھور کی بات مانیں جائے گی؟:


حدیث کی تحقیق میں جمھور کی بات مانیں جائے گی؟: تالیف : فضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ اگر کوئی کہے :''وہ حدیث جس کے صحیح یا ضعیف ہونے پر اختلاف ہے اس میں جمہور کی تحقیق کو ترجیح دینا اجتھادی مسئلہ ہےیاد رہے کہ جس اصول کو بھی اختیار کیا جائے پھراس پر عمل ضروری ہے ورنہ قول و فعل میں تضاد کا دوسرا نام منافقت ہے ۔۔۔اس میں بھی راجح یہی ہے کہ ائمہ محدثین کی اکثریت جس طرف ہے اسے ہی ترجیح دی جائے گی ۔''((فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :٢/٢٩٤) کیااس اصول پر چلے ؟!! ۔اس کی ایک مثال ابھی ملاحظہ فرمائیں ۔اور دیگر مثالیں سلسہ دفاع حدیث میں دیکھی جا سکتی ہیں واذا قرا فانصتوا مضعفینِ حدیث: ان مضعفین میں: ١۔ امام بخاری، کتاب القراء ۃ للبیہقی (ص: ١٣١) ٢۔ امام ابن معین۔ امام ابو حاتم الرازی، شرح النووی (١/ ١٧٥) معرفۃ السنن والآثار للبیھقي (٢/ ٤٦، ٤٧) ٣۔ امام احمد بن حنبل سے امام اثرم نے اضطراب نقل کیا ہے۔ شرح العلل لابن رجب (٢/ ٧٩٠) جبکہ حافظ ابن عبدالبر نے، التمھید (١١/ ٣٤) میں امام اثرم کے حوالے سے تصحیح نقل کی ہے۔ ممکن ہے کہ امام احمد نے پہلے اس کی تصحیح فرمائی ہو، بعد میں اصل حقیقت منکشف ہونے پر اس پر اضطراب کا حکم لگایا ہو۔ واﷲ اعلم. ٤۔ حافظ محمد بن یحییٰ ذہلی تحقیق الکلام از محدث عبدالرحمن مبارکپوری (٢/ ٨٧) مرعاۃ المفاتیح للعلامۃ عبید اﷲ مبارکپوری: (٣/ ١٢٨) ٥۔ امام ابوداود۔ سنن أبي داود (حدیث: ٩٧٣ باب التشہد!) ٦۔ امام بزار نے بھی تفرد کی جانب اشارہ کیا ہے۔ البحر الزخار (٨/ ٦٦، ح: ٣٠٥٩) ٧۔ امام ابوبکر الاثرم۔ الناسخ والمنسوخ دیکھئے: شرح علل ابن رجب (٢/ ٧٨٨، ٧٨٩) ٨۔ امام مسلم نے اسے بیانِ علت کے لیے ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابو مسعود الدمشقی کی بھی رائے ہے اور قرائن بھی اس کے متقاضی ہیں۔ ٩۔ امام الائمۃ ابن خزیمۃ۔ القراء ۃ خلف الإمام للبیھقي (ص: ١٣١) ١٠۔ امام دارقطنی۔ سنن دارقطني (١/ ٣٣١)، الإلزامات والتتبع: (ص: ١٧١)، علل الأحادیث للدارقطني (٧/ ٢٥٢، ٢٥٣) ١١۔ امام ابو الفضل ابن عمار الشہید۔ علل الأحادیث التي في صحیح مسلم، حدیث (١٠) ١٢۔ حافظ ابو مسعود الدمشقی: کتاب الأجوبۃ (ص: ١٥٩، ١٦٠) ١٣۔ امام بیہقی: السنن الکبری (٢/ ١٥٦۔ ١٥٧) معرفۃ السنن والآثار (٢/ ٤٦) ١٤۔ امام مزّی نے بھی تفرد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تحفۃ الأشراف (٦/ ٤١٠) ١٥۔ امام نووی۔ شرح صحیح مسلم (١/ ١٧٥) ١٦۔ محدث عبدالرحمن مبارکپوری: تحقیق الکلام (٢/ ٨٤۔ ٩٧) و أبکار المنن (ص: ١٥٩) ١٧۔ محدث عبید اﷲ مبارکپوری۔ مرعاۃ المفاتیح (٣/ ١٢٨) ١٨۔ حافظ محدث محمد گوندلوی۔ خیر الکلام (ص: ٤١٧) ١٩۔ مولانا بشیر سہسوانی۔ البرھان العجاب (ص: ٩٨۔ ١٠١) ٢٠۔ حافظ مجتہد محدث عبداﷲ روپڑی۔ الکتاب المستطاب (ص: ٨٣۔ ٨٩) ٢١۔ محدثِ یمن ابو عبدالرحمن مقبل بن ہادی۔ التعلیق علی الإلزامات والتتبع (ص: ١٧١) ٢٢۔ دکتور ربیع بن ہادی مدخلی۔ بین الإمامین (١١٣۔ ١١٧) ٢٣۔ دکتور حمزہ ملیباری۔ عبقریۃ الإمام مسلم (ص: ٦٨۔ ٧٦) ٢٤۔ ابراہیم بن علی۔ محقق کتاب الأجوبۃ (ص: ١٦٤۔ ١٦٥) ٢٥۔ دکتور احمد بن محمد الخلیل۔ مستدرک التعلیل علی إرواء الغلیل (ص: ١٩٦ تا ٢٠٣) ٢٦۔ شیخ ابو سفیان مصطفی باحُو۔ الأحادیث المنتقدۃ في الصحیحین (١/ ١٣٤) ٢٧۔ شیخ ایمن علی ابو یمانی۔ محقق مسند الرویانی (١/ ٣٧٠۔ ٣٧١) ٢٨۔ محدث استاذ ارشاد الحق اثریd۔ توضیح الکلام (ص: ٦٦٧) مصححینِ حدیث: اس حدیث یا زیادت کی تصحیح درج ذیل علماء نے کی ہے۔ ١۔ امام طبری۔ جامع البیان (٩/ ١١٢) ٢۔ حافظ ابن عبدالبر۔ التمھید (١١/ ٣٤) ٣۔ امام منذری۔ مختصر سنن أبي داود (١/ ٣١٣) ٤۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ۔ الإلمام بحکم القراء ۃ خلف الإمام (ص: ١٢) ٥۔ حافظ ابن کثیر۔ تفسیر ابن کثیر (١/ ١٤ ۔سورۃ الفاتحۃ۔) ٦۔ حافظ ابن حجر۔ فتح الباري (٢/ ٢٤٢) ٧۔ محدث امام البانی۔ إرواء الغلیل (٢/ ٣٨) و صفۃ الصلاۃ (١/ ٣٥٢) ٨۔ شیخ سلیم بن عید الھلالی۔ التخریج المحبر الحثیث (١/ ٣٠٩) ٩۔ شیخ زبیر علی زئی d۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ فرمانا: ''بعض ائمہ کا اسے ضعیف و معلول قرار دینا صحیح نہیں۔'' (ماہنامہ الحدیث، ص: ١٥/ اپریل ٢٠٠٨ئ) بجائے خود غیر صحیح ہے۔ کیا یہ ''بعض ائمہ'' ہیں یا اکثر ائمہ؟ متأخرین محدثین کی تصحیح قابلِ استناد ہے، یا جمہور متقدمین کا اس بارے میں فیصلہئ تضعیف؟ جنھوں نے اس روایت کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا، کیا ان تک جمہور محدثین بھی پہنچے اور جنھوں نے اس روایت کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا، کیا ان تک جمہور محدثین بھی پہنچے اور انھوں نے ان شواہد کی تصحیح کی یا ان کو بھی معلول قرار دیا۔ جن محدثین پر یہ علت واضح ہوگئی ان کی تضعیف راجح ہوگی یا جن پر مخفی رہی، ان کی تصحیح؟ حدیثِ تیمی کی تضعیف کرنے والے کیا اس کی ثقاہت و حفظ سے بے خبر تھے؟ جمہور اہلِ اصطلاح نے رواۃ کے مابین مخالفت کی ایک ہی کسوٹی مقرر کی کہ ایک حدیث میں اثبات اور دوسری میں نفی ہو، جیسے محترم حافظ زبیر صاحب باور کرا رہے ہیں؟ چنانچہ محترم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ـ ''یہ ہے جناب خبیب صاحب کی کل فہرست، جس میں پانچ معاصرین اور دو قریبی دور کے علماء کو نکالنے کے بعد باقی سترہ بچے، جن میں سے بعض کے حوالے محلِ نظر ہیں۔ ان سترہ کے مقابلے میں بیس سے زیادہ علماء و محدثین کا صحیح مسلم کی حدیث کو صحیح کہنا یا صحیح قرار دینا اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ حدیث جمہور کے نزدیک صحیح و ثابت ہے، والحمد ﷲ۔'' (الاعتصام: ج: ٦٠، ش: ٤٦، ص: ٢٠) قارئینِ کرام! ذرا انصاف فرمائیں، جن محدثین نے اس زیادت کو صراحتاً شاذ قرار دیا ہے، ان کا قول راجح ہے یا جنھوں نے مطلقاً صحیح مسلم کو کتبِ صحاح میں شمار کیا ہے؟ محدثین کا اصولِ درایت اس کے شذوذ کا متقاضی ہے یا صحت کا؟ خاص دلیل کو پیشِ نظر رکھا جائے گا یا عام دلیل کو؟ مفسر جرح مقدم ہوگی یا مطلق تصحیح؟ شاذ قرار دینے والی جماعت کی معرفتِ علل وسیع ہے یا تصحیح کرنے والی جماعت کی؟ صحیح مسلم کی اسانید کا دراستہ کرنے والوں کے ہاں یہ شاذ ہے یا محفوظ؟ شارحینِ صحیح مسلم کا رجحان اس کے شذوذ کی طرف ہے یا درستی کی طرف؟ سترہ مضعفین جمہور ہیں یا نو مصححین؟ بلاشبہ ان سبھی سوالات کے درست جوابات ہمارے موقف کی موید ہیں کہ اس کا شذوذ ہی راجح ہے۔ اخر میں پھر یاد دہانی کے اصول ذکر کر دیتے ہیں کہ بعض الناس نے کہا : ''وہ حدیث جس کے صحیح یا ضعیف ہونے پر اختلاف ہے اس میں جمہور کی تحقیق کو ترجیح دینا اجتھادی مسئلہ ہےیاد رہے کہ جس اصول کو بھی اختیار کیا جائے پھراس پر عمل ضروری ہے ورنہ قول و فعل میں تضاد کا دوسرا نام منافقت ہے ۔۔۔اس میں بھی راجح یہی ہے کہ ائمہ محدثین کی اکثریت جس طرف ہے اسے ہی ترجیح دی جائے گی ۔''((فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :٢/٢٩٤) اپنے ہی اصول کی موافقت ہے یا مخالفت۔

No comments:

Post a Comment