Friday 20 February 2015

سفید بالوں کے احکام


سفید بالوں کے احکام ابن بشیر الحسینوی سفید بالوں کے احکام : (1) سفید بالوں کو اکھیڑنا (2) سفید بالوں کو رنگ کرنا (١) سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے ۔ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سفید بالوں کو نہ اکھیڑوکیونکہ بڑھاپا(بالوں کا سفید ہونا )مسلمان کے لیے نور ہے جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے (جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے )تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتاہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے۔ '' (ابو داود :٤٢٠٢،ابن حبان (٢٩٨٥) نے صحیح کہا اور امام ترمذی (٢٨٢١)اورنووی(ریاض الصالحین:٢/٢٣٨) نے اس حدیث کوحسن کہاہے۔ (٢) سفید بالوں کو رنگنا ۔ بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتاہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں : (١) رسول اللہ نے سفید بالوں کو رنگنے کا حکم دیا ہے ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑھاپے (بالوں کی سفیدی ) کو (خضاب کے ذریعے)بد ل ڈالو اور(خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔ (الترمذی :١٧٥٢وقال: ’’حسن صحیح اور ابن قطان فاسی ؒنے کہاجید ‘‘(بیان الوہم والایھام :٥/٨١٣) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہودی اور نصرانی (عیسائی) خضاب نہیں لگا تے لہٰذا تم ان کے خلاف کر و ( تم خضاب لگاؤ)[صحیح البخاری:٥٨٩٩،صحیح مسلم :٢١٠٣] (٢) مہندی کا خضا ب (رنگ)لگانا یا مہندی میں کوئی چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے ۔ (٣) زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کاجوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش (داڑھی )مبارک پرآپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی ) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے ۔''(ابو داود : ٤٢١٠وسندہ حسن،النسائی :٥٢٤٦) احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری(١٠/٣٥٤)شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ''احادیث میں رسول اللہ کے بالوں کو رنگنے کابھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کابھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیا ہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے۔ ''(احکام ومسائل شیخ نور پوری١/٥٣١) (٤)سفید بالوں میں سیا ہ خضاب (رنگ) لگانادرج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے: 1۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابو بکر صدیق کے والد ابو قحافہ کو لایا گیا،ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو''۔(صحیح مسلم :٢١٠٢/٥٥٠٩) 2۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی۔'' (ابوداود :٤٢١٢وسندہ صحیح ،النسائی :٥٠٧٨)[اس کا راوی عبدالکریم الجزری(مشہور ثقہ )ہے۔دیکھئے شرح السنہ للبغوی١٢/٩٢ح٣١٨٠] بالوں کو تھوڑا سا چھوڑ کر باقی منڈوا دینا منع ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا''۔(صحیح البخاری:٥٩٢٠،صحیح مسلم :٢١٢٠) قزع کی چار قسمیں ہیں : 1۔ سر کے بال سارے نہ مونڈنا بلکہ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے بادلوں کے طرح ،ٹکڑیوں میں مونڈنا ۔ 2۔ درمیان سے سر کے بال مونڈنا اور اطراف میں بال چھوڑ دینا ۔ 3۔ اطراف مونڈنا اور درمیان سے سر کے بال چھوڑدینا ۔ 4۔ آگے سے بال مونڈنا اور پیچھے سے چھوڑ دینا ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :''عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کما ل محبت وشفقت ہے ۔انسانی جسم میں بھی عدل کا خیال رکھا کہ سر کا بعض حصہ مونڈ کر اور بعض حصہ ترک کر کے سر کے ساتھ بے انصافی نہ کی جائے ۔بالوں سے کچھ حصہ سر کا ننگا کر دیا جائے اور کچھ حصہ ڈھانک دیا جائے یہ ظلم کی ایک قسم ہے۔''(تحفۃ المودود بأحکام المولود ص٦٩) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا ہوا تھا آپ نے ان کو ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا : ((احلقوہ کلہ أو اترکوہ کلہ )) تم اس کا سارا سر مونڈو یا سارا سر چھوڑو۔(ابو داود :٤١٩٥ وسندہ صحیح) اس حکم میں جوان اور بڑے مردبھی شامل ہیں اور صرف بچوں کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ راقم الحروف انسانی بالوں کے ۱۳۷ احکام و مسائل پر ایک کتاب بنام (بالو ں معاملہ )لکھی جوکہ مطبوع ہے۔ لنک

No comments:

Post a Comment