تالیف :ابن بشیر الحسینوی
اورخودکشی عام ہو رہی ؟
موجودہ معاشرے میں لوگ اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں بھیانک اور مہلک گناہوں میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔بے علمی کی انتہائی ہے کہ ذرہ سی بات پر اپنے آپ کو موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں !!شاید ایسے لوگوں کو علم نہیں ہے کہ اس طرح کرنے سے مصیبتیں دور نہیں ہوتیں بلکہ ہمیش ہمیش مصیبتیں اور تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں !شاید اچھی تربیت کا بھی فقدان ہے والدین اور اساتذہ لوگوں کی اس طرح تربیت نہیں کر رہے جس طرح کرنی چاہئے کہ ان میں صبر وتحمل کا جزبہ پیدا کیا جائے اور قرآن وحدیث کو مضبوطی سے پکڑنے کا حرص پیدا ہو ۔تقوی جیسی عظیم نعمت سے لذت اٹھائیں ،میڈیا ،انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے بھی لوگوں میں خود کشی کے عناصر کو جنم دیا ہے کہ کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں ،اسی طرح لوگ تو نماز کے قریب نہیں آتے اسلامی احکام سے دور، دور نظر آتے ہیں وہ خود کشی نہ کر یں تو اور کیا کریں ،جتنے بڑے گناہ ہیں وہی ہمارے معاشرے میں زیادہ ہو رہے ہیں ۔خود کشی میں ملوث مردو خواتین ہی نہیں بلکہ بچے بھی شامل ہیں !!!چند دن پہلے ایک بزرگ نے مجھے کہا کہ میرا چھوٹا بچہ اپنی امی سے کہتا ہے کہ مجھے فلاں سکول سے اٹھا لو ورنہ میں چھت سے چھلانگ لگا دوں گا !!!روزانہ اخبارات میں یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ باپ نے تھوڑا سا ڈانٹا تو بیٹے نے اسی وقت کہہ دیا کہ میں ابھی خود کشی کر رہا ہوں !بیٹی کی بات نہ مانی تو اس نے خود کشی کرلی ،غربت کی وجہ سے اپنے آپ کو موت کی گھاٹ اتار لیا !میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا تو خاوند یا بیوی نے بجلی کو ہاتھ لگا لیا !انصاف نہ ملنے پر اپنے آپ کو مار ڈالا !اس طرح کی خبریں ہمیں روزانہ اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہیں !!یہ لوگ قصور وار ہیں کہ انھوں نے خود کشی کا ارتکاب کیا لیکن ہم نے ان کو اس سے بچانے کے لئے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا کیا کوئی خاص انتظام کیا جس میں نوجوا ن طبقہ کو اسلامی تربیت پر مشتمل کورسز کروائے جائیں ،ان کی تربیت کی جائے اور ان میں صبر و تحمل پیدا کیا جائے !اگر انتظام ہے تو الحمدللہ ورنہ جلدی شروع کیجئے والدین اور اساتذہ خصوصی توجہ دیں اپنے سکولز ،یونیورسٹیوں ،کالجوں ، محلوں اور گھروں میں خود کشی کی مذمت اور صبر پر لیکچرز کا اہتمام کروائیں تا کہ امت مسلمہ اس کبیرہ گناہ سے باز آجائے ۔
اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔ خود کشی ایک کبیرہ گناہ!
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو شخص کسی ہتھیار سے خود کشی کرے تو جہنم میں وہ ہتھیار اس شخص کے ہاتھ میں ہو گا اور اس ہتھیار سے جہنم میں وہ شخص خود کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا اور جوشخص زہر سے خود کشی کرتا ہے وہ جھنم میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا اور جو شخص پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ پہاڑ سے گرتا رہے گا ۔(صحیح مسلم )
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ نووی لکھتے ہیں :خود کشی کبیرہ گناہ ہے لیکن کفر نہیں ہے اس کے ارتکاب سے انسان دائمی جھنمی کیوں ہے ؟اس کے دو جواب ہیں :۱:جس شخص نے خود کشی کو حلال سمجھ کر کیا حالانکہ اس کو خود کشی کے حرام ہونے کا علم تھا لیکن اس نے اس کو حلال سمجھا اس لئے ہمیشہ جھنم میں رہے گا ۔۲:اس حدیث میں ہمیشہ سے مراد زیادہ وقت ہے یعنی وہ شخص زیادہ وقت عذاب میں مبتلا رہے گا ۔
نوٹ:اگر اللہ تعالی چاہے تو اس کو معاف بھی کر سکتا ہے اس مسئلے پر آگے بحث ہو گی۔ خود کشی کرنے والے ذرہ سوچ!
کہ اللہ تعالی نے تیری قسمت میں کتنی خوشیاں لکھی ہیں،کتنی نیک صالح اولاد لکھی ہے ،کتنی جائیداد لکھی ہے ،کتنی کاریں اور کوٹھیاں بنگلے لکھے ہیں ، لیکن تو ان کو لینے سے انکار کر رہا ہے
اب تو شاید غریب ہے لیکن کل کو تیرا مستقبل کتنا روشن ہونا ہے ،اب شاید تجھے پریشانیاں لاحق ہیں لیکن کل تجھے کتنی خوشیاں ملنے والی ہیں۔کچھ تو سوچ !صرف آج کو چھوڑ دے کل پر نظر رکھ ،موت تو آنے ہی والی ہے اللہ تجھے زندگی دینا چاہتا ہے لیکن تو اللہ تعالی سے اعلان جنگ کر رہا ہے اور خود کشی کر رہا ہے نہ جانے تجھ سے کتنے لیڈر اور کمانڈر اللہ تعالی نے پیدا کرنے ہیں ،کتنے ولی اور محدثین تیری اولاد میں ہونے ہیں ،کتنے سپہ سالار اور مجاہدین کا تو نے باپ بنناہے !!!میری یہ باتیں بار بار پڑھ اور خود کشی سے باز آجا ۔۔۔یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ایک تنگی کے بعد دوہری خوشیاں ملتی ہیں ان کا انتظار کر ۔۔آج تو اکیلا ہے کل تیری ایک فوج ہو گی جن کی تو تربیت کرے گا اور کسی کا خاوند کسی کا باپ کسی کا نانا کسی کا دادا کسی کا استاد بننے والا ہے ،ہو سکتا ہے اللہ تجھے کتنی عزتوں سے سرفراز کرے ۔یہ کسی کو نہیں معلوم کہ آج وہ جیلوں میں پھنسا پریشان ہے اور کل کو وہی ملک کا صدر بننے والا ہو ۔آج گداگر ہے تو کل کو وزیر اعظم کا باپ بننے والا ہے ۔۔۔دیکھ اپنے ارد گرد سوال کر اپنے والدین سے کہ فلاں کو اتنی عزت کیوں ملی ؟فلاں امیر کسیے ہوا ؟فلاں جاگیر دار کیسے بنا ؟؟؟ایک دوست نے مجھے بتا یا کہ ہم پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہمارے والد محترم نے ہماری امی سی کہا کہ میرا آم کھانے کو دل کرتا ہے امی جواب دیتی ہے کہ تمہیں آم کھلاوں یا بچوں کے پیٹ بھروں !!؟؟وہ دوست کہنے لگا کہ الحمدللہ یہ وقت ہے ہمارے صرف ایک بھائی کی ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار سے زیادہ ہے باقیوں کے کاروبار الگ ہیں !!!!!
خود کشی کرنے سے پہلے فون کریں!
اگر کسی نے خود کشی کا ارادہ کیا ہے تو پہلے ایک باررابطہ کرے
ان نمبروں پر :
03024056187
03164056187
03234056187
سکائیپ:ibrahim.alhusainwy
فیس بک:ibnebashir alhusainwi
ای میل:alhusainwy@gmail.com
ضرور اپنی پریشانی کا حل پائے گا ،یہ صرف اس ارادے کے تحت عمل شروع کیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ۔ خود کشی کرنے کے بعد !
جب کوئی اس کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو لوگ برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں !مثلا یہ جہنم میں جائے گا !اس نے بہت برا کام کیا ہے ؟یہ کمزور نکلا ہے ؟اس نے بے صبری سے کام لیا ہے ؟اس میں عقل نہیں تھی کیا ؟یہ اللہ تعالی کو کیسے حساب دے گا ؟کئی علماء کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اس کا جنازہ نہیں پرھنا ؟؟!!اس کے رشتہ دار بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور نہ جانے ان پر کیا گزرتی ہے !!خود کشی کرنے والے یہ باتیں بھی یاد رکھنی چاہئے !!خود کشی سے آرام نہیں ملتا بلکہ اپنے آپ کو جھنم کے سپرد کرنا ہے ،عذاب قبر کے سپرد کرنا ہے کون ہے عقل مند جو چھوٹی مصیبت سے نکال کر اپنے آپ کو جھنم کے حوالے کرے !!دنیاوی مصیبتیں چھوٹی پریشانیاں ہیں اس میں تو دلاسہ دینے والے اور سمجھانے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں غم ہلکہ ہو ہی جاتا ہے ،پریشانی ختم ہو ہی جاتی ہے لیکن قبر میں جھنم میں کوئی بھی سمجھانے والا دلاسہ دینے والا نہیں ہوتا !! کیوں یہ غلطی کر رہے ہو !صبر کرو !جلد ہی پریشانی دور ہو جائے گی ،اللہ تعالی کی طرف رجو ع کریں ،نیک لوگوں اور علماء میں سے کسی سے مشورہ کریں ! خود کشی کیا اللہ تعالی سے جنگ نہیں !
جی ہاں خود کشی اللہ تعالی سے جنگ ہے اس لیے خود کشی کرنے والا ناکام رہے گا اللہ تعالی کو غصہ آتا ہے کہ میرا بندا ہوکر مجھ سے جھنگ کر رہا ہے !!میں تو اس کو زندگی دینا چاہتا ہوں مگر یہ ختم کرنا چاہتا ہے !!
خود کشی کرنے والا پہچانا جاتا ہے اسے پہچانیے اور اس کا خیال رکھیے؟!!اہم بات یہ ہے کہ خود کشی کا ارادہ در اصل ایک خاص ذہنی کیفیت میں کیا جاتا ہے ،ڈپریشن ،افسردگی کی انتہائی کیفیت ہے جس میں انسان کے مجموعی جسمانی افعال متاثر ہوتے ہیں ۔ڈپریشن کا شکار ہونے والا انسان انتہائی تھکاوٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہے اسے اپنی لاچارگی کا حددرجہ احساس ہوتا ہے اس کیفیت میں بھوک پیاس بھی نہیں لگتی ،دنیا اسے تاریک اورزندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے انسانی سوچ کے اس حدتک پہنچنے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں پے در پے ناکامیاں ،صدمات ،رکاوٹیں اور تناو زدہ ماحول سرفہرست ہیں ۔وہ کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ،اور اشاروں میں کہتا پھرتا ہے کہ فلاں وقت یا دن میرا آخری دن ہے ،وجہ پوچھنے پر کہتا ہے کہ میں کبھی نہیں بتاوں گا !!جب کسی کی اس طرح کی صورت حال ہو تو ہمیں اس پر کڑی نگرانی کرنی چاہئے ،اس کو اکیلے کو نہیں رہنے دینا چاہئے بلکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی اس کے پاس ضرور موجود ہو ،تاکہ وہ اس عمل سے باز رہ سکے ،اگر ممکن ہو سکے تو دینی پروگرام یا میٹنگ میں ساتھ لے جائیں تاکہ اسے سکون ملے اگر اس کی پریشانی کا تناو زیادہ محسوس ہو رہا ہو تو اسے نشے کی عارضی سی کوئی چیز کھلا دی جائے تاکہ کچھ دیر سونے کے بعد اٹھے گا تو سکون محسوس کرے گا ۔میرے خیال میں خود کشی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچانے کے لئے جو بھی کام کرنا پڑے کریں لیکن اس کو خود کشی سے بچائیں ۔نوٹ:نشہ حرام ہے اس میں کوئی شک نہیں جو ہم نے کہا ہے اس سے مقصود خود کشی سے بچانا ہے اور کوئی مقصد نہیں ! خود کشی سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے !
درج ذیل باتوں پر عمل کرنے سے اس کبیرہ گناہ سے چھٹکارہ ممکن ہے مثلا
۱:قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں ۔
۲:اپنے اندر اللہ تعالی کا ڈر پیدا کریں ۔
۳:علماٗ کرام اور نیک لوگوں سے رابطہ رکھیں اور ان کے پاس بیٹھنے کی عادت بنائیں اپنی تکالیف ان کے سامنے بیان کریں اور ان کا حل تلاش کرتے رہیں ۔
۴:آخرت کی خطرناک سزاوں کو کبھی نہ بھولیں !
۵:پریشانی اور مصیبت میں صبر کرنا فرض ہے اس پر عمل کریں !
کیا خود کشی کرنے والے کے لئے بھی معافی ہے ؟
مفتی پاکستان استاد محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :خود کشی واقعی بہت بڑ اجرم ’’خلود فی النار ‘‘(جہنم میں ہمیشہ رہنے )کا موجب ہے مگر یہ کہ اللہ کو کوئی نیکی پسند آجائے تو ممکن ہے نجات کا ذریعہ بن جائے جس طرح کہ ایک مہاجر کے بارے میں صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے کہ اس نے تکلیف کی وجہ سے انگلیاں جوڑوں سے کاٹ دیں ۔خون بہہ نکلا ،اس سے موت واقع ہو گئی ۔بعد میں ایک دوست (طفیل دوسی رضی اللہ عنہ )بحالت خواب ملاقات ہوئی ۔دریافت کیا کیا حال ہے ؟کہا میری ہجرت کی وجہ سے اللہ نے مجھے معاف کر دیا ہے ۔کہا ہاتھ کیوں ڈھانپ رکھا ہے ؟کہا رب نے فرمایا :اس فعل کا ارتکاب چونکہ تونے کیا ہے لہذا اسے خود ہی درست کرو ۔نبی ﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو فرمایا :اللھم ولیدیہ فاغفر‘‘اے اللہ اس کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔(صحیح مسلم:)اس واقعہ سے معلوم ہوا (اگر خود کشی کرنے والے کا کوئی اچھا عمل ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہے مثلا والدین کی خدمت،سخاوت وغیرہ تو اللہ تعالی اس کو خود کشی کرنے کے باوجود بھی معاف فرما دیں گے لیکن وہ خود کشی کو حلال نہ سمجھتا ہو ۔اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے)کہ خود کشی کرنے والے کے لئے بخشش کے لئے دعا ہو سکتی ہے ۔دوسرا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کے چاہے معاف کر دے ۔(النساء:۱۱۶)اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا شرک کے علاوہ جملہ گناہوں سے درگزر ممکن ہے ۔اس کے عموم میں خود کشی بھی شامل ہے اور جہاں تک اس حدیث (خود کشی کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا )کا تعلق ہے جو سائل نے ذکر کی ہے ،اس کی تاویل طول مکث (زیادہ مدت رہنے )سے ممکن ہے(یا اس شخص کے لئے ہے جو خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتا ہے ) جس طرح کہ قرآن مجید میں ایک آیت :اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ (جلتا)رہے گا (النساء:۳۹)کی تاویل و تفسیر طول مکث یعنی عرصہ دراز سے کہ گئی ہے ۔(فتاوی ثنائیہ مدنیہ جلد:۱ صفحہ ۸۶۴۔۸۶۵) برائیکٹوں کی عبارتیں میری طرف سے ہیں ۔الحسینوی ۔ خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ اور اس کے لئے بخشش کی دعا کرنا:
سماحۃ الشیخ مفتی سعودی عرب ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کا جواب دیتے ہیں : خود کشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا ،اس کا جنازہ بھی پڑھایا جائے گا ۔اور اسے مسلمانوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اس لئے کہ وہ گناہ گار ہے ،کافر نہیں ،کیونکہ خود کشی معصیت ہے کفر نہیں ،لہذا جو شخص خود کشی کرے ،والعیاذباللہ اسے غسل دیا جائے گا ،اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کفن دیا جائے گا لیکن معروف عالم دین اور ایسے لوگوں کو جن کی خاص اہمیت ہو ،چاہئے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کے عمل سے راضی ہیں ،اس لئے معروف عالم دین ،بادشاہ ،قاضی چئیر مین بلدیہ یا میر شہر اس سے نارضی کا کرتے ہوئے جناز ہ ترک کر دیں اور یہ اعلان کردیں کہ خود کشی کرنا غلط ہےء تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن بعض نمازیوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھ لینی چاہئے ۔(فتاوی اسلامیہ :جلد ۲صفحہ:۹۹) وہ خود کشی سے کیسے بچا !؟راقم سے کئی مردوں اور عورتوں نے اپنے حالات سے تنگ آکر کہا کہ ہم خود کشی کرنا چاہتے ہیں میں نے ان سے مفصل بات کی اور وجہ پوچھی اور ان کو سمجھایا تو وہ اللہ تعالی کی توفیق سے مطمئن ہوگئے اور اب وہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں ان سے جو میرے مکالمے ہوئے وہ پڑھیں شاید کہ آپ بھی خود کشی سے بچ سکیں ۔دوستوں کے نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے صرف مخفف لکھوں گا ۔
الف:بھائی جان میں زندگی سے بہت تنگ ہوں کیوں کہ میں چل نہیں سکتا میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میں چلنے سے عاجز ہوں اب میرا زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا خود کشی کرنا چاہتا ہوں !
ابن بشیر الحسینوی:میں آپ سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ان پر غور کریں ان شاء آپ ضرور مطمئن ہوں گے ۔
۱:آپ ساری عمر تندرست رہے اور تندرستی اللہ تعالی کی طرف سے تھی اب اسی اللہ تعالی نے آپ کو بیمار کیا ہے تو آپ ناشکری کرتے ہوئے اللہ تعالی کی اپنے اوپر بے شمار نعمتوں کو بھلا رہے ہو پہلے تندرستی کی نعمت ۔اب بھی تم کھاتے ہوں ،بولتے ہوں ،سنتے ہو ،سوچتے ہو ،اپنے اہل وعیال کے پاس ہو سارے تمہاری خدمت کر رہے ہیں ،یہ کتنی بڑی نعمتیں ہیں ۔شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ چلنا صرف ایک نعمت سے عارضی طور پر محروم ہو اس سے بھی جلد ہی آپ کو شفا مل جائے گی ان شاء اللہ ۔ہم آپ کی شادی کریں گے اللہ تعالی آپ سے بہت بڑے نوجوان افراد پیدا کرے گا ان میں سے بعض لیڈر بعض محدثین پیدا ہوں گے آپ کا دنیا میں نام رہے گا ۔ان شاء اللہ
۲:آپ فارغ نہ رہیں بلکہ چھوٹا سا کارو بار شروع کریں تاکہ مصروف رہیں جب انسان فارغ رہتا ہے تو ویسے ہی عجیب و غریب باتیں سوچتارہتا ہے اپنے آپ کو مصرو کرو۔
۳:علماء کرام اور نیک دوستوں سے ملاقاتیں کیا کرو وہ آپ کو سمجھاتے رہیں گے اور آپ کو تسلی دیتے رہے گے آپ کی پریشانی ختم ہوتی رہے گی ۔
۴:دینی کتب کا مطالعہ کیا کریں اللہ تعالی آپ سے بڑا دینی کام لے گا ان شاء اللہ ۔
ن:بھائی میں آپ کی ان باتوں پر ضرور عمل کروں گا آپ میرے لئے دعا بھی کیا کریں اور جب بھی گاوں آئیں مجھے ملتے رہا کریں اور قیمتی باتوں سے دل کو منور کیا کریں ۔
ابن بشیر الحسینوی:جی ضرور میں دعا بھی کروں گا اور گاوں آکر وقت بھی دیا کروں گا ان شاء اللہ
اللہ کی قسم میرے اس بھائی نے میری باتوں پر عمل کیااب وہ کئی سالوں سے موبائلوں کی اپنی دکان پر ہوتا ہے اور خوش خرم زندگی گزار رہا ہے والحمدللہ ۔طبیعت بھی پہلے سے کافی بھتر ہے ۔اگر وہ خود کشی کرتا تو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے دو چار ہوتا ۔
ایک دوسرا دوست:
ب:بھائی جان میں خود کشی کرنا چاہتا ہوں پہلے تین بار کوشش کر بھی چکا ہوں لیکن اللہ تعالی نے مجھے بچایا ہے ،میں زندگی سے بڑا پریشان ہوں میری رہنمائی کریں ۔
ابن بشیر الحسینوی:محترم آپ اپنی پریشانی کی وضاحت کریں تاکہ میں رھنمائی کر سکوں ۔
ب:محترم میں شراب پیتا ہوں اور برے کام بھی کرتا ہوں میرا والد میرے کہنے پر میری شادی نہیں کر رہا اگر میں شراب نہ پیوں اور برا کام نہ کروں تو مرتا ہوں اس لئے خود کشی کرنا چاہتا ہوں !
ابن بشیر الحسینوی:میرے بھائی یہ تو کوئی بات نہیں ہے کہ شادی نہیں ہو رہی ہم آپ کی سفارش کردیتے ہیں ان شاء اللہ۔ جلدی شادی ہو جائے گی
آپ وقت نکالیں دینی مدرسہ میں داخل ہو جائیں ان شاء اللہ دونوں بری عادتیں جلد ہی ختم ہو جائیں گی اور دینی کتب کا مطالعہ کیا کریں اپنے آپ کو فارغ نہ رکھیں اور تنہائی سے بچیں ،شراب پینے سے انسان کا دفاغ ختم ہو جاتا ہے اور جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے بری محفلوں سے بچیں یہ عقیدہ مضبوط کریں کہ اللہ تعالی مجھے پر جگہ دیکھ رہا ہے۔میری ان باتوں پر عمل کریں اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔
ب:میں آپ کی باتوں پر ضرور عمل کروں گا ۔
اللہ کی قسم !اس بھائی نے مدرسہ میں داخلہ لیا اور کافی پڑھا اب بیٹی اور بیٹے کا باپ ہے کئی مرتبہ عمرہ بھی کر چکا ہے اور اچھی ملازمت پر کام کر رہا ہے اور بہت ہشاش بشاش زندگی گزار رہا ہے ۔
اگر وہ خود کشی کرتا تو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے دو چار ہوتا کیا پریشانی کا حل خود کشی ہے !
کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کو تھوڑی سی پریشانی آئے تو وہ فورا خود کشی کر لیتے ہیں ،حالانکہ پریشانیاں ہر وقت نہیں رہتیں بلکہ کچھ عرصہ پریشانی رہی تو پھر ختم ہو جاتی ہے ۔اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے تقدیر برحق ہے ،فرشتوں اور انسانوں میں اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر یہ حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر یہ حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔کئی ایک فرق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو پریشانی دکھ اورتکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس لئے پریشانی کے وقت اللہ تعالی کو یاد کرنا چاہئے اور علمااور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کر نی چاہئے ،تو ان شاء اللہ جلدی ہی پریشانی ختم ہوجاتی ہے !دنیا کی کی پریشانی چھوٹی ہے اور اس سے نجات پانے کے بے شمار طریقے بھی ہیں لیکن خود کشی کے بعد کی پریشانی بہت بڑی ہے اللہ تعالی سب کو محفوظ فرمائے ! خود کشی کرنے والے کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا :
جس سے ایسا گناہ سر زد ہو گیا ہے تو اس کے اہل وعیال کو چاہئیے کہ اس کے لئے بخشش کی دعا بھی کریں اور صدقہ جاریہ بھی کریں مثلا مسجد بنا دیں یا مسجد میں کوئی کمرہ بنا دیں یا نیک فقیروں کی سرپرستی کریں یا کوئی دینی کتاب اس کی طرف سے شایع کردیں ،تاکہ اس کا ثواب اسے مسلسل پہچنتا رہے شاید کہ اللہ تعالی اس وجہ سے اسے معاف فرما دے ۔
کیا غربت کا حل خود کشی ہے ؟
کتنے لوگ صر ف اس وجہ سے خود کشی کرتے ہیں کہ غربت ہے !!حالانکہ غربت کے کئی ایک حل موجود ہیں جس پر عمل کیا جائے توضرور حالت بہتر ہو گی مثلا۔۱:اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اے اللہ مجھ پر رحم فرما اور میر لئے رزق حلال وسیع فرما ۔۲:نمازوں کا اہتمام کرے اور کثرت استغفار کرے ۔۳:محنت مزدوری کرے ۔۴:کسی سے قرض لینا پڑے تو لے کر اپنا کام چلائے ۔۵:اپنے والدین اور رشتہ داوں سے تعاون لے کر کارو بار شروع کرے ۔کتنے ہی لوگ ا یسے گزرے ہیں جو بے چارے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے اور ساری انسانیت کے سردار ہمارے پیارے رسول ﷺ بھی تو غریب ہی تھے کئی کئی دن گھر میں آگ نہیں جلتی تھی ۔اور غربت و امیری اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی انسان کی حالتیں بدلتا رہتا ہے کبھی امیری اور کبھی غریبی ۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ غربت کا حل ضرور ہے لیکن اس کا حل خود کشی ہرگز نہیں ہے ۔ اگر میاں ،بیوی کا اختلا ف ہو جائے تو اس کا حل!
بے شمار لوگ اس وجہ سے خود کشی کر رہے ہیں کہ ان کی میاں بیوی کی آپس میں ناچاکی ہو گئی یا کسی بات پر اتفاق نہ ہوا تو خاوند یا بیوی نے خود کشی کرلی ،حالانکہ اس کے کئی ایک حل ہیں خود کشی حل نہیں ہے مثلا
۱:اپنے والدین ،بہن بھائیوں یا سسرال کو خبر دی جائے کہ وہ میری بیوی کو سمجھائیں ،اس طرح اختلاف حل ہو جاتا ہے ۔میاں بیوی کا آپسی اختلا ف ہو جاتا ہے لیکن اس کا حل خود کشی نہیں بلکہ افہام و ت فہیم ہے ۔
۲:اگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو فیصلہ کرنے والے محترم شخصیات کو اپنی پریشانی بتا ئی جائے اور یہ طبقہ ہر ہر جگہ موجود ہوتا ہے وہ بڑے اچھے طریقہ سے مسئلہ حل کر دیتے ہیں اور وہ فریقین کو مجلس میں بلا کر تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ آئندہ سے اگر بیوی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی تو اتنا جرمانہ ادا کرنا ہوگا ۔
۳:اگر پھر بھی کوئی حل نہ نکلے تو گورنمنٹ عدالتیں کس لئے بنائی گئی ہیں ان کی طرف رجوع کیا جائے اور انصاف کی اپیل کی جائے ضرور مسئلہ حل ہو گا ۔
۴:اگر پھر بھی حالات بہتر نہیں ہو رہے تو طلاق دے کر فارغ کیا جائے کیوں کہ طلاق دینا جائز ہے اللہ تعالی کا حکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور بہتر بیوی تلاش کرکے دوبارہ شادی کر لی جائے ۔
ان چار باتوں میں جس طرح کی مرضی ناچاکی ہے وہ ضرور ختم ہو جاتی ہے اور یہی اس کا حل ہے خود کشی اس کا حل ہر گز نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے!
خواہشات کو چھوڑ دے:
امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں : ’’اے بھائی ! اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہو اپنی گمراہی اور خواہشات سے باز آ اپنی بقایا عمر اطاعت کے وظائف میں گزار ،جلدی کی خواہشات کے ترک پر صبر کر ،اے مکلف ہر قسم کے جرائم اور گناہوں سے دور بھاگ کیونکہ دنیا میں اطاعت خداوندی پر صبر کرنا دوزخ پر صبر کرنے سے بہت آسان ہے۔‘‘(بحرالدموع : اردو: ۲۵)
اے مسافر !ایسے غافل کیوں ہے؟،آگے جہنم بھی ہے :
امام ابن جوزی فرماتے ہیں :’’بردران گرامی ! یہ نیند کیوں ہے تم تو بیدار ہو ، یہ حیرت کیوں ہے ،تم تو دیکھ رہے ہو ،غفلت کیوں ہے تم تو حاضر ہو یہ بے ہوشی کیوں ہے حالانکہ تم چیختے چلاتے ہو۔یہ سکون کیوں ہے تم سے حساب لیا جائے گا ۔یہ رہائش کیوں ہے تم نے کل کوچ کرجانا ہے، کیا سونے والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ بیدار ہوجائیں ۔کیا غفلت کے بندوں پر یہ وقت نہیں آیا کہ نصیحت پکڑیں ؟جان لے اس دنیا میں سب لوگ سفر میں ہیں اپنے لئے وہ عمل کرلے جو تجھے قیامت کے دن دوزخ سے نجات دلا سکیں ۔‘‘(بحرالدموع :۴۰۔۴۱)
اے دنیا میں مزے لینے والے آگے موت کو نہ بھول:
امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں : ’’اے برادران ! غافل پر افسوس ہے کب تک سوتا رہے گا ؟کیا اس کو راتیں اور دن نہیں جگاتے؟ محلات اور خیموں کے مکین کہاں گئے ؟ اللہ کی قسم ! موت کا پیالہ ان پر بھی گھوم چکا ہے اور موت نے ان کو اس طرح اٹھا لیا ہے جس طرح سے کبوتر دانہ اٹھاتا ہے مخلوق اس میں ہمیشہ نہیں رہ سکتی ، صحیفے لپیٹ لئے گئے اور قلم خشک ہو چکے ہیں ۔‘‘(بحرالدموع : ۵۸)
اے انسان دینی ذمہ داری کو مت بھول :
ابن جوزیؒ فرماتے ہیں :’’ اے بھائی ! کتنے د ن ایسے ہیں جو تونے امید کے سہارے کاٹے ہیں ۔کتنی زندگی ایسی ہے جس میں تو نے اپنی ذمہ داری کو ضائع کیا ہے ،کتنے کان ایسے سننے والے ہیں لیکن ان کو خوف دلانا یا تنبہیہ نہیں کرتا ۔‘‘(بحرالدموع :: ۶۱)
اے بوڑھے لوٹ آ دین کی طرف:
امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں ؛’’ اے زندگی کے حاضر ! تو حدود کو بھلا چکا ہے ،اپنی مصیبت پر رو، ایسا نہ ہو کہ تو مر دود ہو جائے ،اے وہ ! جس کی بہت سے عمر بیت چکی ہے اور ماضی لوٹ نہیں سکتا تجھے نصیحتوں نے رہنمائی کی ہے اور بڑھاپے نے آگاہ کیا ہے کہ موت قریب ہے اور زبان حال پکار پکار کر کہہ رہی ہے (بحرالدموع :: ۶۴)
اے غافل انسان آخرت کی فکر کر :
امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں :’’ اے آدم زاد ! تیرے لئے ایک زندگی دنیا کی ہے اور ایک آخرت کی ۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر قربان مت کر ۔اللہ کیقسم ! میں نے ایسی قوم کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنی عاقبت کو دنیا پر ترجیح دی اور ہلاک ہوئے ،ذلیل ہوئے اور شرمندہ ہوئے ۔‘‘
اے آدم کے بیٹے ! دنیا کوآخرت کے بدلے میں بیچ ڈال ۔دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ میں رہے گا ۔ آخرت کو دنیا کے بدلہ میں نہ دے ورنہ دونوں میں رسوا ہو گا۔
اے آدم کے بیٹے ! جب تو نے آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا تو دنیا کی کوئی تکلیف تجھے ضرر نہ پہنچا سکے گی اور سب کی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا تو دنیا کی کوئی راحت تجھے فائدہ نہ پہنچا سکے گی۔
اے آدم کے بیٹے ! یہ دنیا سواری ہے اگر تو اس پر سوار ہو گا تجھے اٹھائے گی اگر تو نے اس کو چھوڑ دیا تو یہ تجھے قتل کردے گی۔
اے آدم کے بیٹے ! تو اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے اور تو موت تک پہنچنے والا ہے اور رب تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والا ہے جو کچھ تیری ہمت میں ہے اس کو آکرت کے لئے ذخیرہ کرلے اس کا تجھے موت کے وقت علم ہو گا ۔
اے آدم کے بیٹے ! اپنے دل کو دنیا میں مت لگا اگر ایسا کرے گا تو ایک چمٹ جانے والے شر سے دل لگائے گا۔ دنیا میں جہا ں تک پہنچ چکا ہے رک جا۔مزید آگے نہ بڑھ۔
(بحرالدموع : ۱۲۰)
تیرا اعمال نامہ لکھا جا رہا ہے ذرا دھیان کر:
امام حسن بصری فرماتے ہیں :’’اے آدم کے بیٹے ! تیرا اعمال نامہ اتر چکا ہے اور دو بڑی شان والے فرشتے تیرے نگران ہیں ایک تیری دائیں طرف ہے اور دوسرا بائیں طرف۔ جو تیری دائیں طرف ہے وہ تیری نیکیاں لکھ رہا ہے اور جو تیرے بائیں طرف ہے وہ تیری برائیاں لکھ رہا ہے جو چاہے عمل کر لے تھوڑے وعمل کر یا زیادہ عمل کر ، جب تو اس دنیا کو الوداع کہے گا تو تیرا یہ اعمال نامہ لپیٹ دیا جائے گا اور اس کو تیری گردن میں لٹکا دیا جائے گا جب قیامت کا دن آئے گا تو اس کو نکالا جائے گا اور تجھے حکم ہو گا ۔’’اپنی کتاب کو پڑھ‘‘ ( الاسرا ء: ۱۴)
اپنا اعمال نامہ پڑھ لے آج تو خود اپنے محاسبے کے لئے کافی ہے۔
اے برادر ! اللہ کی قسم ! جس ذات نے تجھے تیرے نفس کا محاسب بنا یا ہے پورا انصاف کیا ہے ۔
اے آدم کے بیٹے ! سمجھ لے تو نے اکیلے مرنا ہے ،تو نے قبر میں اکیلے جانا ہے تو اکیلے کھڑا ہو گا اور اکیلے حساب دے گا۔
اے آدم کے بیٹے ! اگر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداربن جائے اور صرف تو اکیلا اس کا نر فرمان ہو تب بھی ان کی فرمانبردای تیرے کسی کام نہ آئے گی۔‘‘
(حلےۃ الاولیاء: ۸ ؍ ۱۰ بحر الد موع : ۱۳۶)
اللہ تعالیٰ کی محبت کو تلاش کر :
میری نصیحوں کو قبول کر اور اس کے دروازہ کے بند ہونے سے پہلے سبقت اور پہل کر یہ تجھے ہر قسم کے طعام وغیرہ سے اور ہر خوشبو دار خوشگوار سے بے فکر کر دے گی۔
اسی سے حضرت آدم نے پیا تھا ۔ حضرت ذکریا کو آرہ سے چیرا گیا تھا۔حضرت ابراہیم خیل اللہ کو آگ میں ڈال دیا گیا تھا جس میں گرنے سے وہ گھبراتے نہ تھے۔ حضرت موسیٰ کا شوق آگے بڑھا اور انھوں نے درخواست کر دی مجھے اپنی زیارت کرادے تا کہ میں بھی ناظر کی زیارت سے مشرف ہوجاؤں ۔ حضرت داؤد نے شوق اور زبور کو خوشی الحانی سے پڑھ پڑھ کر مزے لئے حضرت عیسیٰ جنگلات میں جاتے رہے اور انھوں نے کسی بستی میں ٹھکانہ نہ بنا یانہ کسی شہر میں ۔اس کو ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہفتہ کے دن حاصل کیا تھا اور ان میں زیارت کا بقیہ رہ گیا تھا جس پر بہت سی تفریفات اور فخر بیان کرنے و اجب ہوئے۔
ساری کائنات تیرے سامنے ہے اس کا طیب و طاہر شارب (یعنی اللہ کی جنت)کا انتخاب کر اس کا ایک قطرہ نہر کوثر (کا حکم رکھات)ہے یہ تیز گرمی کی پیاس بجھائے گا اس کی نوبت حضرت صدیق اکبرؓ حضرت فاروق اعظمؓ ،حضرت سعیدؓ اور دیگر عشرہ مبشرہ رضی اللہتعالیٰ عنہم تک پہنچ چکی ہے ۔یہ شروع میں بھی اس کے پینے کے لئے جمع ہوئے ۔اور آخر زمانہ نبوت میں بھی ۔انھیں اکبرین امت کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بزرگان دین نے بھی روحانی فکر اپنائی ،تو بھی اہل صفہ (مسجد نبوی میں سکونت پذیر شاگردان رسول ﷺ کی صفت اختیار کر تجھے بھی روحانیت سے کچھ نصیب مل جائے گا ۔
اس کی طلب میں تو بھی سارے بہانے چھوڑ دے ۔تجھے کیا فرق پڑے گا اگر تو ملامت کا راستہ چھوڑدے گا ،اگر ایسا نہ کیا تو تیرا کوئی عذر قابل قبول نہ ہو گا ۔سُر سے گنگنا ،خوشی سے جھوم یہ مخلوق تیری دوست بن جائے گی اور محبوب (اللہ تعالیٰ ) حاصل ہو گا ۔مقام سیر کو غیر سے پردہ میں رکھ اور اپنے دل کی حفاظت کر ۔اگر تو نے غیر اللہ کی طرف نظر کی تو وہ تجھے اپنے سے دور کر دے گا پھر تیرا کیا بنے گا جب تیرا مالک تجھ سے دور ہوجائے گا۔
اے جماعت فقراء! یہ تمہاری سننے کی بات ہے جو میری بات سن رہا ہے وہ میرے پاس ہے کہ نہیں ۔اے ارباب احوال ! میں تم سے مخاطب ہوں ۔یہ خوبیاں میں تمہارے لئے بیان کر رہا ہوں اور تمہارے قافلے کے ساتھ چل رہا ہوں ۔
اے توبہ کرنے والی جماعت ! کیا اس قابل فخر جوہر حاصل کرنے کے لئے معصیت کا چھوڑنا تمہارے لئے آسان نہیں ہوا اگر تو اس خطاب سے محروم ہو گیا اور خوشی میں نہ جھوم پھر تو محرومی کے بیابان میں سر گرداں رہے گا۔‘‘
( بحرالدموع : ۱۴۲۔ ۱۴۳)
خواہشِ نفس اور شیطان کی پیروی مصیبتوں کا گھر ہے :
حضرت عطاء ابن سلمیٰ ؒ نے حضرت عمر بن عبد ایزید سلمیٰ ؒ سے کہا آپ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ۔
آپ نے فرمایا: ’’ اے احمد! دنیا کی خواہش نفس اور شیطان کے ساتھ کی وجہ سے مصیبت پر مصیبت ہے اور آخرت موافقت اور حساب و کاتب کے ساتھ مصیبت پر مصیبت ہے ۔جو ان دونوں مصیبتوں میں پھنس گیا وہ بڑے صدقہ اور مشکل میں ہے اس لئے تو کب تک بھولا بھٹکا کھیل کود میں رہے گا اور زندگی بر باد کرے گا ۔ملک الموت تاک میں ہے تجھ سے غافل نہیں اور فرشتے تیرا ایک ایک سانس گن رہے ہیں ۔‘‘(بحرالد موع : ۱۴۹)
زبان کا کنٹرول ہزاروں پریشانیوں سے نجات :
ایک دانشور کہتا ہے : ’’ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھ اس سے پہلے کہ تیری مصیبتیں طویل ہوجائیں اور شخصیت مجروح ہو ۔زبان کو قابو کرنے کے سوا اور کوئی شئے ایسی نہیں جس کی حفاظت کی جائے ۔ زبان درستی سے دور رہتی اور جواب دینے میں جلد باز ہے ۔
ایک عقلمند کہتا ہے :’’ فضول گفتگو کو چھوڑنا حکمت سے گفتگو کرنے کو جنم دیتا ہے ۔فطری طور پر نظر ترک کرنا خشوع اور خشیت خداوندی پیدا کرتا ہے فضول طعام کو چھوڑنا عبادت کی مٹھاس ظاہر کرتا ،ہنسناترک کرنا ہیبت خداوندی لاتا ہے ،لوگوں کے عیبوں کی جستجو چھوڑنا اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے اور اللہ تعالی کے حق میں وہم پرستی کو چھوڑنا شک ،شرک اور منافقت کو مٹاتاہے ۔‘‘
(بحرالد مو ع : ۲۱۱)
غیبت اور چغل خوری سے بچو :
امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں : ’’اے بھائی ! خود کو غیبت اور چغل خوری سے محفوظ رکھ یہ دونوں تیرے دین کا نقصان کررہی ہیں نیک لوگوں کے عمل کو مٹا رہی ہیں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت ڈال رہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے محفوظ فرمائے۔‘‘
(بحرالدموع: ۲۲۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید میلاد شیخ الاسلام ابن عثیمین کے نزدیک !
سعودی عرب کے بہت بڑے مفتی ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں :یوں عید میلاد بھی تقرب الہی کے حصول اور رسو ل اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عبادت ہے اور جب یہ عبادت ہے توکسی کو ہرگز ایسی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے دین کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جس کا دین سے تعلق نہ ہو یعنی اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہ دیا ہو جیسا کہ عید میلاد کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور جب اس کا دین میں کوئی تصور نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ بدعت اور حرام ہے پھر ہم یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ عید میلاد کی محفلوں میں ایسی بڑے بڑے حرام کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے جنھیں شرعی یا حسی یا عقلی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ان محفلوں میں گاگا کر ایسی نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن میں نبی ﷺ کے بارے میں غلو سے کام لیا گیا ہوتا ہے حتی کہ :۔۔۔نعوذ باللہ ۔۔۔۔آپ کو اللہ تعالی ذات پاک سے بھی بڑا ثابت کیا جاتا ہے عید میلاد منانے والوں کی اس بے وقوفی کے بارے میں ہم سنتے رہتے ہیں کہ ان محفلوں میں ولادت کا قصہ بیان کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ پھر مصطفی ﷺ کی ولادت ہو گئی تو اس لمحے سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس محفل میں رسول اللہ ﷺ کی روح بھی تشریف لے آتی ہے اور اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ بے وقوفی کی بات ہے اور پھر یہ ادب نہیں ہے کہ اس لمحے سب لوگ کھڑے ہوں آپ تو اپنے لئے لوگوں کے کھڑے ہونے کو سخت ناپسند فرمایا کرتے تھے یہی وجہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنھیں تمام لوگوں کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے شدید محبت تھی اور وہ ہم سے کہیں بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی تعظیم بجا لانے والے تھے ان کا رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا معمول نہ تھا کیونکہ انھیںیہ معلوم تھا کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں اگر آپ اپنی حیات طیبہ میں اسے ناپسند فرماتے تھے توآپ کی وفات کے بعد محفلوں میں کھڑا ہونا کس طرح پسندیدہ ہو سکتا ہے عید میلاد منانے کی اس بدعت کا رواج پہلی تین افضل صدیوں کے بعد شروع ہوا ہے اور ان محفلوں میں اس طرح کے منکر امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس سے دین میں خلل پیدا ہوتا ہے ۔۔۔‘‘(فتاوی ارکان اسلام ص:۱۶۴)شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے سچ فرمایا بلکہ اب تو کروڑوں روپے خرچ کرکے گلیوں بازاروں میں روشن کیا جاتا ہے اور ہر طرف جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں بلکہ جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں بعض لوگ دھول بجاتے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں عید میلاد کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے ۔۔۔افسوس ہے ان لوگوں پر جو صحابہ اور تابعین ائمہ دین ،محدثین کرام ،علماء کرام ان میں احناف بھی شامل ہیں انھیں ابلیس کہتے ہیں فانا للہ ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشتہارت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاوی حصاریہ از محقق العصر مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ (کاوش و پیش کش شیخ الحدیث محمدیوسف راجووالوی حفظہ اللہ،جمع و ترتیب: مولانا ابراھیم خلیل حفظہ اللہ ) آٹھ ضخیم جلدوں میں شایع ہو چکی ہے جو فرق باطلہ کے خلاف اور قرآن وحدیث کے پرچار میں انتہائی قیمتی کتاب ہے یہ کتاب ہر لائبریری میں بہت ضروری ہے ۔رابطہ ناشر:مولانا عبداللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور ۰۳۰۱۴۲۲۷۳۷۹
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقالات اثریہ از شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ ،تقدیم محدث العصر شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ ۔یہ کتاب اصول حدیث کی نادر اور علمی بحوث پر مشتمل ہے اس میں حسن لغیرہ کی حجیت پر تقریبا دو سو صفحات پر بحث کی گئی ہے ،مسئلہ تدلیس پر بھی اتنی ہی بحث ہے ،ثقہ کی زیادتی پر بھی ایک انتہائی مفصل مقالہ ہے ،کچھ فقہی مباحث بھی ہیں اور کچھ احادیث کی تحقیق بھی شامل اشاعت ہے ،علماء اور طلباء کے لئے قیمتی ذخیرہ ہے ،یہ کتاب لاہور ،فیصل آباد ،اسلام آباداور کراچی وغیرہ کے تمام سلفی مکتبوں سے مل سکتی ہے رابطہ ناشر:ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد:۰۴۱۲۶۴۲۷۲۴
No comments:
Post a Comment