Sunday 15 February 2015

حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات قسط3


حسن لغیرہ کا حجت ہونا متقدمین سے ثابت نہیں ہے ؟۔ جواب: ۱۔ یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق محدث سندھ شیخ الاسلام محب اللہ شاہ راشدیؒ فرماتے ہیں: ’’لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔‘‘ (مقالات راشدیہ ص :۳۳۲) نیز فرماتے ہیں: ’’کسی کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا یہ کوئی دلیل نہیں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کی بات صحیح نہیں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصیات کو۔‘‘ (ایضا: ۳۳۳) نیز کہا: ’’تو کیا آپ ایسے سب رواۃ (جن کی حافظ صاحب نے توثیق فرمائی اور ان کے بارے میں متقدمین میں سے کسی کی توثیق کی تصریح نہیں فرمائی) کے متعلق یہی فرمائیں گے کہ ان کی توثیق مقبول نہیں یہ ان کا اپنا خیال ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس طرح آپ اس جلیل القدر حافظ حدیث اور نقد الرجال میں استقراء تام رکھنے والے کی ساری مساعی جمیلہ پر پانی پھیر دیں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کی زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گی۔‘‘ (ایضا: ۳۳۵) ۲۔ فضیلۃ الشیخ ابن ابی العینین فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ’’بعض طلبا جنھوں نے ماہر شیوخ سے بھی نہیں پڑھا وہ بعض نظری اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہیں اور وہ کبار علما سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم متقدمین کے پیروکار ہیں اور انھوں نے متاخرین کے منہج کو غلط قرار دیا ہے۔۔۔۔‘‘ (القول الحسن، ص: ۱۰۳) ۳۔ متقدمین کی حسن لغیرہ کے متعلق کون سی بحثیں ہیں کن کے خلاف متاخرین نے اصول وضع کیے ہیں؟! ۴۔ متاخرین نے علم متقدمین سے ہی لیا ہے اور وہ انھیں کے انداز سے اصول متعین کرتے ہیں ۔ محدثین کا اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کو قبول کرنا: متعدد متقدمین محدثین نے اسماعیل بن ابی خالد کے بدونِ تدلیس عنعنہ کو قبول کیا ہے۔اورہمارے اساتذہ کرام میں سے بعض علماء ان کی عن روایات کو ضعیف کہتے ہیں مثلادیکھئے :’’اسماعیل بن ابی خالد عنعن وھو مدلس (طبقات المدلسین :۳۶؍۲ وھو من الثالثۃ)(انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من السن الاربعۃ ص:۱۰۶ح۲۹۳۰،ص۱۵۲ح۴۲۷۰،ص۴۳۷ح:۱۶۱۲) نیز دیکھے (الفتح المبین ص:۳۳) ذیل میں محدثین کینام جو ابن ابی خالد کی بدون تدلیس عنعنہ کو قبول کرتے ہے ، ان کے اسماء درج ہیں۔ ۱۔ امام ترمذی ۲۷۹ھ، سنن الترمذی (حدیث: ۲۵۵۱، ۳۰۵۷، ۳۸۲۱، وقال: حسن صحیح) و (حدیث: ۱۹۲۵، ۲۱۶۸ وقال: صحیح) و (حدیث: ۳۷۱۱، وقال: حسن صحیح غریب)۔ ۲۔ امام الأئمۃ ابن خزیمہ ۳۱۱ھ۔ صحیح ابن خزیمۃ (۴/ ۱۳، ح: ۲۲۵۹) ۳۔ امام ابو عوانہ ۳۱۶ھ۔ مسند أبي عوانۃ، المستخرج علی صحیح مسلم (۱/ ۳۷، ۵۸، ۵۹، ۹۶، ۳۷۶ و ۲/ ۸۶ مرتین، ص: ۳۶۶)۔ ۴۔ امام ابو نُعیم ۴۳۰ھ۔ المسند المستخرج علی صحیح مسلم (۱/ ۱۳۷، ۱۳۸، ح: ۱۷۸ و ۲/ ۴۰۹، ۴۱۰، ۴۱۱، ۴۹۴، ح: ۱۸۴۳، ۱۸۴۴، ۱۸۴۷، ۱۸۴۸، ۲۰۴۶ و ۳/ ۱۰۹، ح: ۲۳۲۴ و ۴/ ۶۶، ح: ۳۲۴۵)۔ ۵۔ امام ابن الجارود ۳۰۷ھ۔ المنتقی (حدیث: ۳۳۴) اس کتاب کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۱۴/ ۲۳۹) ۶۔ امام ابن حبان ۳۵۴ھ۔ صحیح ابن حبان (۱/ ۱۵۲، ۲۶۱۔ ۲۶۲ مرتین، ح: ۹۰، ۳۰۴، ۳۰۵ و ۳/ ۲۸۸، ح: ۲۱۳۴ و ۴/ ۲۸۵، ح: ۲۹۸۸ و ۵/ ۹۹، ح: ۳۲۳۲ و ۶/ ۱۷۵، ۲۶۸، ح: ۴۱۲۹، ۴۳۱۵ و ۷/ ۵۳، ۵۸۹، ح: ۴۵۶۴، ۵۹۵۳ و ۸/ ۱۱، ۱۲۱، ۱۶۲، ۲۳۷، ح: ۲۱۲۶، ۶۴۱۲، ۶۴۹۴، ۶۶۳۹۔۔۔)۔ ۷۔ امام حاکم ۴۰۵ھ۔ المستدرک (۱/ ۳۲۲۔ ۳۲۳ و ۲/ ۴۶۶، ۴۸۸ و ۳/ ۸۴، ۴۴۰ و ۴/ ۶، ۵۴۶، ۵۸۸) وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔ و (۲/ ۱۵۷) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔ و (۳/ ۹۹، ۴۹۹) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ۔ ۸۔ ابو الحسن احمد بن محمد بن منصور عتیقی ۴۴۱ھ۔ (امام محدث ثقۃ) المنتقی: حافظ ابوبکر احمد بن محمد بن غالب برقانی خوارزمی ۴۲۵ھ (حافظ ثبت) في ’’التخریج لصحیح الحدیث عن الشیوخ الثقات علی شرط کتاب محمد بن إسماعیل البخاري وکتاب مسلم بن الحجاج القشیری أو أحدھما‘‘ (التخریج علی الصحیحین) (ص: ۳۹، حدیث: ۱۳ وقال ھو حدیث صحیح) و (ص: ۵۲۔ ۵۳) حدیث: (۲۹، ۳۰) ۹۔ قاضی ابو یعلی الفراء ۴۵۸ھ۔ في ’’ستۃ مجالس من أمالی‘‘ (ص: ۵۰، ح: ۲) وقال: ھذا حدیث صحیح۔ ۱۰۔ محدث امام البانی ۱۴۲۰ھ۔ السلسلۃ الصحیحۃ (حدیث: ۴۷۵، ۷۶۴، ۷۶۸، ۸۰۸، ۸۳۳، ۱۲۵۳، ۱۵۶۴، ۱۸۷۶، ۲۶۶۳، ۲۸۲۵، ۲۸۳۱) ظلال الجنۃ (حدیث: ۳۹۲، ۴۴۶۔ ۴۵۱، (۴۶۱ وراجع: الصحیحۃ: ۳۰۵۶) ۷۳۹، ۱۱۷۵، ۱۱۷۶) سنن أبي داود (۷/ ۴۰۰، حدیث: ۲۳۸۰ و ۸/ ۱۰۸) صفۃ صلاۃ النبي (۳/ ۸۶۴) وغیرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔ ملحوظ رہے کہ بعض مقامات پر اسماعیل بن ابی خالد کے متابع یا شاہد موجود ہیں، مگر ہمارا مقصود صرف اس قدر ہے کہ محدثین نے اسماعیل کے عنعنہ بدونِ تدلیس کو باعثِ جرح قرار نہیں دیا۔ جیسا کہ معترض باور کرا رہے ہیں۔ (مقالات اثریہ از :حافظ خبیب احمد الاثری ) گزارش ہے کہ متقدمین کے ہاں ابن ابی خالد کا عن مضر نہیں ہے اور یہی راجح ہے ۸۔ کیا متقدمین کا منہج تمام ائمۂ متأخرین نہ سمجھ سکے۔ ۱۱۔ جب کوئی کہے کہ یہ موقف (حسن لغیرہ حجت ہے ) بہت سے ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں، مثلا امام وکیع بن جراح ،امام یحییٰ بن سعید القطان، امام عبداللہ بن وہب۔۔۔ امام محمد بن عمر اور ابو جعفر العقیلی۔ تو یہ انداز درست نہیں کیونکہ ان محدثین کے ناموں کو کسی نے بھی پیش نہیں کیا کہ ان کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں!!

7 comments:

  1. امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں؟ :
    امام ترمذی ۲۷۹ھ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
    امام ترمذی کے علاوہ عام محدثین سے ایسی’’حسن لغیرہ ‘‘روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ۔(علمی مقالات :۱؍۳۰۰)معلوم ہوا کہ امام ترمذی بھی حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں
    بعض اہل علم کا اعتراف ہی راجح ہے ۔کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
    محترم حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
    حسن لغیرہ کو متعارف کروانے والے موصوف (امام ترمذی)ہیں، وہ فرماتے ہیں:
    ’’وما ذکرنا في ھذا الکتاب حدیث حسن، فإنما أردنا بہ حسن إسنادہ عندنا۔ کل حدیث یروي لا یکون في إسنادہ من یتھم بالکذب، ولا یکون الحدیث شاذاً، ویري من غیرہ وجہ نحو ذلک فھو عندنا حدیث حسن۔‘‘
    ’’ہم نے اس کتاب ’’حدیث حسن‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کی سند ہمارے نزدیک حسن ہے اور وہ حدیث جس کی سند میں ایسا راوی نہ ہو جس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ حدیث شاذ نہ ہو۔ اور وہ اپنے جیسی دوسری سند سے مروی ہو، وہ ہمارے نزدیک حسن ہے۔‘‘ العلل الصغیر للترمذي (ص: ۸۹۸، المطبوع بآخر جامع الترمذي)
    اس تعریف کا مصداق کیا ہے؟ محدثین نے اس پر خوب خبر دادِ تحقیق پیش کی ہیں، مصطلح کی کتب ان سے معمور ہیں، ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ترمذیؒ ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی تقویت اور حجت کے قائل ہیں، بشرط کہ قرائن ایسی حدیث کی صحت کے متقاضی ہوں۔
    حافظ برہان الدین بقاعی۸۸۵ھ اپنے شیخ (حافظ ابن حجرؒ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام ترمذیؒ نے حسن لغیرہ کو متعارف کروایا ہے۔ النکت الوفیۃ للبقاعي (۱/ ۲۲۴)
    امام ابن سید الناسؒ فرماتے ہیں کہ وہ جس حدیث کو متعدد اسانید کی بنا پر حسن قرار دیتے ہیں وہ حسن لغیرہ ہے۔ النکت الوفیۃ (۱/ ۲۲۹)

    ReplyDelete
  2. حافظ بقاعیؒ نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ النکت الوفیۃ (۱/ ۲۳۴)
    امام ترمذیؒ ایسی احادیث کو بھی حسن گردانتے ہیں جو حسن لغیرہ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، مثلاً اس کی ذاتی سند مضبوط ہوتی ہے یا کوئی قوی متابع موجود ہوتا ہے یا کوئی عمدہ شاہد ہوتا ہے جو ضعیف سے مستغنی کر دیتا ہے۔
    اگر ضعیف حدیث کی تائید ضعیف حدیث یا احادیث کریں تو وہ بھی ان کے نزدیک حسن ہے، جسے عرف عام میں حسن لغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
    دکتور خالد بن منصور الدریس نے جامع ترمذی کے سب سے معتمد علیہ نسخے نسخۃ الکروخی (ھو أبو الفتح عبد الملک بن أبي القاسم الکروخی الھروی البزار ۵۴۸ھـ) کو پیش نظر رکھ کر امام ترمذیؒ کی حسن احادیث کا تتبع اور دراستہ کیا ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ ضعیف حدیث + ضعیف حدیث = حسن لغیرہ کی تعداد چالیس ہے، جن میں بارہ (۱۲) احادیث احکام شرعیہ کے متعلق ہیں، جبکہ باقی (اٹھائیس) احادیث فضائل، ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔ الحدیث الحسن للدکتور خالد: (۳/ ۱۱۸۲) نیز (۵/ ۲۱۳۴)
    پھر انھیں (۳/ ۱۳۵۳۔۱۳۹۳) پھر بعنوان ’’المنزلۃ الثانیۃ: حدیث ضعیف و شواہھدہ ضعیفۃ‘‘ کے تحت بیان کیا ہے، ذیل میں ترمذی کے رقم الحدیث درج ہیں: ۴۰۶، ۵۱۴، ۶۵۰، ۷۲۵، ۸۱۳، ۸۸۱، ۱۰۰۵، ۱۰۲۸، ۱۰۵۷، ۱۲۰۰، ۱۲۰۹، ۱۲۱۲، ۱۳۳۱، ۱۵۶۵، ۱۶۳۷، ۱۷۶۷، ۱۷۷۰، ۱۹۳۱، ۱۹۳۹، ۱۹۸۷، ۱۹۹۳، ۲۰۴۸، ۲۰۶۵، ۲۱۶۹، ۲۳۲۸، ۲۳۴۷، ۲۴۵۷، ۲۴۸۱، ۲۶۹۷، ۲۷۲۸، ۲۷۹۵، ۲۷۹۸، ۳۲۹۹، ۳۴۴۸، ۳۴۵۵، ۳۵۱۲، ۳۵۹۸، ۳۶۶۲، ۳۷۹۹، ۳۸۰۱)(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری)
    حسن لغیرہ کی وجہ سے متاخرین محدثین کے متعلق رائے ۔
    ’’یہی ہماری دعوت ہے کہ متاخرین جس طرح عقیدے کے بعض معاملات علم کلام سے متاثر ہو کر متقدمین کے منھج سے ہٹ گئے ہیں ،اسی طرح کئی معاملات میں فقھی موشگافیوں ،علم منطق اور علم کلام سے متاثر ہو کر وہ علم حدیث اور اصول حدیث میں بھی غلطی کھا گئے ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ جیسے ہم دیگر معاملات میں دلیل طلب کرنے کی روش اپناتے ہیں اسی طرح علوم حدیث میں بھی دلیل کے طالب ہوں اور صرف متاخرین کی کتب اصطلاح سے مرعوب ہو کر علم حدیث میں متقدمین کے منھج کو نہ چھوڑیں ۔‘‘ اس عبارت سے درج ذیل بات سامنے آتی ہے ۔
    ۱:متقدمین متاثر ہوئے مگر کس جگہ کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ متاخرین نیء حسن لغیرہ کا حجت ہونا ممنطقیوں وغیرہ سے لیا ہے۔
    (ب)علم منطق اور کلام میں کہاں بحث کی گئی ہے کہ حسن لغیرہ حجت نہیں ہے جہاں سے محدثین نے لیا ہے ؟!! یقینا اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا
    (ج)حاتم شریف العونی کی تحریر جو حسن لغیرہ کے متعلق نہیں بلکہ عام ہے اور منطقیوں سے متاثر کی مثال انھوں نے متواتر کی دی ہے ، اس کو حسن لغیرہ کی بحث میں فٹ کرنا درست نہیں حالانکہ حاتم شریف العونی بھی حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں دیکھئے (تحقیق مشیخۃ ابی طاہر بن ابص الصقر ص:۱۴۶ )
    (د)کیا شریف حاتم العونی خود یہ کہ رہے ہیںکہ حسن لغیرہ متاخرین نے منطقیوں سے متاثر ہوکر اخذ کی ہے اور خود حاتم العونی کہیں کہ حسن لغیرہ حجت ہے ۔؟؟!!
    (ر)پاکستان میں حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ نے متواتر کی بحث میں کہا ہے کہ یہ بحث منطقیوں وغیرہ سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے لیکن حسن لغیرہ کو وہ بھی حجت سمجھتے ہیں وہ لکھتے ہیں :
    ’’حسن لغیرہ وہ حدیث ہے جس کا راوی حفظ اور ضبط کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہو، فسق یا جھوٹ کی وجہ سے نہ ہو، یا اس کی سند منقطع ہو مگر اس کا ضعف متابع یا شاہد سے دور ہوجاتا ہے۔‘‘ الفصول في مصطلح الحدیث الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم (ص: ۲۷)

    ReplyDelete
  3. دکتور حمزہ ملیباری کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے :
    حالانکہ حمزہ ملیباری خود حسن لغیرہ کے قائل ہیں ۔دیکھئیے (الموازنۃ بین المتقدمین والمتاخرین ص:۹۷،۱۲۲،۱۲۳)والحمدللہ ۔
    خلاصہ بحث :
    علماء کے عمومی اقوال یا حسن لغیرہ کے علا وہ کسی اور بحث کے متعلق کہے گئے، ان اقوال کے قائلین حسن لغیرہ کو حجت تسلیم کرتے ہیں والحمد للہ ۔مثلا
    ۱:محدث یمن مقبل بن ھادی
    ۲:دکتور حمزہ ملیباری
    ۳:دکتور حاتم شریف العونی
    ۴:حافظ ابن کثیر
    ان کے اقوال باحوالہ اسی مضمون میں گزر چکے ہیں

    ReplyDelete
  4. منھج متقدمین اور منھج متاخرین !

    حسن لغیرہ کے مسئلے میں کہا جاتا ہے کہ متقدمین کو لیا جائے گا ،،ہم متقدمین کی چند مثالیں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔جن میں متقدمین کی مخالفت کی جاتی ہے
    تحقیق حدیث میں متقدمین کی مخالفت کی مثالیں
    اس مضمون سے دیکیں
    http://mtaipk.blogspot.com/2015/02/blog-post_63.html

    ReplyDelete
  5. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    ہمارے مضمون کا خلاصہ یہی ہے کہ ابن قطانؒ،ابن حجر ؒ،ابن حزم ؒ اور ابن کثیر ؒ سے حسن لغیرہ کی عدم حجیت پر جو ان کی عبارتیں پیش کی گئیں ان سے قطعا حسن لغیرہ کاحجت نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اور دکتورحمزہ ملیباری،مقبل بن ہادی اور دکتور حاتم العونی خود حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں ان کی متقدمین کے بارہ میں عبارتوں کو پیش کرنا موضوع سے خارج ہے
    قارئین ہمارے جوابات کو غور سے پڑھیں۔بغیر پڑھے یا بغیر سمجھے کسی کی بات کو اچھالنا نازیبا حرکت ہے
    اب ہم حسن لغیرہ کی حجیت پر ایک مستقل کتاب پیش کررہے ہیں جس میں متقدمین سے ہی حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت کیا گیا ہے
    کتاب ڈاؤنلوڈ کریں
    القول الحسن في كشف شبهات حول الاحتجاج بالحديث الحسن

    ReplyDelete
  6. کلیم حیدر نے کہا ہے: ↑
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    زیر بحث مسئلہ طول پکڑ چکا ہے علماء کرام سے درخواست ہے کہ وہ دو ٹوک دلائل پیش کریں کہ حدیث حسن
    لغیرہ حجت ہے یا نہیں۔؟جتنا مسائل کو طول دیتے جائیں بات بکھرتی چلی جاتی ہے جس کا فائدہ نہیں ہوتا۔
    اس کے جواب میں شیخ رفیق طاہر صاحب لکھتے ہیں :
    بہت ہی اچھا مطالبہ ہے محترم کلیم حیدر صاحب آپکا۔
    اسی لیے میں دوسر تھریڈ میں یہ کہہ چکا ہوں کہ قیل وقال اور متقدمین و متأخرین میں اس بحث کو الجھانے کی بجائے کتاب وسنت کے دلائل پر اگر اسے پرکھا جائے گا تو نہایت ہی آسانی سے نتیجہ نکل آئے گا ۔
    اگر کوئی بھائی اس موضوع پر کتاب وسنت کے دلائل کی رو سے بحث کرنا چاہیں تو ہم ان شاء اللہ ہر لحظہ تیار ہیں
    پہلے حسن لغیرہ کی تعریف متعین کریں گے اور پھر اسکی حجیت پر قرآن و سنت سے دلائل دیں گے ۔ إن شاء اللہ تعالى ۔

    ReplyDelete
  7. اس مضمون میں مقالات اثریہ کا بھی حوالہ گزرا ہے اس کتاب کا مطالعہ کرنے لئے اس لنک پر کلک کریں
    http://kitabosunnat.com/kutub-library/maqalat-e-as-aria.html

    ReplyDelete