Sunday 13 November 2016

ابن حنبل آن لائن یونیورسٹی پرمکمل کیے گئے کورسز

الحمدللہ 2010ء سے آن لائن کلاسز کا سلسلہ جاری ہے اگست 2016ء سے اسی سلسلے کو اور منظم کیا گیا ہے چند ماہ میں درج ذیل کورسز مکمل کیے گئے ہیں
1:علوم حدیث 
2:عقیدہ کے اصول و ضوابط
3:دفاع حدیث 
4:نحو 
5:دفاع صحابہ رضی اللہ عنھم جاری ہے 
آپ بھی ابن حنبل آن لائن یونیورسٹی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں 
رابطہ :وٹس اپ :00923024056187 

Tuesday 17 May 2016

مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنا جائز اور مسنون ہے


۔
(محمد احسان الحق شاہ ہاشمی یاروخیل میانوالی)
جنگ مؤرخہ 06-05-2016 میں جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے مسجد میں نمازجنازہ اداکرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ ’’’’ فقہائے احناف کے نزدیک مسجد میں جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے‘‘
اگر وہ اسی پر اکتفا فرماتے تو بات اور تھی مگر انہوں نے حنفی مؤقف کی تائید و توثیق میں ساتھ ہی فرمایا کہ ’’ اس کی اصل یہ حدیث ہے، ’’ترجمہ؛۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جس نے مسجد میں ۰ رکھی ہوئی) میت کی نماز جنازہ پڑھی اس کے لئے کوئی ( اجر) نہیں ہے ( سنن ابو داؤد 3154]‘‘
مزیر فرماتے ہیں کہ ’’اس حدیث کو امام ابن ماجہ، امام عبد الرزاق، امام ابن ابی شیبہ اور امام بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔‘‘
کل امام یخطی و یصیب ( یعنی ہر امام سے خطا اور صواب کا امکان ہے) کے تحت مفتی و مجتہد کی بھول چوک چونکہ اللہ کے نزدیک معاف ہی نہیں بلکہ اخلاص اور محنت کے پیشِ نظر اس پر دوہرا یااکہرا بھی ہے ، تاہم کسی کی سہواً غلطی کی اصلاح بھی افرادِ امت کا فرائض میں سے ہے اس لئے اس ضمن میں کچھ معروضات پیش خدمت ہیں،
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن میں یوں باب باندھا ہے، ’’ الصلٰوۃ علی الجناۃ فی المسجد‘‘ ترجمہ؛۔ ’’مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔ ‘‘ پھر اس باب میں مندرجہ ذیل میں تین احادیث لائے ہیں۔
۱۔ عن عائشۃ قالت واللہ ما صلیٰ رسول اللہ ﷺ علیٰ سھیل ابن البیضآء الا فی المسجد۔
ترجمہ؛۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ؛۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضا پر نماز جنازہ نہیں پڑھی مگر مسجد میں۔
۲۔ عن عائشۃ قالت واللہ لقد صلیٰ رسول اللہ ﷺ علی البنی بیضاء فی المسجد سھیل و اخیہِ
ترجمہ ؛۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ؛۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ بیضا ء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ، یعنی سھیل اور ان کے بھائی پر
۳۔ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلیّ جنازۃ فی المسجد فلا شیء’‘ علیہِ
ترجمہ؛۔ حضرت ابو ہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی اس پر کوئی گناہ نہیں
نوٹ؛۔ ( مذکورہ بالا تینوں احادیث مبارکہ کا ترجمہ مشہور حنفی حمد عبد الحکیم خاں اختر مجددی مظہری شاہجہانپوری کا کیا ہوا ہے جو نیٹ پر سنن ابو داؤد کی جلد ۲ کے صفحہ 543 پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ )
جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے ابن ماجہ کا بھی حوالہ دیا ہے جبکہ ابن ماجہ میں یہ حدیث مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ہے،
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلیّ جنازۃ فی المسجد فلیس لہ شیء
ترجمہ؛۔ جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس کو کچھ نہ ملاِ
اس حدیث سے اگرچہ مفتی صاحب کے موؤف کی تائید ہوتی ہے مگر واضح رہے کہ اس کے بالکل متصل ہی امام ابن ماجہ ؒ درج ذیل حدیث لائے ،
عن عائشۃ قالت واللہ ما صلیٰ رسول اللہ ﷺ علیٰ سھیل ابن البیضآء الا فی المسجد۔
یہ ( موٗ خر الذکر) حدیث مبارکہ نقل کرنے بعد امام ابن ماجہؒ فرماتے ہیں ’’ حدیث عائشۃ اَقْوَیْ‘‘ ترجمہ ؛۔ حضرت عائشہ کی حدیث زیادہ قوی ہے۔
لہذا اصول حدیث کے مطابق قوی حدیث کو ضعیف پر بہر حال وقیت ہے۔ ’’ گر فرقِ مراتب نہ کنی زندیقی‘‘
دیگر محولہ کتبِ احادیث تو ویسے ہی صحاح ستہ سے فرو تر ہیں۔
اول الذکر دونوں احادیث کی تائید و توثیق صحیح مسلم کی حسب ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے،
عن ابو سلمۃ ابن عبد الرحمن ان عائشۃ رضی اللہ عنہا لما توفیٰ سعد ابن ابی وقاص قالت ؛ادخلوا بہ المسجد حتیٰ اصلی علیہ، فانکروا ژلک علیھا، فقالت واللہ لقد صلیٰ رسول اللہ ﷺ علی ابنیْ بیضآء فی المسجد سھیل و اخیہ۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعدؓ بن ابی وقاص فوت ہوئے توحضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں لے آؤ تاکہ میں بھی اس پر نمازِ جنازہ پڑھ لوں، اس

پر لوگوں نے تعجب کیا تو ام المومنینؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے بیضا ء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کا جنازہ مسجد میں ادا فرمایا تھا۔
نمبر ۳ کے تحت مذکور حدیث کا اگر وہ ترجمہ درست تسلیم کر لیا جائے جو مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے جنگ میں کیا ہے تو نبی ﷺ کے قول و فعل میں تضاد رونما ہوتا ہے جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اللہ کے ارشادات اور افعال میں تضاد ہو۔ اس لئے مولانا شاہجہانپوری صاحب والا ترجمہ درست ماننا پڑے گا اورعربی زبان سے ادلیٰ واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہی ( شاہجہانپوری) ترجمہ درست ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب مسجد میں فرض عین کی ادائیگی مرد حضرات پر فرض ہے الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، تو فرضِ کفایہ کی ادائیگی میں کونسی نص مانع ہے حالانکہ نماز جنازہ تووہاں بھی پڑھنی جائز اور مسنون ہے جہاں دوسری نمازوں کی ادائیگی بالاتفاق ممنوع ہے۔
باقی رہی فقہ ، تو یہ قرآن و حدیث کے تابع ہے نہ کہ متبوع۔ اس لئے مناسب یہ ہے سب سے پہلے قرآن و سنت سے دلائل پیش کئے جائیں اور ان کی اگرتوضیح مزید کی ضرورت محسوس ہو تو فقہی حوالے متابعت میں دیئے جانے چاہئیں۔
رہی بات اضطراری صورت میں میت مسجد سے باہر اور امام بمع چند لوگ محراب اور باقی مسجد میں کھڑے ہو سکتے ہیں، یہ موقف بھی اچھنبے سے کم نہیں کیونکہ ہمارے ہاں حنفی آئمہ فرضِ عین کی جماعت کراتے وقت بھی محراب سے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں گویا کہ محراب کو مسجد کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو از روئے فقہ ا یسی با جماعت کی مقبولیت کی
کیا دلیل ہے جس میں امام بمع چند حضرات حدودِمسجد سے باہر یعنی محراب میں اور باقی عامۃ الناس اندرونِ مسجد ہوں۔ ؟؟ اگرہم قرآن مجید اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کر مسائل کا حل تلاش کریں گے تو فقہی پیچیدگیوں سے بہت حد تک بچے رہیں گے ۔ کیونکہ حدیثِ نبوی ہے کہ دین آسان ہے ۔ اور معلوم ہے کہ دین نام ہے کتاب و سنت کا ۔
ھذا ما عندی وللہ اعلم بالصواب
العبد
محمد احسان الحق شاہ ہاشمی یاروخیل میانوالی

Sunday 27 March 2016

فرض نماز کی جگہ نفل پڑھنا




تحریر:ابراہیم بن بشیر الحسینوی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اذا صلی احدکم الجمعۃ فلا یصل بعدھا شیء حتی یتکلم اویخرج(مسلم:۸۸۲،صحیح ابن خزیمہ:۱؍۱۹۴) 
جب تم میں سے کوئی ایک جمعہ کی نمازپڑھے تو اس کے ساتھ دوسری نمازملائے یہاں تک کہ وہ بات کرے یا وہاں سے نکل جائے ۔
کیا یہ نماز جمعہ کے ساتھ خاص ہے یہ عام ہے ؟
امام ابن ابی شیبیہ نے باب قائم کیا ہے (من کان یستحب اذا صلی الجمعہ ان یتحول من مکانہ )(۱۵؍۶۷)
اس کے تحت صحیح مسلم والی حدیث اور سلف کے آثار بیان کیے ہیں کہ جمعہ کی نماز کے بعدنفلی نماز کو اور جگہ پر ادا کرتے تھے ۔
امام ابوعوانہ نے کہا باب التطوع بعد الفریضۃ یوم الجمعہ من غیر الکلام (مستخرج ابی عوانہ:۲؍۴۶۷)
امام منذری نے بھی یہ باب قائم کیا ہے :باب لایصلی بعد الجمعہ حتی یتکلم اور یخرج (مختصر صحیح مسلم:۱؍۱۵۰)
یہ نماز جمعہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام نمازوں کے لیے یہی حکم ہے کہ فرض کے ساتھ نفل نہ ملائیں جائیں بلکہ درمیان میں بات کرنے ،مسجد سے نکل جانے یا اپنی جگہ تبدیل کرنے سے فاصلہ کرلیناچاہیے ۔
امام بیہقی نے تمام نمازوں کے بارے کہا ہے والمستحب فی ہذہ الصلوات وغیرھامن النوافل بعدا لفریضۃ الایصلھا بالفریضۃ او یتحول عن مکانہ ۔(السنن الصغری:بعدح:۵۰۳)
نیز امام بیہقی نے کہا ھذہ الروایۃ تجمع الجمعۃ وغیرھا حیث قال:لاتوصل صلاۃ بصلاۃ ۔(السنن الکبری:۲؍۱۹۱)
البانی نے کہا نص صریح فی تحریم المبادرۃ الی صلاۃ السنۃ بعدالفریضۃدون تکلم اور خروج کمایفعلہ کثیر من المعاجم وبخاصۃ منھم الاتراک فاننا نراہم فی الحرمین الشریفین لایکاد الامام یسلم من الفریضۃ الابادر ھولا من ھنا وھناک من قیام السنۃ ۔(الصحیحۃ:۶؍۴۸)
ابن حجر نے فتح الباری میں عام کہا ہے (فتح الباری:۷؍۴۲۹)
ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی:۲۴؍۲۰۲۔۲۰۳)
قشیری نے کہا ہے :وصل السنۃ بالفرض من غیر فصل بینھما منھی عنہ ۔(السنن والبدعات ص:۷۰)
ایک بندہ عصر کے فورا بعد نفل پڑھنے لگا تو عمر بن خطاب نے کہا اجلس فانما ھلک اہل الکتاب انہ لم یکن لصلاتھم فصل فقال رسول اللہ ﷺاحسن ابن الخطاب۔(مصنف عبدالرزاق:۲؍۴۳۲)(اسنادہ صحیح رجالہ ثقات ۔الصحیحہ:۶؍۱؍۱۰۵)
راجح یہی ہے کہ یہ عام ہے ہر فرضی نماز کو شامل ہے واللہ اعلم ۔

Thursday 24 March 2016

دعو ت دین کے تقا ضے و داعی دین کے اوصاف


تالیف:
عدیل بن رفیق راجووالوی
متعلم: دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ راجووال
ناشر:
مرکز تحقیقات التراث الاسلامی قصور



اللہ تعالی کا بے پناہ فضل وکرم کہ اس نے فکری ،علمی ،عملی راہنمائی کے لیے نوع انسان ہی میں سے مقدس اور قابل تر ین انسانوں کو انبیاء منتخب فرمایا جو اللہ کے عطاکردہ ضابطہ حیات یعنی دین کے ذریعے لوگوں کی آخرت سنوار نے کے ساتھ انہیں دنیا کی مشکلات اور پریشانیوں سے نکالنے کے لئے آسان ترحل پیش کر تے رہے ۔اور ان کی ہدایت وراہنمائی کے لیے نبیeکو اس مشن کے ساتھ مبعوث فرماکر کہ آپ من گھڑت پانبدیوں ،ناروا بندشوں اور ہر قسم کی زنجیروں کو توڑکر لوگوں کو اللہ کی غلامی کی صف میں لاکر کھڑاکریں ۔
۱.اِخلاص :
قرآن کی نظر میں. دعوت دین کا کام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا عمل اللہ تعالی کے لیے خالص کرے تاکہ اسے اس عمل کا اجر وثواب حاصل ہو اور وہ عمل شرف قبولیت حاصل کر سکے ۔ اخلاص قرآن کی روشنی میں اللہ تعالی فرماتاہے(وَمَااُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْااللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ وَیَقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَوَیُوتُّوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ ) (سورۃ البینۃ۹۸:۵)
ْْْْ’’ان کو صرف اسی بات کا حکم دیاگیا تھا کہ وہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر تے ہوئے یکسو ہو کر اس کی عبادت کر یں نماز قائم کریں ،زکوۃ اداکریں ۔اور یہم صیحح دین ہے ۔اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کوحکم دیتے ہوئے فرمایا:
(قُلْ اِنِّی أُمِرْتُ اَنْ أعبداللہ مخلصالہ الدین)
(سورۃ الزمر)
’’آپ فرمادیں کہ مجھے حکم دیاگیاہے کہ اللہ کے لیے دین خالص کرتے ہوئے اس کی عبادے کروں۔
امام طبریhاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔
’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمدeکومخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے کہ اے محمدeاپنی قوم کے مشرکین سے کہہ دیجیے کہ میں اپنی اطاعت وعبادت کو صرف ایک اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی بند گی کرتاہوں۔
حدیث کی روشنی میں :
رسول اللہ eنے فرمایاہے :
((انماالاعمال بالنیات وانمالکل امریء مانوٰی))
(صحیح البخاری)
’’اعمال کا انحصار صرف اور صرف نیتوں پر ہے ۔ہرآدمی کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ‘‘
حدیث مطہرہ اس مفہوم کو واضح کرتی ہیں کہ اخلاص کی موجودگی میں عمل مقبول ہوگااور اس کی غیرموفودگی میں مردودہے۔
رسول اللہeنے فرمایا:
((الاتعمل بماامرک اللہ بہ تریدالناس))
(جامع ترمذی)
’’جس چیز کا تجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے تووہ کام لوگوں کے لیے نہ کرے۔
*اخلاص ہی اعمال کی قبولیت اور انسان کی نجات کا ذریعہ ہے۔
جودنیاکاہوشاہنشاہ وہ دنیادارانسان ہے
جودین حق کاداعی ہووہ سلطانوں میں سلطان ہے
اصلاح نفس:
دعوت دین کاکام کرنے والے کی زندگی کے اہم امور میں ایک امریہ بھی ہے کہ وہ عبادات کے ذریعے سے اپنے نفس کی اصلاح کی کو شش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو لوگوں کی اصلاح کے لیے توجستجوکرتے ہیں لیکن خود اپنے آپ کوفراموش کردیتے ہیں ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
(اتامرون الناس بالبروتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتب افلاتعقلون) 
(البقرہ:۶۶) ’’کیاتم لوگوں کونیکی کاحکم دیتے ہواور اپنے آپ کوبھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو،کیاتم عقل نہیں رکھتے ؟‘‘
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(کانوالایتناھون عن منکرفعلوہ لبئس ماکانوایفعلون)
(سورۃالمائدہ)
’’جوبرائی وہ کرتے تھے اس سے وہ ایک دوسرے کومنع نہیں کرتے تھے ان کاایساکرنابہت براکام ہے‘‘
لیکن اس سلسلے میں ایک بہت بڑی بات کی طرف توجہ دینابھی ضروری ہے اور امرونہی کالوگوں کے لیے قابل قبول ہونااوران پراثرانداز ہونا۔جب حکم دینے والااپنی ذات کے لحاظ سے نیک سیرت اوردرست اخلاق وکردارکاحامل ہوگاتواس کی بات ضرورمانی جائے گی ،اس کی گفتگو سنی جائے گی اور سارے معاشرے پر اس کااثر ہوگا۔ اس لیے امربامعروف اورنہی عن المنکر کاکام کرنے ہالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ہر قسم کے احکامات پرعمل پیراہو،خواہ ان کاتعلق فرائض سے ہویانوافل سے ،اور اسے زادِراہ بناتے ہوئے اس سے اپنے امرونہی کے کام میں معاونت حاصل کرے۔ اس طرح معاشرے میں وہ ایک ایسی شخصیت بن جائے گاکہ لوگ اس کے نقش قدم لپر چلیں گے۔
علم وورع قرآن کی روشنی میں:
دعوت دین کاکام کرنے والامستغنی نہیں ہوسکتاہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علم کامقام بلند کیا ہے اور علماء کو بھی ایسامقام ومرتبہ عطاکیا ہے جو تمام مسلمانوں کے مقام ومرتبہ سے بلندہے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
(قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون انما یتذکر أولوا الالبٰب) (سورۃالزمر۳۹:۹) 
’’آپ کہیے ،کیا علم والے اوربے علم برابر ہوسکتے ہیں؟نصیحت توصرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔
(انمایخشی اللہ من عبادہ العلمٰؤا)
(سورۃفاطر۳۵:۲۸) 
’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ۔
*اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عالم کواس کاعلم آمادہ کرتاہے کہ وہ اچھے کاموں کاحکم دے اوربرے کاموں سے منع کرے اوراس کاحکم دینایامنع کرناہدایت وبصیرت کے ساتھ ہوتاہے۔
*علم اورورع احادیث کی روشنی میں :
رسول اللہ e نے فرمایا:
((من یرد اللہ خیرایفقھہ فی الدین))
(صحیح بخاری)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اسے دین کی سمجھ عطاکردیتاہے‘‘۔
ایک حدیث میں نبی کریمeنے باعمل اور دوسروں کو تعلیم دینے والے عالم کی باقی لوگوں پر عظمت وبلندی کی وضاحت فرمادی ہے۔اس لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عمدہ زمین کی طرح ہوجوخودبھی فائدہ اٹھاتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ دیتی ہے ۔ اسے ب اعمل اور دوسروں کو تعلیم دینے والاعالم بنناچاہیے ۔
اس پر شاعر نے خوب کہا:
زندگی کچھ اورشے ہے ،علم ہے کچھ اورشے
زندگی سوزجگرہے ،علم ہے سوزدماغ
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے۔
ایک مشکل ہے کہ ساتھ آتانہیں اپناسراغ
علم وورع سلف صالحین کی نظرمیں:
سیدناابودرداءtسے مروی ہے :
((معلم الخیروالمتعلم فی الأخبرسواء ولبس لسائرالناس بعدخیر))
(سنن الدارمی :۳/۲۵)
’’بھلائی کی تعلیم دینے والا اورتعلیم لینے والا،اجروثواب میں دونوں برابرہیں۔ان کے علاوہ کسی اورکے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے ‘‘۔
شاعر ابوعمراحمدبن سعید اپنے شعرمیں کہتے ہیں:
لیس یزال یرفعہ الی ان 
یعظم قدرہ القوم الکرام
’’علم مسلسل اس شخص کو بلندکرتارہتاہے یہاں تک کہ قوم کے شرفابھی اسے عظیم القدرتسلیم کرلیتے ہیں۔
فبالعلم النجاۃمن المخازی
وبالجھل المذلۃ والرغام
’’ذلت ورسوائی سے نجات صرف علم ہی کی بدولت ہوسکتی ہے جبکہ جہالت سے ذلت ورسوائی حاصل ہوتی ہے‘‘
ورع:
دعوت دین کاکام کرنے والے کی زندگی میں تقویٰ بنیادی اور اہم امورمیں سے ہے ۔کیونکہ یہ عبادات کی قبولیت کی بنیاد ہے اور اس کے نتیجے میں وہ زہد حاصل ہوتاہے۔
نرمی ،بردباری اور درگزر:
دعوت دین کاکام کرنے والے سے یہی تقاضاہے کہ وہ اچھی بات کہے ۔مخاطب نیک ہوں یابدکار،اچھی بات کاان پر اثر ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے رسولeکے بارے میں فرماتاہے:
(فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوا من حولک)
(سورۃ آل عمران ۳/۱۵۹)
’’یہ اللہ کی رحمت تھی کہ آپeان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے ۔اگر آپeبدمزاج اور سخت دل ہوتے تویہ سب لوگ آپeسے دور ہوجاتے ‘‘
*اس لیے دعوت دین کاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے نرم خو،مہربان اور مشفق ہو۔وہ انھیں اس انداز سے دیکھے گویاوہ معالج ہے اور لوگ مریض ہیں،جنھیں علاج کی ضرورت ہے ۔دلی امراض سے بڑھ کر اور کون سامرض ہوسکتا ہے یہ ایسے ماہر معالج کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں جوہر مریض کو اس کی مناسب سے خوراک دے۔
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃوالموعظۃالحسنۃوجٰدلھم بالتی ھی احسن )
(سورۃ النحل ۱۶/۱۲۵)
’’اپنے رب کے راستے کی جانب حکمت اوراحسن وعظ کے ساتھ وعوت دیجیے،اوراس انداز سے بحث کیجیے جو بہت ہی اچھاہو۔
سیدناعلی tفرماتے ہیں:
’’بہترین عالم وہ ہے جولوگوں کوایسے انداز سے خداکی طرف دعوت دیتاہے کہ خدا سے مایوس نہیں کرتااور نہ خداکہ بافرمانی کیلئے انہیں رخصتیں دیتا اور نہ خداکے عذاب سے انہیں بے خوف بناتاہے۔
کسی شاعر نے کیاخوب کہاہے :
خذاالعفووأمربعوف کما
امرت واعرض عن الجاھلینا
(زھرۃالاداب وثمرالالباب)
’’درگزرکاوصف اختیار کراور اچھی بات کہہ ۔جیساکہ تجھے حکم دیاگیااا ہے اور جاہلوں سے اعراض کر ‘‘
صبر:
دعوت دین کاکام کرنے والے کو جن اوصاف سے آراستہ ہوناچاہیے ۔ان میں ایک اہم ترین وصف صبر ہے کیونکہ دعوت دین کاکام کرنے والے کوکئی طرح کی تکالیف اور اپنی جان،ما ل اور عزت کے معاملے میں کئی طرح کی آزمائشوں کاسامناکرنا پڑے گا۔ خاص طور پر جب وہ لوگوں میں اللہ کی شریعت کو بافذ کرنے کے لیے انتہائی کوشش کرے گا تواسے صبر سے مسلح ہونے کی اشدضرورت ہوگی۔
سیدنالقمانuنے اپنے بیٹے کو جووصیتیں فرمائیں،اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن مجیدمیں نقل فرمایاہے سیدنالقمانuنے کہا:
(یٰبني أقم الصلوٰۃ وأمربالمعروف وانہ عن المنکرواصبر علی مااصابک ان ذٰلک من عزم الأمور)
(لقمان: ۳۱/۱۷)
’’اے بیٹے !نماز قائم کر، بھلائی کاحکم دے ،برائی سے منع کر،پھر تجھے جوتکالیف آئیں ان پر صبر کر،یہ بات عزیمت والے امور میں سے ہے ‘‘۔
*ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(ثم کان من الذین أمنواوتواصوابالصبرواصوابالمرحمۃ)
(البلد :۹۰/۷۱.۱۸)
’’پھروہ ان لوگوں میں سے ہوجاتاجوایمان لاتے اورایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور ایک دوسے کورحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘۔
*تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی وجہ سے انھیں خوش بختی والا بنادیا۔
رسول اللہ e نے فرمایا:
((مایصیب المؤمن من وصب،ولانصب،ولاسقم ،ولاحزن، حتی الھم یھمہ الاکفربہ من سیئاتہ ))
(صحیح البخاری)
’’مومن کوجوتکلیف ،مشقت ،بیماری یاغم پہنچتا ہے یہاں تک کہ کوئی بے چینی جواسے پریشان کردے،ان سب کی وجہ سے اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں‘‘۔
*یہ حدیث بتاتی ہے کہ ایمان کی مضبوطی اورکمزوری کے لحاظ سے مسلمان پرآزمائش اور امتحان آتے رہتے ہیں۔اگروہ صبر کرے اوراللہ تعالیٰ سے ثواب کی امیدرکھے تواللہ تعالیٰ اس کے گناہ اور خطائیں معاف فرمادیتا ہے ۔اگر یہ آزمائشیں عام لوگوں پر آسکتی ہیں توان سے بڑھ کردعوت دین کاکام کرنے والے پرآسکتی ہیں۔اس لیے اسے سب سے بڑھ کرصبرواحتساب کرناچاہیے ،خاص طور پران تکالیف میں جواسے امرونہی کے کام کی وجہ سے پیش آئیں سیدناعلی 7 tفرماتے ہیں:
’’صبرایک ایسی سواری ہے جوکبھی اندھے منہ نہیں گرتی 
(احکام القرآن للقرطبی)

Tuesday 22 March 2016

جامعہ امام احمد بن حنبل اہل حدیث سٹی قصور کی مارچ 2016 ء کی رپورٹ



رئیس الجامعہ کے قلم سے ۔۔۔!
علوم اسلامیہ: درس نظامی کی منظم طریقے سے دو کلاسیں جاری ہیں دینی اور عصری تعلیم کا حسین امتزاج ہے ،اعدادی کلاس میں داخلہ جاری ہے تین طلبہ اس کلاس میں نئے داخل ہوچکے ہیں۔
طہارت ورکشاپ برائے خواتین:اس ماہ ہم نے چھبر اور گئی جاموں والا میں خواتین کو طہارت کے موضوع پر ورکشاپ کروائی گئی اس کے لیے ہم نے تعلیم یافتہ معلمات کی خدمات حاصل کر لی ہیں ورکشاپس ہر اتوار مختلف مقامات پر ہورہی ہیں۔ اس شعبہ کی مدیرہ:بنت سیف اللہ ہیں ۔ 
عمرہ کی سعادت :مدیر شعبہ جالیات عمرہ کی سعادت سے خیرو عافیت کے ساتھ۲۸ مارچ کوواپس پہنچ جائیں گے ۔مدیر شعبہ جالیات :محمد آصف سلفی 0300.0334.0342.4303536
زائرین جامعہ :کراچی سے فضیلۃ الشیخ محمد حسین میمن حفظہ اللہ جامعہ میں تشریف لائے ۔اورانھوں نے جامعہ کے شیوخ کے ساتھ میٹنگ کی اور تاثرات بھی قلم بند کیے ۔فجزاہ اللہ خیرا
نشر واشاعت :امریکہ میں مقیم ہمارے فاضل شاگرد فضیلۃ الشیخ محمد ظہور خاں حفظہ اللہ کی کتاب (متن آیات الاحکام)فقہی ترتیب پر ،زیر طبع ہے۔ہم نے اس ماہ استاد محترم حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی تحقیق و شرح کے ساتھ تین کتب انگریزی میں پی ڈی ایف میں شایع کیں ان کا انگلش میں ترجمہ امریکہ میں مقیم ہمارے فاضل شاگرد فضیلۃ الشیخ رضا حسن حفظہ اللہ نے کیا فجزاہ اللہ خیرا ۔۱:جزء رفع الیدین للبخاری ۲:نصر الباری فی تحقیق جزء القراء ۃ للبخاری ۳:جزء علی بن محمد الحمیری ۴:اورہمارے فاضل شاگرد نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الاربعین فی التصوف ،علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے ساتھ ،کا بھی انگلش میں ترجمہ کیا اس کو بھی شایع کیا گیا۔ ہماری تمام مطبوعات حاصل کرنے کے لیے ہمارے بلوگ کا وزٹ کریں۔
نوٹ:جامعہ کی اپنی ذاتی بلڈنگ نہیں ہے ،جامعہ کو اپنی زمین کی فوری اشد ضرورت ہے، مخیر حضرات توجہ فرمائیں ۔
آپ کی دعاؤں کا محتاج :ابراہیم بن بشیر الحسینوی رئیس جامعہ امام احمدبن حنبل اہل حدیث سٹی قصور 0302.0323.4056187 بلوگ:mtaipk.blogspot.com
فیس بک:جامعہ ابن حنبل قصور .ای میل:ialhusainwy@gmail.com
سلفی ریسرچ انسٹیٹیوٹ برمنگھم ،انگلینڈ،لاہور
مطبوعات ادارہ: ۱:رسالہ نجاتیہ از امام محمد فاخر زائر الہ آبادی رحمہ اللہ ۔حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ اس ایڈیشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اس رسالے کی تحقیق و شرح بھی کر دی گئی ہے۔ یوں یہ نہایت فاضلانہ کتاب مزید محقق اور مشرح (خوب مدلل اور واضح)ہو گئی ہے ۔تحقیق و شرح کا یہ محنت طلب کام دو فاضل شخصیتوں کا مرہونِ منت ہے۔مولانا محمدابراہیم بن بشیر الحسینوی دوسرے،ابوخزیمہ عمران معصوم انصاری حفظہمااللہ تعالی ۔یہ رسالہ سلفی عقائد کی وضاحت میں، جو عقائد قرآن و حدیث ہی ہیں،گو مختصر ہے مگر بغایت مفید اور بقامت کہتر،بقیمت بہترکا مصداق ہے۔
۲:اصول السنہ للحمیدی۔امام حمیدی کا عقیدہ و منہج جو انہوں نے اصول السنۃ میں بیان کیا ہے وہی آج اہل الحدیث کا عقیدہ و منہج ہے ،یہ رسالہ چند اصول عقائد پر مشتمل ہے ان اصولوں کی قرآن وحدیث اور سلف کے اقوال سے مدلل شرح بھی کر دی گئی ہے ۔ہماری کتب ہر سلفی مکتبہ پر دستیاب ہیں ۔ہمارے ڈسٹری بیوٹر مسلم پبلی کیشنز اور کتاب سرائے لاہور ہیں
زیر طبع کتب :۱:مجموعہ مقالات اصول السنۃ لامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس کتاب میں امام احمد رحمہ اللہ کے اصول السنہ کے موضوع پر پانچ نادر رسائل کا ترجمہ تحقیق اور شرح کی گئی ہے۔۲:عقیدۃ السلف وا صحاب الحدیث للصابونی ،اس قیمتی کتاب کا سلیس ترجمہ ،تحقیق اور مدلل شرح کی گئی ہے ۔ 
آپ کی دعاؤں کے محتاج :


ابوخزیمہ عمران معصوم انصاری رئیس سلفی ریسرچ انسٹیٹیوٹ 
ابراہیم بن بشیر الحسینوی مدیر سلفی ریسرچ انسٹیٹیوٹ 

الاربعین فی التصوف لابی عبدالرحمن السلمی انگلش

الاربعین فی التصوف لابی عبدالرحمن السلمی انگلش
تحقیق علامہ عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی
 انگش رضاحسن

http://www.mediafire.com/download/3xdy3zjydwkx79r/Araba%27een+on+Tasawwuf.pdf

جزء علی بن محمد الحمیری انگلش

جزء علی بن محمد الحمیری انگلش
تحقیق:حافظ زبیر علی زءی
 انگلش:رضا حسن

http://www.mediafire.com/download/tcmryf0b9l3tvzl/Juzz+Ali+al-Himayree+English.pdf

جزء القراء ۃ لامام البخاری انگلش

جزء القراء ۃ تصنیف:امام محمدبن اسماعیل البخاری ،تحقیق:حافظ زبیر علی زءی انگلش:رضاحسن

http://www.mediafire.com/download/aa63exg61ajw7cq/Juz+Qiraat.pdf

جزء رفع الیدین لامام البخاری انگلش

جزء رفع الدین تصنیف امام محمدبن اسماعیل البخاری تحقیق حافظ زبیر علی زءی  انگلش :رضاحسن
http://www.mediafire.com/download/v1tuiiluee5bldt/Juzz.pdf

Friday 19 February 2016

القول المبین فی الدفاع عن السلف الصالحین


تالیف فضیلۃ الشیخ رضاحسن حفظہ اللہ

ہمارے فاضل بھاءی نے ہم سے کافی فایدہ اٹھایاہے اور محقق عالم دین ہیں ان کی قیمتی کتاب ہدیہ قارءین ہے 

Monday 4 January 2016

اے دشمنان سعودی عرب سن لو!

تمہارے بڑے بیت اللہ کے دشمن ،اللہ کے دشمن ،قرآن کے دشمن ،بیت اللہ کو گرانے کے لیے آنے والے زمانہ نبوی ﷺ سے پہلے تمہارے ہی تھے،قرآن سے دشمنی رکھنا تمہارا ہی کام ہے ۔اوررسول اللہ ﷺ کو مکہ مکرمہ سے نکالنے والے تمہارے ہی دادے تھے،رسول اللہ ﷺ کے خلاف جنگیں لڑنے والے بھی تمہاری نسل سے تھے ۔۔۔کسی بھی موقع پر تمہیں کامیابی نہیں ہوئی ۔۔جس طرح تمہارے بڑے ذلیل و رسوا ہوئے تھے اب تم بھی تیار رہیں اب تمہاری بھی باری ہے ۔ کیونکہ ! امت مسلمہ کے بچے بچے کا ایمان ہے کہ بیت اللہ کی حفاظت ایمان ہے مکہ اور مدینہ سے محبت ایمان کی نشانی ہے ۔۔ ہمارا پروردگار اللہ رب العزت ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ شیطان ہے شیطان کبھی بھی اللہ تعالی سے مغلوب نہیں سکتا ۔اللہ تعالی غالب ہے وہ طاقت ور ہے اس کی تدبیریں کامیاب ہیں اس کا گروہ غالب آکر رہے گا ۔ تمہارا ابوجہل کہاں ہے!؟ تمہارا عتبہ کہاں ہے!؟ تم صحابہ کے دشمن ہو تمہارے بڑے بھی دشمن تھے ۔جس طرح تمہارے بڑے ناکام ہوئے عبرت کا نشانہ بنے اب تمہاری باری ہے ۔ مسلمانوں کا ایمان ہے کہ صحابہ سے محبت ایمان کی نشانی ہے ۔ جس طرح صحابہ نے اپنی جانیں نچھاور کردیں آج ان سے محبت کرنے والے ان کی تاریخ کو دوبارہ دہرانے والے نوجوان زندہ ہیں ۔

زبدۃ الاحکام من جمع آیات الاحکام و عمدۃ الاحکام لمحمد ظہورخان حفظہ اللہ

down load link