Sunday 27 March 2016

فرض نماز کی جگہ نفل پڑھنا




تحریر:ابراہیم بن بشیر الحسینوی
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :اذا صلی احدکم الجمعۃ فلا یصل بعدھا شیء حتی یتکلم اویخرج(مسلم:۸۸۲،صحیح ابن خزیمہ:۱؍۱۹۴) 
جب تم میں سے کوئی ایک جمعہ کی نمازپڑھے تو اس کے ساتھ دوسری نمازملائے یہاں تک کہ وہ بات کرے یا وہاں سے نکل جائے ۔
کیا یہ نماز جمعہ کے ساتھ خاص ہے یہ عام ہے ؟
امام ابن ابی شیبیہ نے باب قائم کیا ہے (من کان یستحب اذا صلی الجمعہ ان یتحول من مکانہ )(۱۵؍۶۷)
اس کے تحت صحیح مسلم والی حدیث اور سلف کے آثار بیان کیے ہیں کہ جمعہ کی نماز کے بعدنفلی نماز کو اور جگہ پر ادا کرتے تھے ۔
امام ابوعوانہ نے کہا باب التطوع بعد الفریضۃ یوم الجمعہ من غیر الکلام (مستخرج ابی عوانہ:۲؍۴۶۷)
امام منذری نے بھی یہ باب قائم کیا ہے :باب لایصلی بعد الجمعہ حتی یتکلم اور یخرج (مختصر صحیح مسلم:۱؍۱۵۰)
یہ نماز جمعہ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام نمازوں کے لیے یہی حکم ہے کہ فرض کے ساتھ نفل نہ ملائیں جائیں بلکہ درمیان میں بات کرنے ،مسجد سے نکل جانے یا اپنی جگہ تبدیل کرنے سے فاصلہ کرلیناچاہیے ۔
امام بیہقی نے تمام نمازوں کے بارے کہا ہے والمستحب فی ہذہ الصلوات وغیرھامن النوافل بعدا لفریضۃ الایصلھا بالفریضۃ او یتحول عن مکانہ ۔(السنن الصغری:بعدح:۵۰۳)
نیز امام بیہقی نے کہا ھذہ الروایۃ تجمع الجمعۃ وغیرھا حیث قال:لاتوصل صلاۃ بصلاۃ ۔(السنن الکبری:۲؍۱۹۱)
البانی نے کہا نص صریح فی تحریم المبادرۃ الی صلاۃ السنۃ بعدالفریضۃدون تکلم اور خروج کمایفعلہ کثیر من المعاجم وبخاصۃ منھم الاتراک فاننا نراہم فی الحرمین الشریفین لایکاد الامام یسلم من الفریضۃ الابادر ھولا من ھنا وھناک من قیام السنۃ ۔(الصحیحۃ:۶؍۴۸)
ابن حجر نے فتح الباری میں عام کہا ہے (فتح الباری:۷؍۴۲۹)
ابن تیمیہ (مجموع الفتاوی:۲۴؍۲۰۲۔۲۰۳)
قشیری نے کہا ہے :وصل السنۃ بالفرض من غیر فصل بینھما منھی عنہ ۔(السنن والبدعات ص:۷۰)
ایک بندہ عصر کے فورا بعد نفل پڑھنے لگا تو عمر بن خطاب نے کہا اجلس فانما ھلک اہل الکتاب انہ لم یکن لصلاتھم فصل فقال رسول اللہ ﷺاحسن ابن الخطاب۔(مصنف عبدالرزاق:۲؍۴۳۲)(اسنادہ صحیح رجالہ ثقات ۔الصحیحہ:۶؍۱؍۱۰۵)
راجح یہی ہے کہ یہ عام ہے ہر فرضی نماز کو شامل ہے واللہ اعلم ۔

No comments:

Post a Comment