Thursday, 24 March 2016

دعو ت دین کے تقا ضے و داعی دین کے اوصاف


تالیف:
عدیل بن رفیق راجووالوی
متعلم: دارالحدیث الجامعۃ الکمالیہ راجووال
ناشر:
مرکز تحقیقات التراث الاسلامی قصور



اللہ تعالی کا بے پناہ فضل وکرم کہ اس نے فکری ،علمی ،عملی راہنمائی کے لیے نوع انسان ہی میں سے مقدس اور قابل تر ین انسانوں کو انبیاء منتخب فرمایا جو اللہ کے عطاکردہ ضابطہ حیات یعنی دین کے ذریعے لوگوں کی آخرت سنوار نے کے ساتھ انہیں دنیا کی مشکلات اور پریشانیوں سے نکالنے کے لئے آسان ترحل پیش کر تے رہے ۔اور ان کی ہدایت وراہنمائی کے لیے نبیeکو اس مشن کے ساتھ مبعوث فرماکر کہ آپ من گھڑت پانبدیوں ،ناروا بندشوں اور ہر قسم کی زنجیروں کو توڑکر لوگوں کو اللہ کی غلامی کی صف میں لاکر کھڑاکریں ۔
۱.اِخلاص :
قرآن کی نظر میں. دعوت دین کا کام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنا عمل اللہ تعالی کے لیے خالص کرے تاکہ اسے اس عمل کا اجر وثواب حاصل ہو اور وہ عمل شرف قبولیت حاصل کر سکے ۔ اخلاص قرآن کی روشنی میں اللہ تعالی فرماتاہے(وَمَااُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوْااللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَاءَ وَیَقِیْمُوْاالصَّلٰوۃَوَیُوتُّوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃ ) (سورۃ البینۃ۹۸:۵)
ْْْْ’’ان کو صرف اسی بات کا حکم دیاگیا تھا کہ وہ اللہ کے لیے دین کو خالص کر تے ہوئے یکسو ہو کر اس کی عبادت کر یں نماز قائم کریں ،زکوۃ اداکریں ۔اور یہم صیحح دین ہے ۔اور اللہ تعالی نے اپنے نبی کوحکم دیتے ہوئے فرمایا:
(قُلْ اِنِّی أُمِرْتُ اَنْ أعبداللہ مخلصالہ الدین)
(سورۃ الزمر)
’’آپ فرمادیں کہ مجھے حکم دیاگیاہے کہ اللہ کے لیے دین خالص کرتے ہوئے اس کی عبادے کروں۔
امام طبریhاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔
’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی محمدeکومخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے کہ اے محمدeاپنی قوم کے مشرکین سے کہہ دیجیے کہ میں اپنی اطاعت وعبادت کو صرف ایک اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی بند گی کرتاہوں۔
حدیث کی روشنی میں :
رسول اللہ eنے فرمایاہے :
((انماالاعمال بالنیات وانمالکل امریء مانوٰی))
(صحیح البخاری)
’’اعمال کا انحصار صرف اور صرف نیتوں پر ہے ۔ہرآدمی کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی ‘‘
حدیث مطہرہ اس مفہوم کو واضح کرتی ہیں کہ اخلاص کی موجودگی میں عمل مقبول ہوگااور اس کی غیرموفودگی میں مردودہے۔
رسول اللہeنے فرمایا:
((الاتعمل بماامرک اللہ بہ تریدالناس))
(جامع ترمذی)
’’جس چیز کا تجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیاہے تووہ کام لوگوں کے لیے نہ کرے۔
*اخلاص ہی اعمال کی قبولیت اور انسان کی نجات کا ذریعہ ہے۔
جودنیاکاہوشاہنشاہ وہ دنیادارانسان ہے
جودین حق کاداعی ہووہ سلطانوں میں سلطان ہے
اصلاح نفس:
دعوت دین کاکام کرنے والے کی زندگی کے اہم امور میں ایک امریہ بھی ہے کہ وہ عبادات کے ذریعے سے اپنے نفس کی اصلاح کی کو شش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے جو لوگوں کی اصلاح کے لیے توجستجوکرتے ہیں لیکن خود اپنے آپ کوفراموش کردیتے ہیں ۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
(اتامرون الناس بالبروتنسون انفسکم وانتم تتلون الکتب افلاتعقلون) 
(البقرہ:۶۶) ’’کیاتم لوگوں کونیکی کاحکم دیتے ہواور اپنے آپ کوبھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو،کیاتم عقل نہیں رکھتے ؟‘‘
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(کانوالایتناھون عن منکرفعلوہ لبئس ماکانوایفعلون)
(سورۃالمائدہ)
’’جوبرائی وہ کرتے تھے اس سے وہ ایک دوسرے کومنع نہیں کرتے تھے ان کاایساکرنابہت براکام ہے‘‘
لیکن اس سلسلے میں ایک بہت بڑی بات کی طرف توجہ دینابھی ضروری ہے اور امرونہی کالوگوں کے لیے قابل قبول ہونااوران پراثرانداز ہونا۔جب حکم دینے والااپنی ذات کے لحاظ سے نیک سیرت اوردرست اخلاق وکردارکاحامل ہوگاتواس کی بات ضرورمانی جائے گی ،اس کی گفتگو سنی جائے گی اور سارے معاشرے پر اس کااثر ہوگا۔ اس لیے امربامعروف اورنہی عن المنکر کاکام کرنے ہالے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ہر قسم کے احکامات پرعمل پیراہو،خواہ ان کاتعلق فرائض سے ہویانوافل سے ،اور اسے زادِراہ بناتے ہوئے اس سے اپنے امرونہی کے کام میں معاونت حاصل کرے۔ اس طرح معاشرے میں وہ ایک ایسی شخصیت بن جائے گاکہ لوگ اس کے نقش قدم لپر چلیں گے۔
علم وورع قرآن کی روشنی میں:
دعوت دین کاکام کرنے والامستغنی نہیں ہوسکتاہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے علم کامقام بلند کیا ہے اور علماء کو بھی ایسامقام ومرتبہ عطاکیا ہے جو تمام مسلمانوں کے مقام ومرتبہ سے بلندہے اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:
(قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون انما یتذکر أولوا الالبٰب) (سورۃالزمر۳۹:۹) 
’’آپ کہیے ،کیا علم والے اوربے علم برابر ہوسکتے ہیں؟نصیحت توصرف عقلمند ہی حاصل کرتے ہیں‘‘۔
(انمایخشی اللہ من عبادہ العلمٰؤا)
(سورۃفاطر۳۵:۲۸) 
’’اللہ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں ۔
*اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک عالم کواس کاعلم آمادہ کرتاہے کہ وہ اچھے کاموں کاحکم دے اوربرے کاموں سے منع کرے اوراس کاحکم دینایامنع کرناہدایت وبصیرت کے ساتھ ہوتاہے۔
*علم اورورع احادیث کی روشنی میں :
رسول اللہ e نے فرمایا:
((من یرد اللہ خیرایفقھہ فی الدین))
(صحیح بخاری)
’’اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتاہے اسے دین کی سمجھ عطاکردیتاہے‘‘۔
ایک حدیث میں نبی کریمeنے باعمل اور دوسروں کو تعلیم دینے والے عالم کی باقی لوگوں پر عظمت وبلندی کی وضاحت فرمادی ہے۔اس لیے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عمدہ زمین کی طرح ہوجوخودبھی فائدہ اٹھاتی ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ دیتی ہے ۔ اسے ب اعمل اور دوسروں کو تعلیم دینے والاعالم بنناچاہیے ۔
اس پر شاعر نے خوب کہا:
زندگی کچھ اورشے ہے ،علم ہے کچھ اورشے
زندگی سوزجگرہے ،علم ہے سوزدماغ
علم میں دولت بھی ہے، قدرت بھی ہے، لذت بھی ہے۔
ایک مشکل ہے کہ ساتھ آتانہیں اپناسراغ
علم وورع سلف صالحین کی نظرمیں:
سیدناابودرداءtسے مروی ہے :
((معلم الخیروالمتعلم فی الأخبرسواء ولبس لسائرالناس بعدخیر))
(سنن الدارمی :۳/۲۵)
’’بھلائی کی تعلیم دینے والا اورتعلیم لینے والا،اجروثواب میں دونوں برابرہیں۔ان کے علاوہ کسی اورکے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے ‘‘۔
شاعر ابوعمراحمدبن سعید اپنے شعرمیں کہتے ہیں:
لیس یزال یرفعہ الی ان 
یعظم قدرہ القوم الکرام
’’علم مسلسل اس شخص کو بلندکرتارہتاہے یہاں تک کہ قوم کے شرفابھی اسے عظیم القدرتسلیم کرلیتے ہیں۔
فبالعلم النجاۃمن المخازی
وبالجھل المذلۃ والرغام
’’ذلت ورسوائی سے نجات صرف علم ہی کی بدولت ہوسکتی ہے جبکہ جہالت سے ذلت ورسوائی حاصل ہوتی ہے‘‘
ورع:
دعوت دین کاکام کرنے والے کی زندگی میں تقویٰ بنیادی اور اہم امورمیں سے ہے ۔کیونکہ یہ عبادات کی قبولیت کی بنیاد ہے اور اس کے نتیجے میں وہ زہد حاصل ہوتاہے۔
نرمی ،بردباری اور درگزر:
دعوت دین کاکام کرنے والے سے یہی تقاضاہے کہ وہ اچھی بات کہے ۔مخاطب نیک ہوں یابدکار،اچھی بات کاان پر اثر ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے رسولeکے بارے میں فرماتاہے:
(فبمارحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظاغلیظ القلب لانفضوا من حولک)
(سورۃ آل عمران ۳/۱۵۹)
’’یہ اللہ کی رحمت تھی کہ آپeان کے ساتھ نرمی سے پیش آئے ۔اگر آپeبدمزاج اور سخت دل ہوتے تویہ سب لوگ آپeسے دور ہوجاتے ‘‘
*اس لیے دعوت دین کاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے لیے نرم خو،مہربان اور مشفق ہو۔وہ انھیں اس انداز سے دیکھے گویاوہ معالج ہے اور لوگ مریض ہیں،جنھیں علاج کی ضرورت ہے ۔دلی امراض سے بڑھ کر اور کون سامرض ہوسکتا ہے یہ ایسے ماہر معالج کی توجہ کے زیادہ مستحق ہیں جوہر مریض کو اس کی مناسب سے خوراک دے۔
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃوالموعظۃالحسنۃوجٰدلھم بالتی ھی احسن )
(سورۃ النحل ۱۶/۱۲۵)
’’اپنے رب کے راستے کی جانب حکمت اوراحسن وعظ کے ساتھ وعوت دیجیے،اوراس انداز سے بحث کیجیے جو بہت ہی اچھاہو۔
سیدناعلی tفرماتے ہیں:
’’بہترین عالم وہ ہے جولوگوں کوایسے انداز سے خداکی طرف دعوت دیتاہے کہ خدا سے مایوس نہیں کرتااور نہ خداکہ بافرمانی کیلئے انہیں رخصتیں دیتا اور نہ خداکے عذاب سے انہیں بے خوف بناتاہے۔
کسی شاعر نے کیاخوب کہاہے :
خذاالعفووأمربعوف کما
امرت واعرض عن الجاھلینا
(زھرۃالاداب وثمرالالباب)
’’درگزرکاوصف اختیار کراور اچھی بات کہہ ۔جیساکہ تجھے حکم دیاگیااا ہے اور جاہلوں سے اعراض کر ‘‘
صبر:
دعوت دین کاکام کرنے والے کو جن اوصاف سے آراستہ ہوناچاہیے ۔ان میں ایک اہم ترین وصف صبر ہے کیونکہ دعوت دین کاکام کرنے والے کوکئی طرح کی تکالیف اور اپنی جان،ما ل اور عزت کے معاملے میں کئی طرح کی آزمائشوں کاسامناکرنا پڑے گا۔ خاص طور پر جب وہ لوگوں میں اللہ کی شریعت کو بافذ کرنے کے لیے انتہائی کوشش کرے گا تواسے صبر سے مسلح ہونے کی اشدضرورت ہوگی۔
سیدنالقمانuنے اپنے بیٹے کو جووصیتیں فرمائیں،اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن مجیدمیں نقل فرمایاہے سیدنالقمانuنے کہا:
(یٰبني أقم الصلوٰۃ وأمربالمعروف وانہ عن المنکرواصبر علی مااصابک ان ذٰلک من عزم الأمور)
(لقمان: ۳۱/۱۷)
’’اے بیٹے !نماز قائم کر، بھلائی کاحکم دے ،برائی سے منع کر،پھر تجھے جوتکالیف آئیں ان پر صبر کر،یہ بات عزیمت والے امور میں سے ہے ‘‘۔
*ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
(ثم کان من الذین أمنواوتواصوابالصبرواصوابالمرحمۃ)
(البلد :۹۰/۷۱.۱۸)
’’پھروہ ان لوگوں میں سے ہوجاتاجوایمان لاتے اورایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور ایک دوسے کورحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘۔
*تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کی وجہ سے انھیں خوش بختی والا بنادیا۔
رسول اللہ e نے فرمایا:
((مایصیب المؤمن من وصب،ولانصب،ولاسقم ،ولاحزن، حتی الھم یھمہ الاکفربہ من سیئاتہ ))
(صحیح البخاری)
’’مومن کوجوتکلیف ،مشقت ،بیماری یاغم پہنچتا ہے یہاں تک کہ کوئی بے چینی جواسے پریشان کردے،ان سب کی وجہ سے اس کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں‘‘۔
*یہ حدیث بتاتی ہے کہ ایمان کی مضبوطی اورکمزوری کے لحاظ سے مسلمان پرآزمائش اور امتحان آتے رہتے ہیں۔اگروہ صبر کرے اوراللہ تعالیٰ سے ثواب کی امیدرکھے تواللہ تعالیٰ اس کے گناہ اور خطائیں معاف فرمادیتا ہے ۔اگر یہ آزمائشیں عام لوگوں پر آسکتی ہیں توان سے بڑھ کردعوت دین کاکام کرنے والے پرآسکتی ہیں۔اس لیے اسے سب سے بڑھ کرصبرواحتساب کرناچاہیے ،خاص طور پران تکالیف میں جواسے امرونہی کے کام کی وجہ سے پیش آئیں سیدناعلی 7 tفرماتے ہیں:
’’صبرایک ایسی سواری ہے جوکبھی اندھے منہ نہیں گرتی 
(احکام القرآن للقرطبی)

No comments:

Post a Comment