Sunday, 15 February 2015
حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات
ازقلم: ابن بشیر الحسینوی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں نے اپنے مضمون میں مختلف اشکالات کے جوابات دینے پر اکتفاء کیا مگر بعض بھائیوں نے اس کو سمجھنے کی بجائے غلط ہوا دینی شروع کی ،اللہ تعالی ہم سب کی اصلاح فرمائے آمین ۔اور بعض بھائیوں کی خیر خوا ہانہ باتیں انتہائی اچھی لگیں اللہ تعالی تمام بھائیوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔آمین ۔
میرے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے جس میں بعض ترمیمات انتہائی ضروری تھیں وہ میں نے کر دی ہیں اور اسی کو اصل سمجھا جائے اور پہلی تحریر سے راقم الحروف بری ہے۔اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالی میرے تمام اساتذہ پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے کہ جن کی محنت وکاوش سے ہی سب کچھ ملا ہے ۔
حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات:
محترم حافظ خبیب احمد الاثری نے لکھتے ہیں ’’حسن لغیرہ کے بارے میں بعض لوگ انتہائی غیر محتاط رویہ اپناتے ہیں، ان کے نزدیک ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی مطلق طور پر کوئی حیثیت نہیں، خواہ اس حدیث کے ضعف کا احتمال بھی رفع ہوجائے۔ بزعم خویش حدیث کے بارے میں ان کی معلومات امام ترمذی، حافظ بیہقی، حافظ عراقی، حافظ ابن حجرؒ وغیرہ سے زیادہ ہیں۔ حالانکہ یہ بداہتاً معلوم ہے کہ جس طرح رواۃ کی ثقاہت کے مختلف طبقات ہیں اسی طرح ان کے ضعف کے بھی مختلف درجات ہیں۔ کسی راوی کو نسیان کا مرض لاحق ہے تو کسی پر دروغ بافی کا الزام ہے، بعض کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے: ’’یُعْتَبرْ بِھِمْ، یُکْتَبُ حَدِیْثُھُمْ‘‘ جبکہ بعض کے بارے میں ’’لَا یُعْتَبرْ بِھِمْ، لَا یُکْتَبُ حَدِیْثُھُمْ‘‘ ہے۔
’’حسن لغیرہ کا مطلق طور پر انکار کرنے والے جس انداز سے متاخرین محدثین کی کاوشوں کو رائیگاں قرار دینے کی سعی نامشکور کرتے ہیں اسی طرح متقدمین جہابذۂ فن کے راویان کی طبقہ بندی کی بھی ناقدری کرتے ہیں اور بایں ہمہ وہ فرامین نبویہ کی خدمت میں مصروف ہیں۔ إِنا ﷲ وإِنا إلیہ راجعون۔‘‘
(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ)
Labels:
دفاع حدیث
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
پہلااشکال:
ReplyDelete’’بعض لوگ ضعیف + ضعیف کے اصول اور جمع تفریق کے ذریعے سے بعض روایات کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں۔‘‘
جواب:
حسن لغیرہ کو ماننے والے جمہور علما ہیں نہ کہ بعض لوگ، چنانچہ ذیل میں ہم بعض علما و محدثین کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
۱۔ امام ترمذیؒ:
’’امام ترمذی کے علاوہ عام محدثین سے ایسی’’حسن لغیرہ ‘‘روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں۔‘‘ (علمی مقالات: ۱/ ۳۰۰)
معلوم ہوا کہ امام ترمذی حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں ۔والحمدللہ
۲۔ امام بیہقی۔ (معرفہ السنن والآثار: ۱/ ۳۴۸، نصب الرایۃ: ۱/ ۹۳)
۳۔ نووی (اربعین نووی حدیث نمبر: ۳۲)
۴۔ ابن الصلاح (مقدمۃ علوم الحدیث صفحہ: ۳۷)
۵۔ امام ابن قطان (النکت علیٰ ابن الصلاح لابن حجر: صفحہ ۱۲۶، طبع دار الکتب العلمیہ بیروت)
۶۔ ابن رجب حنبلی (جامع العلوم والحکم صفحہ: ۳۰۲)
۷۔ ابن تیمیہؒ (مجموع الفتاویٰ: ۱/ ۲۵۱)
۸۔ ابن قیم (جلاء الافہام صفحہ: ۱۹۹)
۹۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (فتح الباری: ۳/ ۱۸۸)
۱۰۔ ابن کثیر ( اختصار علو م الحدیث صفحہ: ۴۹، ۵۰)
۱۱۔ حافظ سخاوی (فتح المغیث)
۱۲۔ سیوطی (تدریب الراوی: ۱/ ۱۶۰)
۱۳۔ علامہ مناوی ( شرح الجامع الصغیر: ۹۸۲، ۱۳۷)
۱۴۔ زرقانی (شرح الزرقانی: ۱/ ۶۸)
۱۵۔ شمس الحق عظیم آبادی (عون المعبود: ۹/ ۲۹۱)
۱۶۔ عبدالرحمن مبارکپوری (مقدمۃ تحفۃ الأحوذی: ۱۵۲)
۱۷۔ عبیداللہ مبارکپوری۔ (مرعاۃ: ۲ صفحہ ۵۱۱)
۱۸۔ طاہر الجزائری(توجیہ النظر: ۵۰۶)
۱۹۔ امام ناصر الدین البانی۔
۲۰۔ جمال الدین قاسمی( قواعد التحدیث صفحہ: ۶۶)
۲۱۔ دکتور حمزہ ملیبار ی ( الموازنہ صفحہ: ۴۹)
۲۲۔ محدث کبیر استاذ محترم ارشاد الحق اثری۔
۲۳۔ غازی عزیز مبارکپوری (ضعیف احادیث کی شرعی حیثیت صفحہ: ۱۹۲)
۲۴۔ امام العصر علامہ ابو اسحاق الحوینی(کشف المخبوء صفحہ: ۲۳)
۲۵۔ الدکتور خالد بن منصور الدریس( آراء المحدثین فی الحسن لذاتہ ولغیرہ)
۲۶۔ محدث حجاز -عبدالمحسن العباد ( شرح سنن ابی داود (۱۵/۱۳۳، ۱۴/ ۴۹، ۳/ ۳۴۵)
علاوہ ازیں امام سفیان بن عیینہ، امام شافعی، یحییٰ بن سعید قطان، محمد بن یحییٰ ذہلی، امام بخاری، امام ترمذی، امام دارقطنی، ابن ترکمانی، حافظ علائی، حافظ ذہبی، حافظ عراقی سے بھی حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت کیا گیا ہے ۔ان اقوال کی تفصیل کا طالب شیخ ابن ابی العینین کی کتاب ’’القول الحسن‘‘ کا مطالعہ کرے۔
جو علماء و محدثین حسن لغیرہ کو قابل عمل و احتجاج سمجھتے ہیں ان کے ناموں کا ذکر کرنے کا مقصود صرف یہ تھا ’’بعض لوگ ضعیف +ضعیف کے اصول اور جمع تفریق کے ذریعے سے بعض روایات کو حسن لغیرہ قرار دیتے ہیں۔‘‘ درست نہیں ہے
دوسرااشکال:
ReplyDeleteلیکن حافظ ابن حزم اس اصول کے سخت خلاف تھے بلکہ زرکشی نے ابن حزم سے نقل کیا ہے: ’’ولو بلغت طرق الضعیف ألفاً لا یقوی…‘‘ ’’اور اگر ضعیف حدیث کی ہزار سندیں بھی ہوں تو اس سے روایت قوی نہیں ہوتی…۔‘‘ اگرچہ زرکشی نے اسے شاذ اور مردود کہا ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ یہی قول راجح اور صحیح ہے۔‘‘
یہ قول محمد احمد جلمد نے بھی اپنی کتاب الحدیث الحسن بین الحد والحجیۃ میں بطور دلیل پیش کیا ہے !
جواب:
۱۔یہ قول بے سند ہے
۲۔ امام زرکشی نے اس قول کو شاذ ومردود کہا ہے
’’اگرچہ امام زرکشی نے اسے شاذاور مردود کہا ہے لیکن انصاف یہ ہے کہ یہ قول راجح اور صحیح ہے۔‘‘
اور امام ابن حزم کے قول کی تردید کے لیے امام زرکشی کی عبارت ہی کافی ہے۔
تیسرا اشکال:
ReplyDeleteحسن لغیرہ کے مسئلے پر عمرو بن عبدالمنعم بن سلیم کی کتاب ’’الحسن لمجموع الطرق في میزان الاحتجاج بین المتقدمین والمتأخرین‘‘ بہت مفید ہے۔
جواب:
قارئین سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر راہِ انصاف کو پانے کے لیے مندرجہ ذیل کتب بھی ملاحظہ فرمائیں جن میں مذکورہ بالا کتاب اوراس مسئلے پر شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے:
۱۔ القول الحسن في کشف شبھات حول الاحتجاج بالحدیث الحسن مع تصویب الأسنۃ لصد عدوان المعترض علی الأئمۃ للشیخ ابن أبي العینین۔
۲۔ الرد علی کتاب الحسن بمجموع الطرق في میزان الاحتجاج بین المتقدمین والمتأخرین للشیخ أبي المنذر المنیاوي۔
۳۔ الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ للدکتور خالد بن منصور الدریس۔
۴۔ مناھج المحدثین في تقویۃ الأحادیث الحسنۃ والضعیفۃ للدکتور المرتضیٰ زین أحمد۔
۵۔ حسن لغیرہ للحافظ خبیب أحمد الاثری ۔
کیا ابن قطان کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں؟
ReplyDeleteچوتھا اشکال:
حافظ ابن القطان الفاسی نے حسن لغیرہ کے بارے میں صراحت کی ہے کہ: ’لایحتج بہ کلہ بل یعمل بہ فی فضائل الأعمال…‘‘ ’’اس ساری کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی بلکہ فضائل اعمال میں اس پر عمل کیا جاتا ہے…۔ (النکت علی کتاب ابن الصلاح: ۱/ ۴۰۲)
’’حافظ ابن حجر نے اس قول کو’’ حسن قوی‘‘ یعنی اچھا مضبوط قرار دیا ہے۔‘‘
جواب:
۱۔ پہلے امام ابن قطان کا مکمل قول ملاحظہ ہو:
’’لایحتج بہ کلہ بل یعمل بہ فی فضائل الأعمال ویتوقف عن العمل بہ فی الأحکام إلا إذا کثرت طرقہ أوعضدہ اتصال عمل أو موافقۃ شاہد صحیح أو ظاہر القرآن۔‘‘ (النکت لابن حجر: ۴۰۲)
’’اس ساری کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاسکتی بلکہ اس کے ساتھ عمل کیا جاسکتا ہے اوراحکام میں اس کے ساتھ عمل میں توقف کیا جاتا ہے مگر جب اس کے طرق زیادہ ہوں یا اس کو مضبوط کرے کوئی متصل عمل، صحیح شاہد یا قرآن کے ظاہر کا اس کے ساتھ موافقت کرنا۔‘‘
امام ابن قطان تو کہہ رہے ہیں کہ اگر کثرت طرق ہوں تو عمل کیا جائے گا
انصاف شرط ہے کوئی بھی عالم دین اس مکمل قول کو پڑھے تو فوراً سمجھ جائے گا کہ امام ابن قطان تو حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت کررہے ہیں اور ابن حجر نے بھی جواس قول کو ’’اچھا اور قوی قرار دیا ہے‘‘ تو انھوں نے بھی حسن لغیرہ کا حجت ہونا مراد لیا ہے۔
۲۔ کئی علماء نے ابن قطان کی عبارت کو حسن لغیرہ کی حجیت میں ذکر کیا ہے۔ مثلاً امام سخاوی (فتح المغیث، ص:۴۹) طاہرالجزائری (توجیہ النظرصفحہ: ۵۰۶) جمال الدین قاسمی (قواعد التحدیث صفحہ: ۶۶) دکتور حمزہ ملیباری(الموازنہ، صفحہ: ۴۹) علامہ ابواسحاق الحوینی (کشف المخبوئ، صفحہ: ۲۳) غازی عزیز مبارکپوری (ضعیف احادیث کی شرعی حیثیت صفحہ: ۱۹۳)
کیا حافظ ابن حجرؒ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں؟
ReplyDeleteحافظ ابن حجرؒ کی کتب کا مطالعہ کرنے والاطالب علم بھی اس بات کی شہادت دے گا کہ حافظ ابن حجرؒ حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’جب ’’سیئ الحفظ‘‘ کی کسی ایسے قابل اعتبار راوی سے تائید ہو رہی ہو کہ وہ اس راوی سے بڑھ کر ہو یا کم از کم اس جیسا ہو اس سے کم تر نہ ہو تو ان کی حدیث حسن ہو جائے گی مگر حسن لذاتہ نہیں ہو گی بلکہ اس کا حسن بننا متابع اور متابع کے مجموعے سے ہو گا۔‘‘ (النزھۃ، ص: ۴۸، النکت، ص: ۱۳۹)
کیا حافظ ابن کثیرؒ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں؟
ReplyDeleteچھٹا اشکال:
حافظ ابن کثیر نے فرمایا:
’’مناظرے میں یہ کافی ہے کہ مخالف کی بیان کردہ سند کا ضعیف ہونا ثابت کردیا جائے، وہ لاجواب ہوجائے گا کیونکہ اصل یہ ہے کہ دوسری تمام روایات معدوم ہیں۔ الا کہ دوسری سند سے ثابت ہو جائیں۔‘‘ (اختصار علوم الحدیث: 274,275/1، نوع: 22،)
جواب:
۱۔ حافظ ابن کثیرؒ کے اس قول کا حسن لغیرہ کی حجیت اور عدمِ حجیت سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ ہر شخص بآسانی اصل کتاب کی طرف مراجعت کرنے کے بعد معلوم کر سکتا ہے۔
۲۔ حافظ ابن کثیرؒ اختصار علوم الحدیث (صفحہ: ۴۹، ۵۰) میں نقل کرتے ہیں:
’’ومنہ ضعفٌ یزول بالمتابعۃ، کما إذا کان راویہ سيء الحفظ، أو روی الحدیث مرسلاً، فإن المتابعۃ تنفع حینئذٍ، و یرفع الحدیث في حیز الضعف إلٰی أوج الحسنی أو الصحۃ۔ واﷲ أعلم‘‘
’’بعض ضعف متابعت سے زائل ہوجاتا ہے جیسا کہ راوی سییء الحفظ(برے حافظے والا) ہو یا حدیث مرسل ہو تو اس و قت متابعت فائدہ دیتی ہے اور حدیث ضعف کی گہرائیوں سے بلند ہوکر حسن یا صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘ (اختصار علوم الحدیث اردو: ۲۹)
معلوم ہوا کہ ابن کثیر تو ابن الصلاح کے اس قول کو حسن لغیرہ کی حجیت میںنقل کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن کثیر کا اپنا موقف بھی یہی ہے کہ حسن لغیرہ حجت ہے۔
۳۔ اورتفسیر ابن کثیر(۱؍۱۷۰،۲؍۱۹۶) پڑھیں تو وہاں بھی ابن کثیر نے حسن لغیرہ کو حجت تسلیم کیا ہے۔
شیخ محترم
ReplyDeleteبعض لوگ یہ اشکال دیتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ حسن لغیرہ کے قائل نہیں تھے
کیا یہ درست ہے؟