Sunday, 15 February 2015
روزوں کے احکام
تالیف :ابن بشیر الحسینوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزہ اور اس کے متعلق احکام و مسائل
رمضان کے روزے فرض ہیں( البقرہ:184،185،بخاری:8مسلم::1080)فرضی روزہ کی نیت رات کو فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے ۔(سنن النسائی:2338،وسندہ صحیح)امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ '' اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرضی روزے مراد لیے ہیں نفلی نہیں۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح1935))
فرضی روزہ کی روزانہ رات کو نیت کرنی چاہیے ۔
اوپر والی حدیث اس پر صادق آتی ہے ۔امام ابن خزیمہ نے (انما الاعمال بالنیات) پر باب باندھا ہے کہ:''روزہ کی اس دن فجر طلوع ہونے سے پہلے روزانہ نیت کرنا واجب ہے ،برخلاف اس آدمی کے جس نے کہا ہے کہ ایک دفعہ کی نیت تمام مہینے کے لیے کافی ہے۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح1934))
اور امام ابن المنذر النیشابوری فرماتے ہیں :''اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم123))
وصال(بغیر افطار ی اور سحری کے روزہ رکھ لینا)منع ہے(بخاری:1962،م:1102)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہئے۔(بخاری:1957،مسلم :1098)سحری دیر سے کھانی مستحب ہے۔(مصنف عبدالرزاق:7591،صححہ ابن حجر:فتح الباری:4/713)سینگھی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(بخاری:1938)دوران روزہ سرمہ لگانا جائز ہے۔(ق:1678،صححہ البانی)
دوران روزہ جھوٹ سے پرہیزلازم ہے۔(بخاری:1903)لغو اور بے ہودہ باتوں سے پرہیز لازم ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:1996)حالت جنابت میں روزہ رکھنا جائز ہے۔(بخاری:1926،مسلم :1109)گرمی کی وجہ سے دوران روزہ غسل کرنا مسنون ہے ۔(سنن ابی داود::2365،صححہ البانی)مبالغہ سے ناک میں پانی نہ چڑھائے(سنن الترمزی::788،صححہ البانی)روزہ افطار کرنے کی دعا:ذھب الظماوابتلت العروق وثبت الاجر ان شاء اللہ(سنن ابی داود::2357،حسنہ البانی)
روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے:تازہ کھجور،یا چھوہارے یا پانی سے کرنا چاہیے(د:2356،صححہ البانی)افطار کروانے والے کو روزہ روزہ دار کے مثل اجر ملے گا۔(ت:807،صححہ البانی)مریض یا مسافر پر روزہ ضروری نہیں پھر قضاء لازم ہے (البقرہ:184،)اسی طرح حائضہ (اور نفاس )والی عورت بعد میں قضائی دے گی (بخاری:321،م:335)دوران سفر روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔(بخاری:1943،م:1121)جس آدمی کے ذمے روزے تھے وہ فوت ہو جائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے ۔(بخاری:1952،م:1147)
روزہ باطل کرنے والے امور
جان بوجھ کر کھانا ،پینا(بخاری:1894)لیکن بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا(بخاری:1933،م:1155)جماع کرنا(بخاری:1936،مسلم:111)اس کا کفارہ یہ ہے کہ:ایک گردن آزاد کرنا اس کی طاقت نہیں تو دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنا اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا۔(بخاری:1936،مسلم:1111)جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے(سنن ابی داود::2380،صححہ البانی)حیض (اور نفاس )کے شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(بخار)
..............................
رات اور روزہ
اس میں درج ذیل بحثیں ہیں:
1:
چاند کو دیکھ کر رمضان کے روزے شروع کرنا
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( صوموا لرویتہ ..)) چاند دیکھ کر روزہ رکھو ۔ ( صحیح البخاری :1909، صحیح مسلم : 1081)
سیدنا عبداللہ بن عمر iسے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ((لا تصوموا حتی تروا الھلال ...))
اس وقت تک تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو۔ (صحیح البخاری : 1906، صحیح مسلم : 1080)
2:
شک والے دن روزہ نہیں رکھنا چاہئے
سیدنا عمار نے فرمایا: '' من صام یوم الشک فقد عصی أبا القاسم '' جس نے شک والے دن ( چاند کے طلوع میں شک کے باوجود ) روزہ رکھا تو یقیناًاس نے ابو القاسم ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی۔ ( صحیح البخاری قبل ح 1906 )
3:
رؤیتِ ہلال کے ثبوت کے لئے
دو (عادل) مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے ( سنن ابی داود:2339 وھو صحیح )رؤیتِ ہلال میں اگر ایک (عادل) مسلمان کی گواہی مل جائے تو وہ بھی قبول کی جائے گی ۔
(ابو داود : 2342،وسندہ صحیح ، صحیح ابن حبان : 871 )
4:
چاند دیکھ کر ہی روزے ختم کرنا
سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ فإن غم علیکم فاکملوا شعبان ثلاثین)) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو۔اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لے۔(صحیح البخاری : 1909، صحیح مسلم : 1081)
5:
رؤیت ہلال کی دعا
صحیح روایت میں صرف یہ آیا ہے کہ نبی ﷺنے پہلی رات کے بعد والا چاند دیکھا تو فرمایا : اے عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ الخ ( سنن الترمذی : 3366 وسندہ حسن وقال الترمذی : '' حسن صحیح '' و صححہ الحاکم 2/ 540 ، 541 ووافقہ الذہبی )
6: اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا۔ (صحیح ابن خزیمہ 3/205ح 1916، ورواہ مسلم : 1087)
تنبیہ :
اگر پہلی رات کا چاند تھوڑا سا بڑا نظر آئے تو اسے سابقہ دن کا خیال کرنا غلط ہے۔
(دیکھئے صحیح ابن خزیمہ 3/206ح 1919)
فائدہ :
بیوہ یا مطلقہ کی عدت ،مدت حمل، رضاعت ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کا اعتبار چاند سے ہی لگایا جاتا ہے۔
7
: جس شخص نے قربانی کرنی ہے
و وہ ذوالحجہ کے چاند طلوع ہونے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے۔
سیدہ ام سلمہk سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((إذا رأیتم ھلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحی فلیمسک عن شعرہ وأظفارہ))
جب ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمھارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کوکاٹنے اور تراشنے ) سے بچو۔ (صحیح مسلم : 1977)
8:
فرضی روزہ کی نیت رات کو کرنا ضروری ہے
ام المومنین سیدہ حفصہ نے فرمایا: '' لا صیام لمن لم یجمع قبل الفجر '' جو شخص فجر سے پہلے نیت نہ کرے ،اس کا روزہ نہیں ہے۔ ( سنن النسائی 4/197ح 2338 وسندہ صحیح )
نفلی روزوں کی دن کو بھی نیت کر سکتے ہیں ۔ تفصیل کے لئے دیکھیں صحیح البخاری ( 1924 )
9:
فرضی روزہ کی روزانہ رات کو نیت کرنی چاہئے
اوپر والی حدیث بھی اس پر صادق آتی ہے اور امام ابن المنذر النیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہررات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا، اس کا روزہ مکمل ہے۔'' ( کتاب الاجماع ص 38 مترجم ) نیز دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ( 3/212)
تنبیہ: ''وبصوم غد نویت من شھر رمضان '' کے مروجہ الفاظ سے روزہ کی نیت کرنا حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔
فائدہ : نیت دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا ۔مزید تحقیق کے لئے دیکھئے ہمارا رسالہ ''نیت کے احکام''
10: رات کو سحری کھانا
سیدنا عمرو بن العاص ﷺسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( فصل ما بین صیامنا وصیام أھل الکتاب أکلۃ السحر))
ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کے درمیان حدِفاصل سحری کھانا ہے۔( صحیح مسلم : 1096)
سیدنا انس بن مالک ﷺسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( تسحروا فإن فی السحور برکۃ )) سحری کاکھانا کھاؤ، بے شک سحری کے کھانے میں برکت ہے۔
( صحیح البخاری : 1923 ، صحیح مسلم : 1095)
مومن کی بہترین سحری کھجور کا کھانا ہے۔ ( سنن ابی داود : 2345وسندہ صحیح ، صحیح ابن حبان :883)
سحری تاخیر سے کھانی چاہئے اذانِ فجر اور سحری کھانے کا درمیانی وقت تقریباً پچاس آیات (پڑھنے کے برابر ) کا ہونا چاہئے ۔ (صحیح البخاری : 1921 ، صحیح مسلم : 1097)
11:
رات کے شروع ہوتے ہی
( یعنی غروبِ آفتاب کے فوراً بعد) روزہ افطار کر نا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج)
پھر رات تک( اپنے )روزے پورے کرو۔ (البقرہ : 187)
افطاری کرنے میں جلدی کرنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ افطاری میں جلدی کریں گے۔ (صحیح البخاری : 1957 ، صحیح مسلم 1093)
12:
روزوں کی راتوں میں اپنی بیوی
سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْط) روزوں کی راتوں میں تمھارے لئے اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ ( البقرہ : :۷۸۱)
13:
رات کو روزہ نہیں ہوتا
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ '' پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو۔'' (البقرہ : 187)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دلیل کی روشنی میں فرمایا کہ '' یہ اس شخص کی دلیل ہے جس نے کہا کہ رات کو روزہ نہیں ہے۔'' (صحیح بخاری قبل ح 1961)
14: لیلۃ القدر کے احکام
لیلۃ القدر کے احکام درج ذیل ہیں :
1۔ یہ برکت والی رات ہے ۔ ( الدخان : ۳)
اس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ( الدخان :۴)
یہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ( القدر :۳)
اس رات روح اور فرشتے اپنے پروردگار کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ (القدر:۴)
یہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک ۔ ( القدر :۵)
اس رات قرآن مجید نازل ہوا ۔ ( القدر:۱)
2۔لیلۃ القدر کو تلاش کرنا:
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا (( تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من عشر الآواخر من رمضان )رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ ( صحیح البخاری : 2017، صحیح مسلم :۹۶۱۱)
3۔لیلۃ القدر کے قیام کا ثواب:
سیدنا ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس شخص نے لیلۃ القدر کا قیام، ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا ، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
( صحیح البخاری : 1901، صحیح مسلم :۹۵۷)
4۔لیلۃ القدر کی دعا:
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر مجھے لیلۃ القدر کا علم ہو جائے تو میں کیا کہوں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:کہو : '' اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی '' اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے معاف کر دے۔ ( سنن الترمذی : 3513 وقال:'' حسن صحیح'' وھو صحیح )
5۔ لیلۃ القدر کی علامات:
اس کی صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ بلند ہونے تک ایک تھال کی طرح ہوتا ہے ۔ اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم : 762)
6۔ لیلۃ القدر کی نماز عشاء باجماعت پڑھنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے لیلۃ القدر کی فضیلت کو پا لیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ 3/333ح 2195وسندہ حسن ، عقبۃ بن ابی الحسناء وثقہ ابن خزیمہ و ابن حبان)
15: رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں سخت محنت کرنا
سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دس دن آتے تو رسول اللہ ﷺ کمربستہ ہو جاتے، رات کو جاگتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار کرتے۔
(صحیح البخاری : 2024، صحیح مسلم : 1173)
16: ایک رات کا اعتکاف بھی صحیح ہے ۔ (صحیح البخاری : 2032 ، صحیح مسلم : 1656)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روزوں کے متعلق غیر ثابت روایات اور مسائل کا تذکرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا بخش کا اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ۔
امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :''یہ حدیث منکر ہے ۔''(العلل لابن ابی حاتم :۱؍۹۴۲)
امام عقیلی رحمہ اللہ نے کہا :''اس کی کو ئی اصل نہیں ہے ۔''(الکامل :۳؍۷۵۱۱)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:اس حدیث کا دارو مدار علی بن زید پر ہے اور وہ ضعیف ہے (اتحاف المہرۃ :۵؍۱۶۵)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :''منکر'' (الضعیفہ :۱۷۸)
شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :''یہ حدیث باطل ہے۔''(النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔۱؍۱۹۲)
(۲)روزے کی نیت ان الفاظ سے کرنا ۔
(وبصوم غد نویت من شہر رمضان)
یہ الفاظ قرآن و حدیث میں کہیں ثابت نہیں ہیں بلکہ کسی جھوٹے انسان کے گھڑے ہوئے ہیں اور جس نے یہ الفاظ بنائے ہیں اس کو عربی زبان بھی نہیں آتی تھی کیو نکہ لفظ ''غد ''کے معنی ہیں ''کل''اور نیت کرنے والا آج کے روزے کی نیت کرتا ہے ،دین قرآن وحدیث کا نام ہے لوگوں کی باتیں ہرگز دین نہیں ہوسکتیں ۔نیت دل سے ہوتی ہے نہ کہ زبان سے۔
(۳)دعاء وتر میں (نستغفرک ونتوب الیک )پڑھناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔
(۴)رکوع کے بعد دعاء وتر پڑھنے والے ایک ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہیں
وہ (السنن الکبری :۳؍۸۳،۹۳،مستدرک الحاکم:۳؍۲۷۱)میں ہے لیکن اس کی سند میں فضل بن محمد بن المسیب الشعرانی راوی ضعیف ہے ،اس کے متعلق:
حسین بن محمد القتبانی رحمہ اللہ نے کہا :''کذاب ''(لسان المیزان:۴؍۸۴۴)
امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا۔''تکلموا فیہ ''محدثین نے اس کے متعلق کلام کیا ہے۔(الجرح و التعدیل:۷؍۲۹)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث فوائد ابی بکرالاصبھانی تخریج الحاکم میں دیکھی ہے وہاں دعاء وتر رکوع سے پہلے پڑھنے کا ذکر ہے ۔(تلخیص الحبیر :۱؍۵۰۶)
اور التوحید لابن مندہ (۲؍۱۹۱) میں فضل بن محمد بن مسیب کا قول ثابت ہے کہ میں دعاء وتر رکوع سے پہلے قراء ت سے فارغ ہو کر کہتا ہوں۔
فائدہ: سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر میں رکوع سے پہلے دعاء وتر پڑھتے تھے ۔(سنن النسائی :۰۰۷۱،سنن ابن ماجہ :۲۸۱۱)محدثین (ضیاء مقدسی:المختارہ : ۱؍۰۰۴،امام ابن السکن ۔الدرایۃ: اورشیخ البانی) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔(ارواء الغلیل :/۷۶۱)
ابن مسعود رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے دعاء وتر پڑھتے تھے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی:۹؍۴۸۲)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا :یہ قول صحیح ہے۔ (الدرایۃ:۱؍۳۹۱)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا:سندہ صحیح ''(ارواء الغلیل :۲؍۶۶۱)
علقمہ نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام دعاء وتر رکوع سے پہلے کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ :۲؍۲۰۳)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :یہ سند اچھی ہے اور یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے (ارواء الغلیل:۲؍۶۶۱)
اسی طرح کئی ایک صحابہ و تابعین وغیرہ سے بھی دعاء وتر رکوع سے پہلے ثابت ہے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ :۲؍۲۰۳،ارواء الغلیل:۲؍۶۶۱۔۸۶۱ )
(۵)نماز تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد مخصوص دعاء پڑھنا ثابت نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیدنا ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانو ں کے غلام ،آزاد،مرد عورت ،بچے اور بوڑھے سب پر صدقہ فطر فرض کیا ہے ایک صاع (تقریبا اڑھائی کلو )کھجوروں سے اور ایک صاع جو سے( اور صاع گندم سے )اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ یہ فطرانہ نماز عید کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے ۔''(بخاری:۳۰۵۱،مسلم:۴۸۹)
عید سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر ادا کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے ۔(بخاری:۱۱۵۱)
صدقہ فطر میں جنس( گندم وغیرہ) دینی چاہئے یہ احادیث سے ثابت ہے عبداللہ بن احمد نے کہا کہ میں نے اپنے باپ امام احمد بن حنبل سے سنا ،آپ صدقہ فطر کی قیمت نکالنا مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر کوئی شخص قیمت دے گا تو اس کا صدقہ فطر ہی جائز نہیں ہو گا ''َ(مسائل عبداللہ بن احمد بن حنبل :۹۰۸)
امام احمد سے کہا گیا کہ:''لوگ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ صدقہ فطر میں قیمت قبول کر لیتے تھے ''تو انھوں نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں !فلاں یہ کہتا ہے !''(السنن والمبتدعات ص۶۰۲)
امام ابن تیمیہ نے کہا:''صدقہ فطر روز مرہ کی خوراک سے ادا کرنا چاہئے ''۔(مجموع الفتاوی:۵۲؍۵۳۔۶۳)
بعض اہل علم نقدی سے بھی صدقہ فطر ادا کرنے کی اجازت دیتے ہیں واللہ اعلم بالصواب ۔
فائدہ : عورت نکاح سے پہلے اپنا صدقہ فطر خود ادا کرے گی۔امام ابن المنذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ( کتاب الاجماع : ۰۱۱)
فائدہ : امام ابن المنذر فرماتے ہیں: '' اجماع ہے کہ جنین ( بطن مادر میں موجود بچے ) پر صدقہ فطر نہیں ۔ '' ( کتاب الاجماع : ۱۱۱)
Labels:
احکام و مسائل
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment