Friday, 27 February 2015

تالیفات و تحقیقات لفضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی


عربی کتب: ۱: تنبیہ المحققین علی تدلیس المدلسین المعروف بموسوعۃ المدلسین ۲: الفتح الجلیل فی ضوابط الجرح والتعدیل ۳: النصیحۃ لمن اراد قبول النصیحۃ فی التعلیق علی انوارالصحیفۃ ۴: الاعلان فی معرفۃ من قیل فیہ لم یسمع عن فلان ۵: التّبیین فی شرح اصل السنّۃ واعتقاد الدین ۶: معجم الضعفاء والمجھولین (تحت الترتیب) ۷: موسوعۃ الأحادیث الشاذۃ ۸: الرد علی الھدایۃ للمرغینانی ۹: علوم الحدیث عندالشیخ الالبانی ۱۰: تعلیقات علی تیسر مصطلح الحدیث للدکتور محمود طحان ۱۱: موسوعۃ القواعد الفقہیۃ ۱۲: زاہد الکوثری فی میزان الامام الالبانی رحمہ اللہ ۱۳: فقہ المحدثین عن احادیث صحیح البخاری۔ ۱۴: حاشیۃ مشکوۃ المصابیح لطلبۃ الجامعات ،تحت الترتیب ۔ ۱۵: تعلیقات الشیخ الاثری حفظہ اللہ علی سلسلتی الامام الالبانی رحمہ اللہ ۱۶: التقریر علی التقریب ۱۷:الرجال عند علماء الاحناف جرحا وتعدیلا ۱۸:سکوت المحدثین عن درجۃ الحدیث ۱۹:الرد القوی علی العرف الشذی ۲۰:الاحادیث الضعیفۃ عندالامام البخاری ۲۱:البرھان فی تناقضات ابن حبان ۲۲:تلخیص الکواکب النیرات (ھذہ کتب ماطبعت لکن بعضھم مبطوع علی انترنیت) ۲۲:موسوعۃ احادیث الصیام اردو کتب: ۲۳: شرح صحیح مسلم فی ۷ ،اجزاء تحت الطبع فی باکستان ۲۴: شرح مقدمہ صحیح مسلم ۔تحت الطبع۔ ۲۵: شرح الجامع الترمذی فی ۵،اجزاء۔غیر مطبوع۔ ۲۶: شرح مسند الحمیدی ۔تحت الطبع ۲۷: حاشیہ السنن الکبری للبیہقی تحت الترتیب ۲۸: ائمہ قراء ت جر ح و تعدیل کی میزان میں (رشد قراء ت نمبر میں مطبوع ہے ) ۲۹: اصول تخریج و تحقیق۔طبع علی انترنیت۔ ۳۰: حسن لغیرہ حدیث کی حجیت پر وارد اشکالات کا علمی جائزہ ۔مطبوع علی انترنیت ۔ ۳۱: سلسلۃ الاحکام الصحیحۃ طبع الجزء الاول ۳۲: سلسلۃ الاحکام الضعیفۃ ۔ما طبع ۳۳: فرق باطلہ کے تعاقب میں ۔طبع البعض فی الرسائل وانترنیت۔ ۳۴: بالوں کا معاملہ ۔مطبوع ۳۵: جانوروں کے احکام۔ تحت الطبع ۳۶: التقریب لعلوم الشیخ المحدث ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ۔ ما طبع ۔ ۳۷: نصیحتیں میرے اسلاف کی۔تحت البطع ۔ ۳۸ سفر نامہ ابن بشیر الحسینوی ۔طبع علی انترنیت۔ ۳۹: گھر کا دینی نصاب ۴۰: جاہلوں کی دنیا ۴۱: مساجد کے احکام۔ مطبوع ۴۲: الرد علی القدوری۔ غیر مطبوع ۴۳: الرد علی الھدایۃ للمرغینانی۔غیر مطبوع ۔ ۴۴: شرح صحیح بخاری پرم کام جاری ہے ۴۵: طہارت کے احکام ۴۶: جوتے اور پاؤں کے احکام ۴۷: درس ترمذی از تقی عثمانی کا تعاقب ۴۸: آثار السنن کا تعاقب ۴۹: میں محدث کیسے بنوں؟ ۵۰: عورت کے گھر سے نکلنے کے احکام مراجعت و تخریج و تحقیق: ۵۱: تحقیق وتخریج مسند الإمام احمد بمشارکۃ بعض الاخوۃ وہو مطبوع من دارالسلام الریاض ۵۲: تحقیق بلوغ المرام تحت الطبع فی باکستان۔ ۵۳: تحقیق وتخریج الإصلاح (الجزء الثانی)لمحمد الجوندلوی رحمہ اللہ۔مطبوع ۵۴: تحقیق وتخریج کتاب الاذان لعبدالقادر الحصاری رحمہ اللہ ۔تحت الطبع۔ ۵۵: تحقیق و تخریج الصحیحین لعبدہ الفلاح رحمہ اللہ۔غیر مطبوع۔ ۵۶: تحقیق و تخریج ادعیۃ الرسول لعطاء اللہ حنیف البھوجیانی رحمہ اللہ ۔ماطبع۔ ۵۷: راجع ’’تحقیق المعجم المختص للحافظ الذھبی ‘‘رسالۃ دکتورۃ للشیخ الدکتورمحمد عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ۔تحت الطبع ۔ ۵۸ وراجع وقابل علی النسخ المطبوعۃ من الکتب الحدیثیۃ وصحّح،الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل للمحدث ضیاء الرحمن الاعظمی المدنی فی۲۰ مجلدا ۔بمشارکۃ بعض الاخوۃ وہو تحت الطبع فی دارالسلام الریاض۔ ۵۹: و راجع ترجمۃ صحیح ابن حبان۔تحت الطبع ۔ ۶۰: المعلقات فی صحیح البخاری ۔دراسۃ علمیۃ ومنھجیۃ مع التحقیق و التخریج ۶۱تا۷۵ : تخریج و تحقیق و تصحیح کتب محمد سعید محدث بنارسی ۷۶: الآن ھو یعمل علی کتب بعض تلامیذ السید المحدث نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ ۔ ۷۷: تخریج و تحقیق تحفۃ الجمعۃ لشیخ محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ ۷۸: تخریج وتحقیق اہل حدیث کے امتیازی مسائل ۷۹: تخریج و تحقیق زیارت قبور از اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ۸۰: تخریج و تحقیق شرکیہ دم جھاڑ پر فیصلہ کن بحث از محدث روپڑی وغیرہ نوٹ:بعض مخطوطات دیکھنے کا موقع نہیں ملا ورنہ ان میں بھی کئی ایک میری ذاتی کتب کے مخطوط مل جائیں گے ۔

Friday, 20 February 2015

شرح صحیح مسلم


جانوروں کے احکام


سفید بالوں کے احکام


سفید بالوں کے احکام ابن بشیر الحسینوی سفید بالوں کے احکام : (1) سفید بالوں کو اکھیڑنا (2) سفید بالوں کو رنگ کرنا (١) سفید بالوں کو اکھیڑنا حرام ہے ۔ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''سفید بالوں کو نہ اکھیڑوکیونکہ بڑھاپا(بالوں کا سفید ہونا )مسلمان کے لیے نور ہے جو شخص حالت اسلام میں بڑھاپے کی طرف قدم بڑھاتا ہے (جب کسی مسلمان کا ایک بال سفید ہوتا ہے )تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک نیکی لکھ دیتاہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے۔ '' (ابو داود :٤٢٠٢،ابن حبان (٢٩٨٥) نے صحیح کہا اور امام ترمذی (٢٨٢١)اورنووی(ریاض الصالحین:٢/٢٣٨) نے اس حدیث کوحسن کہاہے۔ (٢) سفید بالوں کو رنگنا ۔ بالوں کو رنگنا خضاب کہلاتاہے اور اس کی درج ذیل صورتیں اور قسمیں ہیں : (١) رسول اللہ نے سفید بالوں کو رنگنے کا حکم دیا ہے ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑھاپے (بالوں کی سفیدی ) کو (خضاب کے ذریعے)بد ل ڈالو اور(خضاب نہ لگانے میں) یہودیوں کی مشابہت نہ کرو۔ (الترمذی :١٧٥٢وقال: ’’حسن صحیح اور ابن قطان فاسی ؒنے کہاجید ‘‘(بیان الوہم والایھام :٥/٨١٣) ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہودی اور نصرانی (عیسائی) خضاب نہیں لگا تے لہٰذا تم ان کے خلاف کر و ( تم خضاب لگاؤ)[صحیح البخاری:٥٨٩٩،صحیح مسلم :٢١٠٣] (٢) مہندی کا خضا ب (رنگ)لگانا یا مہندی میں کوئی چیز ملا کر سفید بالوں کو رنگین کرنا بھی جائز ہے ۔ (٣) زرد خضاب لگانا بھی ٹھیک ہے ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دباغت دیئے ہوئے اور بغیر بال کے چمڑے کاجوتا پہنتے تھے اور اپنی ریش (داڑھی )مبارک پرآپ ورس (ایک گھاس جو یمن کے علاقے میں ہوتی تھی ) اور زعفران کے ذریعے زرد رنگ لگاتے تھے ۔''(ابو داود : ٤٢١٠وسندہ حسن،النسائی :٥٢٤٦) احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے بعض دفعہ سرخ اور زرد خضاب لگایا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی لگایا۔ نیز دیکھئے فتح الباری(١٠/٣٥٤)شیخ نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ''احادیث میں رسول اللہ کے بالوں کو رنگنے کابھی ذکر ہے اور نہ رنگنے کابھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا رنگنے سے تعلق امرندب پر محمول ہے البتہ کل کے کل بال سفید ہوجائیں کوئی ایک بال بھی سیا ہ نہ رہے تو پھر رنگنے کی مزید تاکید ہے۔ ''(احکام ومسائل شیخ نور پوری١/٥٣١) (٤)سفید بالوں میں سیا ہ خضاب (رنگ) لگانادرج ذیل دلائل کی روشنی میں حرام ہے: 1۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن سیدنا ابو بکر صدیق کے والد ابو قحافہ کو لایا گیا،ان کے سر اور داڑھی کے بال بالکل سفید تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اس کا رنگ بدلو اور کالے رنگ سے بچو''۔(صحیح مسلم :٢١٠٢/٥٥٠٩) 2۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ایسی قومیں آخر زمانہ میں آئیں گی جو کبوتر کے پپوٹوں کی طرح کالے رنگ کا خضاب کریں گی وہ جنت کی خوشبو تک نہ پائیں گی۔'' (ابوداود :٤٢١٢وسندہ صحیح ،النسائی :٥٠٧٨)[اس کا راوی عبدالکریم الجزری(مشہور ثقہ )ہے۔دیکھئے شرح السنہ للبغوی١٢/٩٢ح٣١٨٠] بالوں کو تھوڑا سا چھوڑ کر باقی منڈوا دینا منع ہے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا''۔(صحیح البخاری:٥٩٢٠،صحیح مسلم :٢١٢٠) قزع کی چار قسمیں ہیں : 1۔ سر کے بال سارے نہ مونڈنا بلکہ جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے بادلوں کے طرح ،ٹکڑیوں میں مونڈنا ۔ 2۔ درمیان سے سر کے بال مونڈنا اور اطراف میں بال چھوڑ دینا ۔ 3۔ اطراف مونڈنا اور درمیان سے سر کے بال چھوڑدینا ۔ 4۔ آگے سے بال مونڈنا اور پیچھے سے چھوڑ دینا ۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :''عدل وانصاف قائم کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کما ل محبت وشفقت ہے ۔انسانی جسم میں بھی عدل کا خیال رکھا کہ سر کا بعض حصہ مونڈ کر اور بعض حصہ ترک کر کے سر کے ساتھ بے انصافی نہ کی جائے ۔بالوں سے کچھ حصہ سر کا ننگا کر دیا جائے اور کچھ حصہ ڈھانک دیا جائے یہ ظلم کی ایک قسم ہے۔''(تحفۃ المودود بأحکام المولود ص٦٩) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کا کچھ حصہ منڈا ہوا تھا اور بعض چھوڑا ہوا تھا آپ نے ان کو ایسا کرنے سے روکا اور فرمایا : ((احلقوہ کلہ أو اترکوہ کلہ )) تم اس کا سارا سر مونڈو یا سارا سر چھوڑو۔(ابو داود :٤١٩٥ وسندہ صحیح) اس حکم میں جوان اور بڑے مردبھی شامل ہیں اور صرف بچوں کی تخصیص کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ راقم الحروف انسانی بالوں کے ۱۳۷ احکام و مسائل پر ایک کتاب بنام (بالو ں معاملہ )لکھی جوکہ مطبوع ہے۔ لنک

Tuesday, 17 February 2015

تصحیح و اعراب و مراجعت الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل


الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل تالیف : محدث العصر دکتور عبداللہ الاعظمی حفظہ اللہ المعروف بالضیائ 20 جلدیں: زیر طبع :دارالسلام الریاض (راقم الحروف نے الجامع الکامل کی کئی جلدوں کا بالاستعاب تنقیدی نظر سے مطالعہ کیا ہے اور دالرالسلام کی طرف سے اس کتاب پر کام کرنے کی ٹیم میں راقم بھی شامل تھا ۔اپنے مطالعہ کی بنا پر خراج تحسین پیش کر رہا ہوں ) اللہ رب العزت کروڑوں رحمتیں نازل کرے ان لوگوں پر جن کا اوڑھنا بچھونا قرآن و حدیث ہے انھیں خوش قسمت لوگوں میں سے ہمارے ممدوح امت مسلمہ کے محسن الاستاذ المحقق المحدث الدکتور عبداللہ الاعظمی المعروف بالضیاء حفظہ اللہ بھی ہیں۔جنھوں نے پچیس جلدوں پر مشتمل کتاب (الجامع الکامل )تالیف فرما کر کتب حدیث میں بے مثال اضافہ فرما دیا یہ صرف کہنے کو حدیث پر ایک کتاب ہی نہیں بلکہ اسم با مسمی ہے ۔ (الجامع)تمام صحیح احادیث کو جمع کرنے والی والی ایسی مثال سلف و خلف میں نہیں ملتی منتشر صحیح احادیث ایک جگہ فقہی ترتیب سے صرف الجامع الکامل ہی میں مل سکتی ہیں ۔ (الکامل)دین اسلام کا ہر مسئلہ کے متعلق قرآن و حدیثکے تمام دلائل جمع کر دیئے ہیں اگر ایک مسئلہ میں ایک سو احادیث صحیح ہوں تو وہ تمام کی تمام اس کتاب میں جمع شدہ ملیں گی ۔ان شاء اللہ (الحدیث الصحیح )صرف مرفوع صحیح احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے کسی ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا گیا تمام دین قرآن و حدیث کی صورت میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔والحمد للہ ۔ (الشامل )مصنف حفظہ اللہ کا دعوی ہے کہ انھوں نے کسی صحیح حدیث کو چہوڑا نہیں ،ہر ہر صحیح حدیث کو اس میں جمع کیا گیا ہے خوہ وہ کہاں بھی ہو ۔والحمد للہ ۔ الجامع الکامل کے امتیازات : ١:احادیث کی تخریج و تحقیق بالاستعاب کی گئی جو حدیث بھی لائی گئی اس کی تخریج و تحقیق ضرور کی گئی محدثین کے اصولوں کی روشنی میں اور کوئی شاذ اصول استعمال نہیں کیا گیا اور ہر حدیث پر صحت کا حکم ضرور لگایا گیا ۔ ٢:جابجا فقہی مسائل ،لغوی بحوث مشکل الحدیث کا بہترین حل کتاب میں بے نظیر حسن اور جامعیت پیدا کر دی ۔ ٣:ہر مسئلہ میں احادیث صحیحہ کے تحت وارد ہونے والی ضعیف احادیث کی بھی نشان دہی کر دی گئی ،حقیقت میں یہ انداز بیمار اور کمزور شفا پہنچاتا ہے مخالف کی دلیل کا توڑ کرتا ہے اور غیر ثابت حدیث کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ یہ کتاب اس دور میں لکھی گئی جب لوگوں نے حدیث رسول پر محنت کرنا چھوڑ دی تھی عامی تو عامی پوری زندگی پڑھنے پڑھانے والے بھی حدیث کی چند ایک محدود کتب کے مطالعہ سے تجاوز نہیں کرتے ۔مثلا اگر کوئی استاذ محترم حدیث پڑھا رہے ہیں احادیث پر وسعت نظر ،تمام کتب حدیث کا دقیق نظر سے مطالعہ ،حدیث کے تمام منتشر الفاظ پر نظر اور فنون حدیث پر کڑی نظر خال خال ملتی ہے ۔ الجامع الکامل حدیث کے اساتذہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مثل ہے جو ابواب کسی حدیث کی کتاب کے پڑھائے جا رہے ہوں تو وہی ابواب الجامع الکامل سے بھی مطالعہ کیا جائے تو گویا استاد صاحب نے صرف نصابی کتاب کا ہی مطالعہ نہیں کیا بلکہ اس نے اسی مسئلہ کے متعلق تمام احادیث خواہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف کا مطالعہ کر لیا ہے خواہ وہ صحیح بخاری ،مسلم میں ہوں ،یا کتب سنن میں یا مسانید میں یا معاجم میں یا اجزاء میں یا مصنفات یا غریب الحدیث میں یا کتب رجال میں یا دیگر کتب میں ہوں ۔اور پھر ہر حدیث کی تحقیق و تخریج سے آگاہی بھی کہ کونسی صحیح ہے اور کونسی ضعیف ،استدلال کس سے کرنا اور کس سے نہیں اگر صحیح ہے تو کیوں اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو کیوں؟والحمدللہ یہ کتاب فن حدیث میں ماہر رجال جنم دے گی اور موجودہ کمی کو پورا کرے گی ان شاء اللہ ۔ اللہ رب العزت اس کے جامع کی حفاظت فرمائے ان کی زندگی اور مال میں برکت فرمائے اور اسن کی دیگر کتب اور اس کتاب کو ان کے لئے ذریعہ نجات بنائے اور ان کی حدیث پر اس عظیم ترین خدمت کے روز قیامت حدیث کے خادموں میں ان کا شمار فرمائے ۔آمین

میں محدث کیسے بنوں ؟


تالیف ابن بشیر الحسنیوی حفظہ اللہ اللہ تعالی کی توفیق سے راقم نے 1999کو دینی علم کی تعلیم کی ابتداء جامعہ لاہور الاسلامیہ سے کی غالباً 2001 کی ابتداء میں دینی مکتبوں کی طرف سفر شروع کر دیا اس سفر کی تفصیل اس نیت سے لکھ رہاہوں شاید کسی بھائی اس سے کوئی نصیحت حاصل اور کوئی خیرکی بات ملے ۔ راقم نے اپنے کزن مولانا آصف محمود بن محمد حسین سے ایک دن پوچھاکہ محترم ! قریب کوئی دینی کتب کامکتبہ ہے میں مطالعہ کرنا چاہتاہوں ،انھوں نے کہاکہ کچھ دور ہے ۔میں نے کہا کہ مجھے دکھا دیں ایک دفعہ پھر میں خودچلاجایاکروں گا۔تو وہ مجھے ایک دن عصر کے بعدجامعہ لاہور الاسلامیہ کے مکتبے مکتبہ رحمانیہ میں لے کر گئے ! دکھایا اورواپس لے آئے ۔ فجزاہ اللہ خیرا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس ترتیب سے راقم نے مختلف مکتبوں کی طرف سفر کیا اسی ترتیب سےلکھنے کی کوشش کی جائے گی ان شاءاللہ ۔یہ سب کچھ محض اللہ تعالی کی رضا کے لئے اور طلباء علوم نبوت کو فکر دینے کے لئے کہ علماءکرام کےدینی مکتبوں کی طرف سفر ہم کیوں نہیں کرتے ۔ایک نصیحت اور خیر خواہی کےجزبے سے لکھ رہا ہوں اور کوئی مقصد نہیں ۔جس چیزسے مجھے فائدہ پہنچا شایداسی کواپنا کر کسی دوسرے بھائی کوبھی فائدہ پہنچ جائے ۔ان شاء اللہ مکتبہ رحمانیہ 91 بابر بلاک جے ماڈل ٹاون لاہور یہ وہ مکتبہ ہے جس میں راقم نے زمانہ طالب علمی کا کافی وقت گزارا ۔ روزانہ نماز ظہر کے بعد جامعہ لاہورالاسلامیہ کی کلاس سے چھٹی ہو جاتی تھی۔تو نماز کے فوراً بعد اپنی کاپی لے کر مکتبہ کی طرف سفر کرتا اور تقریباً نماز مغرب تک رہتا بسا اوقات تو نماز عشاء بھی مکتبہ کی چھوٹی مسجد میں ہی ادا کرتا۔اس مکتبہ سے راقم نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا اس زمانے میں مکتبہ میں استاد محترم شیخ آصف اریب اور ان کے ساتھ ایک اور افغانی شیخ موسوعۃ القضائیۃ پر کام کر رہے تھے استاد محترم شیخ رمضان سلفی شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ کا بھی کافی آنا جاناہوتاتھا اور ادھر آکر لکھتے تھے ۔حضرت مولانا عبدالجبار سلفی آف رینالہ خورد بھی مکتبہ میں ہی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دہتے تھے اسی طرح شیخ اختر جو اب پروفیسر ہیں وہ بھی مختلف کتب کے تراجم کرتے تھے جو بات سمجھ نہ آتی میں مذکورہ شیوخ سے پوچھ لیتا اور وہ مجھ سےبہت پیار کرتے۔بسا اوقات کھانا بھی اپنےساتھ بٹھا کرکھلا دیتے ۔فجزاہم اللہ خیرا ۔ ان کی شفقت نے مزید مطالعہ کی تڑپ پیدا کی انھیں دنوں میں نے اردو بازارسے ایک کتاب ( متاع وقت اور کاروان علم) خریدی اور اس کا مطالعہ بھی کیاتو اس کتاب کے مطالعے کے بعدنیندیں اڑ گئیں بس مطالعہ کی فکر دامن گیر رہتی۔والحمد للہ علی ذلک اس مکتبہ میں مختلف سیکشنوں میں کتب تقسیم تھیں تو راقم نےدن مقرر کیے ہوتے تھےکہ ایک ہفتہ کتب رجال کا مطالعہ کرنا تو اگلے ہفتے کتب حدیث کا پھر کتب فقہ کا پھر کتب احناف کا وغیرہ کا۔اس مکتبہ میں تمام رسالوں کی الگ لائبریری بھی تھی بلکہ ادارہ نےتمام رسالوں کے تمام شمارے بھی جمع کئے ہوئے تھے ان سے بھی خوب فائدہ اٹھاتا۔ اس مکتبہ کےدوران دوباتیں خاص قابل ذکر ہیں۔ نمبر1: کئی دفعہ جب میں نماز عشاء کے بعد جامعہ لاہورالاسلامیہ میں پہنچتا تومیرےساتھی میراکھانا نہ رکھتے اور مجھے بھوک بھی ستاتی تو میں باورچی خانہ جا کر بچوں کے کھانے سے بچنےوالے ٹکڑےکھاکر گزارہ کرتا اور مجھے ان باقی ماندہ ٹکڑوں کے کھانے سے بہت لذت آتی ۔ 2نمبر: اس مکتبہ میں مجھے شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ کی بعض کتب کا مطالعہ کرنے کا موقع بھی ملا اس کی وجہ سے میرےدل میں شیخ سے محبت ہو گئی اوران سےملاقات کی دعائیں کرنےلگا ۔ ایک دن میں مکتبہ میں بیٹھ کرمطالعہ کر رہاتھا کہ شیخ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ منتظم و بانی جامعہ لاہور الاسلامیہ اپنے ساتھ ایک سفید داڑھی والےایک بزرگ کو ساتھ لائے اور ان کو کرسی پر بٹھاکر خود کھڑے رہے اور اپنے تمام منصوبوں کا تعارف کروانےلگے کہ ہم موسوعہ قضائیہ تیار کروارہےہیں وغیرہ وغیرہ،اسی دن استاد محترم شیخ حسن مدنی حفظہ اللہ کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اس کی خوشی میں مٹھائی وغیرہ بھی کھلائی گئی میں اس دورن اپنےمطالعہ میں مصروف رہا مٹھائی بھی کھائی۔پھر وہ بزرگ چلے گئے تو کچھ وقت گزرنے کے بعدمیں نےبھائی اصغر لائبریرین سےپوچھا کہ محترم !یہ بزرگ کون تھے ؟ انھوں نے کہا:کہ یہ فیصل آبادکے بہت بڑے عالم دین شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تھے ۔ سبحان اللہ میں بہت خوش ہوا ،کہ آج جس شخصیت سے میں محبت کرتا تھاوہ خود تشریف لے آئے ہیں والحمدللہ ۔ لیکن پریشانی بھی ہوئی کہ ان سے سلام دعا نہ ہو سکی بس زیارت ہی ہوئی ان کی زیارت سے محبت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ۔ شاید یہی تڑپ تھی کہ اللہ تعالی نے ان سے تین سال مسلسل پڑھنے کامرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد میں موقع عطافرمادیا ۔سبحان اللہ اس مکتبہ میں رہ کر پہلے تمام کتب کا تعارف کیاجب چند مہینےتعارف میں گزر گئے تب علمی کام کی ابتداء کی ۔ چند کتب زمانہ طالب علمی میں اس لائبریری میں بیٹھ کرلکھنےکی توفیق ملی۔مثلا 1: سب سے پہلےپیارے رسولﷺ کی پیاری دعائیں کی تخریج و تحقیق شروع کی اور اس کام کی ڈیوٹی مجھے استاد محترم شیخ عبدالرشید راشدرحمہ اللہ نےسونپی چند ماہ میں اس کتاب کی تخریج و تحقیق مکمل کی۔جس پر استادمحترم نے کافی داد دی اور اپنےگھر میں میری دعوت کی اورانعام سے نوازا۔ 2: اسی دوران درجہ رابعہ میں سنن نسائی کی پڑھائی جاری تھی۔پھر جن راویوں کو امام نسائی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا خواہ سنن النسائی میں ہوں یا انکی کسی اور کتاب میں ان پر کام کیا اور کافی رواۃ جمع کیے۔ 3: پھر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ خبر الآحاد حجۃ بنفسی فی العقائد والاحکام‘‘ کی تلخیص کی۔یہ کام استاد محترم قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ کے حکم پر کیا۔ اسی دوران کئی اور بھی کام کئے لیکن فی الحال مجھے تین یاد ہیں اساتذہ اورجامعہ کے طلباء کئی باتوں کی تحقیق و تخریج میں میری طرف رجوع کرتے راقم پھر انکی تحقیق وغیرہ کرکےبتلاتا۔ جس سے مجھے مزیدکتب بینی کاشوق ہوا ۔والحمدللہ علی ذلک ۔ نوٹ: درسی کتب کا مطالعہ میں نماز عشاء کے بعد شروع کردیتا جب تک سبق یاد نہ کر لیتااور آگے مطالعہ نہ کرلیتا تب تک نہ سوتا ،اور بے شمار راتیں ایسی گزری ہیں کہ زمانہ طالب علمی کمر بستر پرنہیں لگائی۔ویسے بھی جامعہ کے پہلے سال میرا بستر گم ہوگیا پھر بستر کی نوبت ہی ختم کر دی،تھوڑا بہت سونا ہوتا تھا یا تو پھٹی پرسر رکھ کر سو جاتا یا پھر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا اور نیند پور کر لیتا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ مذکورہ جامعہ سے متصل محترم قاری صاحب کی رہائش تھی اور ان کی بیٹھک میں ان مکتبہ تھا ادھر بھی اکثر جاتا رہتا۔محترم قاری صاحب شفقت فرماتےاورمختلف قرات کی کتب کا تعارف کرواتے ۔ان کے پاس زیادہ کتب قرات پرہی تھیں ۔ مجھے اپنی زمانہ طالب علمی کی لکھی ہوئی کاپیاں بھی دکھاتے ،مجھے اس مکتبہ سے بھی کافی فائدہ پہنچا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ رشد یہ مکتبہ بھی جامعہ کی بیسمنٹ میں تھا اسمیں زیادہ تر درسی کتب تھیں لیکن بعض دیگر کتب بھی تھیں ان سےبھی فائدہ اٹھانےکاموقع ملا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ ربانیہ شیخ مبشراحمدربانی حفظہ اللہ کا مکتبہ جو زمانہ طالب علمی میں سکیم موڑ مسجد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں ہوا کرتا تھا کئی مرتبہ جمعہ کا خطبہ شیخ مبشر صاحب کے پیچھےپڑھنا نماز جمعہ کے بعد ان کے مکتبہ میں بیٹھنا مطالعہ وغیرہ کرنا۔اس مکتبہ سے بھی کافی فائدہ اٹھایا اب یہی مکتبہ شیخ کی اپنی رہائش گاہ سبزہ زار میں موجود ہے ،ماشاء اللہ بہت قیمتی مکتبہ ہے شاید اتنا قیمتی کسی اور اہل علم کے پاس نہیں ہے ،اب بھی جب ضرورت مراجع و مصادر کی پڑتی ہے تو مکتبہ ربانیہ کی طرف ہی رجوع کرتا ہوں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ شیخ عبدالرشیدراشد رحمہ اللہ استاد محترم کا یہ چھوٹا سا مکتبہ بھی قابل تعریف تھا اس سے بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہتا کیونکہ شیخ صاحب گاہے بگاہے اپنے دولت خانہ میں آنے کی دعوت دیتے رہتے تو ان کی بیٹھک میں گئے رات تک علمی مجلس لگتی بسا اوقات تو دو بج جاتے،جب راقم مرکز التربیۃ الاسلامیہ پڑھتا تھا تو استاد محترم کی ہدایت تھی کہ جب چھٹیوں کے لئے تم نے اپنے گھر جاناہے تو ایک رات میرے پاس ضرور قیام کرنا ہے ،اس دوران مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، راقم نے استاد محترم کے حالات پر ایک رسالہ لکھا ہے اس میں تمام تفصیلات کا ذکر کیا ہے فرصت ملتے ہی اسے بھی شائع کیا جائے گا ان شاء اللہ جس میں طلباء علوم نبوت کے لئے بہت زیادہ رہنمائی کی گئی ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ راشدیہ نیو سعیدہ آباد سندھ یہ مکتبہ شیخ العرب والعجم حضرت الامام بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کاہے زمانہ طالب علمی جامعہ لاہورالاسلامیہ کے دوران ہی اس میں تقریباً چار دن رہنےکا موقع ملا۔اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا کیونکہ اس میں نادر مخطوطات کےانبارتھے ،اور حدیث اور اصول حدیث پر کیا کمال کتب دیکھنے کا موقع ملا اس طرح ایک عظیم محدث اور امام کا وہ مکتبہ جہاں ہزاروں علم کے پیاسوں نے اپنی پیاس بجھائی اس کو غورسے دیکھااور کافی فوائد ملے اور اس مکتبے کافیض آج بھی جاری ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ سعیدیہ،پیر آف جھنڈا ،سندھ یہ مکتبہ شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا تھا اس میں بھی چند گھنٹے ٹھہرنے کا موقع ملا یہ بھی قابل تعریف ہےلیکن شاہ بدیع الدین رحمہ اللہ کے مکتبہ کا مقابلہ کون کرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ مرکز الدعوۃ السفیہ ستیانہ بنگلہ جامعہ لاہور الاسلامیہ میں دوران تعلیم کےدوران ایک رمضان شیخ الحدیث والتفسیر عبداللہ امجد چھتوی حفظہ اللہ کے پاس سے دورہ تفسیر کرنے کا موقع ملا اس دورے کی تفصیلات موضوع سے خارج ہیں ،اس جامعہ میں ایک چھوٹا سامکتبہ بھی تھاصرف عصر کے بعد اوپن ہوتا تھا وہ بھی بہت تھوڑا وقت اس میں جایا کرتا اور کچھ پڑھنے کا موقع ملتا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ بیت الحکمت لاہور یہ مکتبہ پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ کا تھا اس کی بلڈنگ تین منزلوں پر محیط تھی ،ایک منزل میں توصرف علامہ اقبال اور دیگر موضوعات پرکتب تھیں اور دوسری منزل میں سیرت النبیﷺ پر کتب اورتیسری منز ل میں مخطوطات اور قرآن کریم کے متعلقہ کتب تھیں اگر کہا جائے کہ سیرت النبیﷺ پر برصغیر میں سب سےزیادہ کتب اسی مکتبہ میں ہیں تو یہ سچ ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ مرکز التربیۃ الاسلامیۃ گلستان کالونی ،فیصل آباد جب اللہ تعالی کی توفیق سے مجھے تخصص کے لئے اس مرکزمیں داخلہ ملا تو ایک بہت بڑی لائبریری میں ہی تین سال رہے کلاس، مطالعہ اور اضافی ٹائم بھی اسی لائبریری میں گزرتا۔یہاں مجھے مزید مطالعہ کا موقع ملا اور کوئی لمحہ بھی ضائع نہ جانے دیا بلکہ نماز ظہر کے دیگر طلباء سوتے تھے تو راقم مکتبہ میں ہی ہوتا تھا۔اسی طرح نماز عصر کے بعد طلباء کھیلنے کے لئے باہر جاتے تو اکثر و بیشترمکتبہ میں رہتا،نماز عشاء کے بعد مطالعہ کے وقت کے ختم ہونے کے بعد مزید وقت مکتبہ میں ہی گزارتا۔اس مکتبہ کے دروازےچوبیس گھنٹے طلباء کے لئے کھلے رہتے تھے یہ مثال کسی بھی جامعہ میں دیکھنے کو نہیں ملی،استاد محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے علماء کرام کی ذہنی اور علمی وسعت کے لئے کتب جمع کی ہیں اور لائبریری کادروازہ کھلا رکھتے ہیں تاکہ وہ فائدہ اٹھائیں اور اپنی صلاحیتوں کاجلا بخشیں ۔ اس مکتبہ میں بیٹھ زمانہ طالب علمی میں ہی کافی علمی و تحقیقی کتب لکھنے کا موقع ملا۔ مثلاًً 1:موسوعۃالمدلسین 2:بالوں کےاحکام 3:سترہ کے احکام 4:التبیین فی شرح اصل اہل السنۃ و اعتقادالدین 5:البرہان فی تناقضات ابن حبان 6:اصول المحدثین فی فہم المحدث الالبانی 7:علوم حدیث اور شیخ ارشاد الحق اثری 8:علوم حدیث اور شیخ زبیر علی زئی 9:معجم المجہولین 10:الاعلان فی معرفۃ من قیل فیہ لم یسمع من فلان 11:تحقیق و تخریج الاصلاح حصہ دوم ابھی مجھےان کتابوں کے نام یاد ہیں اس کے علاوہ بھی کئی کتب لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ،سب سے زیادہ قابل ذکر یہ بات تھی کہ اساتذہ کرام شیخ ارشاد الحق، شیخ مسعود عالم، شیخ حافظ محمد شریف حفظہم اللہ دوران تدریس جب بھی کوئی مسئلہ یا اصول وغیرہ کا ذکر کرتے تو اصل کتب سے دکھاتے اور ہمیں کہتے کہ فلاں کتاب پکڑو یہ انداز ہی تدریس میں ہونا چاہئے۔صرف زبانی پڑھاتے جانا اس انداز میں فوائد کم ہیں اور دوران کلاس اساتذہ کرام ہمیں کچھ حوالہ جات قیمتی بحوث کے لکھوا دیتے کہ تم نے خودپڑھ کے آنے ہیں۔کاش یہی انداز تمام مدارس وجامعات میں ہوجائے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ ادارہ علوم اثریہ منٹگمری بازار فیصل آباد یہ وہ مکتبہ ہے جہاں محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ سارا دن ہوتے ہیں تحقیقی و بے مثال علمی کتب لکھتے ہیں ۔اس مکتبہ میں بھی مجھےکافی وقت گزارنے کا موقع ملا مثلاً جب مرکزسے چھٹیاں ہوتیں گرمی یا رمضان کی تو راقم گھر جانے کی بجائے شیخ اثری حفظہ اللہ کے پاس ہی جاتا اور انکے اسی مکتبہ میں ٹھہرتا۔ جس سے بہت کچھ ملا اور خصوصاً شیخ اثری حفظہ اللہ شفقت اور علمی رہنمائی قابل دید ہے ۔ اس مکتبےمیں شیخ صاحب پہلےتو میری خاص کتب پڑھنےکی لگاتے رہے مثلا الوہم والایھام وغیرہ ، پھر مختلف موضوعات لکھواتےکہ فلاں پر کام کرو ،اس فتویٰ کاجواب لکھو ،وغیرہ وغیرہ ۔فلاں راوی پر حکم دیکھو کیا ہے ،فلاں اصول کے متعلق تحقیق کرو ۔ اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا الحمدللہ ۔ اس دوران مجھے کچھ لکھنے کو موقع ملا مثلاً 1:صحیح و ضیعیف صیام 2:تحقیق الثقات الذین ضعفوا فی بعض شیوخہم اور بھی کام کئے لیکن ابھی مجھے یہی دو یاد ہیں پہلا مکمل ہے اور دوسرا کام نا مکمل ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ اسحاق جھالوی فیصل آباد مشہور گمراہ شخص اسحاق جھالوی کے متعلق جب کچھ سنا تو میں نے ان کی مکتبہ کی طرف سفر کیا تاکہ اپنی آنکھوں سے صورت حال دیکھوں۔جب ان کے پاس حاضر ہوا تو وہ اپنے مکتبے میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔تو اور مختلف کتب کے ساتھ ساتھ کتب شیعہ بہت زیادہ تھیں۔اس مکتبہ سے بھی مجھے کتب شیعہ کو بغور دیکھنےکا موقع ملا اور ایک رافضی شخص سے تبادلہ خیال کا بھی موقع ملا جس سے مجھے عین الیقین ہوگیا کہ اس کے گمراہ ہونےمیں کوئی شک نہیں ۔اس میں دو دن قیام کیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری،اٹک دوران طالب علمی مرکز التربیۃ میری ملاقات مرکزا لدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ امن پوری صاحب سے ہوئی کچھ سوال و جواب ہوئے تو خوشی اور میں نے ان سےاستفادے کا ٹائم مانگا تو شیخ صاحب فرمانے لگے: رمضان میں کوئی حساب لگائیں گے۔پھراسی رمضان میں شیخ نے مجھے اطلاع دی کہ میرے گاؤں امن پور اٹک میں آجاؤ رمضان اکٹھے گزاریں گے۔ تو میں حسب وعدہ کافی لمبا اور عجیب و غریب سفرکرکے وہاں پہنچا جو بیک ورڈ دیہات تھااور اس میں کافی پرانی رسم و رواج کو قریب سےدیکھنےکا موقع ملا۔ ان ذکرکا موضوع سےخارج ہے ۔شیخ صاحب سےآثارالسنن پڑھی اسی طرح القواعد المثلی بھی مکمل پڑھنے کا موقع ملا ۔ یہ رمضان مسجد میں میں ہی گزارا اور مسجد میں شیخ نے اپنی کتب رکھی ہوئی تھیں ،کتب اگرچہ تھوڑی تھیں لیکن قیمتی تھیں خصوصا فرق باطلہ کی کچھ نادرکتب بھی تھیں فارغ وقت میں اس مکتبہ سے فائد اٹھا یا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ زبیریہ حضرو اٹک دوران تعلیم مرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی طرف سفر کیا اور تقریباً چار دن ان کے مکتبہ میں ٹھہرا اور کافی سیکھنےکا موقع ملا اور ان کا مکتبہ بھی کافی وسیع پایا۔بہت فوائد ملے اور کافی مطالعہ کابھی وقت میسر آیا۔ فجزاہ اللہ خیرا ۔اور کچھ بحوث میں شیخ صاحب سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ شیخ غلام اللہ رحمتی پشاور اس مکتبہ کی طرف سفر کیا لیکن شیخ رحمتی حفظہ اللہ سعودی عرب دورے پر گئے ہوئے تھے اس لئے مکتبہ کی زیارت نہ ہو سکی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ پشاور شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی ان کے منہج پر گفتگو کی اور اس دوران مکتبہ دیکھنےکا موقع بھی ملایہ چھوٹےسےکمرےمیں مکتبہ تھا اور کتب بھی اتنی زیادہ نہ تھیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ شمسیہ پشاور یہ مکتبہ شیخ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ کاتھا ، سبحان اللہ بہت بڑا مکتبہ اور کافی وسیع و عریض بلڈنگ میں تھا ہرسیکشن الگ الگ بنایا ہواتھا میرےاندازے میں دو کنال زمین پر محیط پریہ مکتبہ ہوگا ،اور اس کے ساتھ ہی شخ کاجامعہ اثریہ پشاور بہت ہی وسیع و عریض تھا جہاں ہزاروں طلباء پڑھے ہیں میں نےاس مکتبہ میں طلباء کی کثیر تعداد مطالعہ کرتے ہوئے دیکھی اور کچھ فائدہ اٹھایا ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ شیخ عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ پشاور اس مکتبہ کی طرف سفرکا پکا پروگرام تھالیکن شیخ شمس الحق رحمہ اللہ کے بیٹوں نے کہاکہ تم اکیلے سفر نہ کرو کافی لمبا سفر ہے اور خطرناک بھی جس وجہ سے میں وہاں نہ پہنچ سکا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ محدث نورپوری رحمہ اللہ گوجرانوالا یہ مکتبہ استاد محترم محدث عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کا تھا ان کی بیٹھک مکتبہ ہی تھی۔ مہمانوں کو اس میں ہی بٹھاتے تھے ،مختصر مگر جامع مکتبہ تھا سبحان اللہ یہیں بیٹھ حضرت الامام نورپوری رحمہ اللہ نے بے شمار قیمتی اور نادر کتب تالیف فرمائیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ مدرسہ ماموں کانجن یہ بھی بہت بڑا مکتبہ ہے لیکن دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ کتب پڑھنے والا کوئی بھی نہیں بلکہ کتب گردو غبارسے لت پت تھیں ۔فاناللہ واناالیہ راجعون ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مکتبہ حسینویہ یہ مکتبہ شیخ ابونعیم عبدالرحیم حسینوی رحمہ اللہ آف حسین خانوالا ہٹھاڑقصور کا تھاجوکہ دہلی سے فارغ تھے اور اپنے وقت کے بڑے شیوخ سے تھے ۔ ماشاء اللہ انتہائی مختصرمکتبہ لیکن بہت ہی قیمتی کتب مگر افسوس کہ اکثر کتب دیمک لگی ہوئی تھی اور جوبچی تھیں وہ اس قدر بوسیدہ کہ ورق کوہاتھ لگاتے ہی ورق پھٹ جاتا ۔جب سےمیں اس مکتبہ کو دیکھ رہا ہوں تو اس وقت سےیہ مکتبہ الماریوںمیں پڑا ھے ۔

Monday, 16 February 2015

تخریج و تحقیق مسند امام احمد طبعہ دارلسلام الریاض


مسند احمد تخریج وتحقیق خالد بشیر المرجالوی محمد خبیب احمد ابن بشیر الحسینوی عبدالروف بن یعقوب محمد آصف اقبال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کي تفصيل يہ ہے 2011کے شروع ميں راقم ابن بشير الحسينوي کو فون آيا کہ دارالسلام لاہور ميں فلاں تاريخ کو ميٹنگ ہے جس ميں آپ نے بھي شرکت کرني ہے ۔تو راقم نے پوچھا کہ ميٹنگ ميں کيا ہو گا کچھ تفصيل بتا ديں تاکہ کچھ غور و فکر کر کے آوں انھوں نے کہا کہ مسند احمد پر کام کرنا ہے اس حوالے سے جيد شيوخ تشريف لائيں گے اور آپ نے بھي آنا ہے ۔ مقررہ تاريخ کو راقم دارالسلام لاہور پہنچ گيا ايک ساتھي محترم نديم بھائي مجھے ميٹنگ روم ميں لے گيا کمرے ميں گيا تو وہاں شيخ ارشادالحق اثري ،شيخ حافظ مسعود عالم ۔شيخ حافظ صلاح الدين يوسف ۔شيخ حافظ محمد شريف ،حافظ عبدالعظيم اسد ،شيخ خبيب احمد اثري اور ديگر علمائ کرام حفظہم اللہ تشريف فرما تھے اس ميٹنگ ميں مسند امام احمد پر کام کے حوالے سے گفتگو ہوني تھي اس ميں مختلف مشورے ہوئے اور اس پر کام کي نوعيت جو فائنل ہوئي وہ درج ذيل ہے 1:شيخ شعيب ارناوط کي تحق و تخريج سے جو نسخہ پچاس جلدوں ميں شائيع ہوا ہے اس کو ايک جلد ميں شايع کرنا ہے ۔ 2:اس کي تخريج کا خلاصہ لکھنا ہے اور کوئي روايت ضعيف ہے تو اس کا سبب ضعف لکھنا ہے انتہائي اختصار کے ساتھ 3: نشخہ ميمنہ سے تقابل کرنا ہے اور جو فرق ہو اسے حاشيہ ميں لکھنا ہے اور متن کي تصحيح کرني ہے ۔ 4:ہر صحيح حديث پر حکم لگانا ہے اس کي صحت کے درجے کے مطابق ۔ 5:جو حديث صحيح بخاري اور صحيح مسلم کي ہو يا ان ميں سے کسي ايک کي ہو تو اس کے ساتھ بس صحيح بخاري اور مسلم کا حوالہ لکھ دينا ہے ۔ 6: شيخ شعيب ارناوط اور ان کي ٹيم نے شرط علي الشيخين يا علي شرط البخاري ميں صحيح اہمتام نہيں کيا ايک حديث صحيح بخاري اور صحيح مسلم کي ہوتي ہے وہ اس پر بھي صحيح علي شرط الشيخين لکھ ديتے ہيں حالانکہ صحيح علي شرط الشيخين يہ صحيح کا تيسرا درجہ ہے اور وہ حديث حقيقت ميں متفق عليہ صحيح حديث کے پہلے درجے کي ہوتي ہے ۔ علي ھذا القياس ان سے اس طرح ديگر خامياں رہ گئي ہيں وہ بھي دور کرني ہيں اس طرح کچھ ديگر چيزوں پر گفتگو ہوئي اور کام کرنے کي ذمہ داري کچھ ساتھيوں کو سونپي گئي جن ميں شيخ خالد بشير مرجالوي ،شيخ خبيب احمد الاثري ،راقم الحروف وغيرہ حفظہم اللہ اب مسند الامام احمد پر کام مکمل ہو گيا ہو والحمد للہ اور طباعت کے آخري مراحل ميں ہے والحمدللہ ۔ بہت زيادہ خوبيوں کے ساتھ يہ ايڈيشن اب ايک ہي جلد ميں شايع ہو گا ان شائ اللہ اس طرح کا ايڈيشن اب تک پوري دنيا ميں شايع نہيں ہوا ۔ اللہ رب العمين دارالسلام کے تمام کارناموں کو شرف قبوليت عطا فرمائے آمين ۔

محترم شیخ ابن بشیر الحسینوی صاحب کا انٹرویو


بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد ​ فالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! [​IMG] محترم شیخ ابن بشیر الحسینوی صاحب کا انٹرویو [​IMG] قارئین کرام ! اب کی بار علمی محفل لگے گی ایک ایسی شخصیت کے ساتھ جن سے انٹرنیٹ پر موجود اکثر اہل علم حضرات بخوبی واقف ہیں ، مجھے ان کے لیے تعارفی کلمات کہنے کی ضرورت نہیں ، اور یقینا قارئین بھی ’’ ان کی کہانی انہیں کی زبانی ‘‘ سننے کے لیے بے تاب ہوں گے ، تو آئیے محترم شیخ صاحب سے ان کے علمی و دعوتی سفر کی روائیداد سنتے ہیں ، اور جانتے ہیں کہ موصوف کی گھریلو اور سماجی زندگی کیسی ہے ۔ [​IMG] 1۔ اپنے مکمل نام ، کنیت ، لقب وغیرہ سے آگاہ کریں ۔​ 2۔ آپ کی رہائش کہاں ہے ؟ وہاں کا ماحول کیسا ہے ؟​ 3۔آپ کی تعلیمی قابلیت کیا ہے ، ؟مزید اپنی دینی تعلیم کا سفر کیسے اور کہاں سے شروع کیا، اور کیا آپ کو اس دوران کسی مشکل کا سامنا ہوا؟​ 4-زمانہ طالب علمی میں اپنے ہم جماعتوں اور اساتذہ کے ساتھ کیسا وقت گزرا ؟ کوئی اہم واقعہ یا یادگار لمحہ ؟​ 5۔ جن اداروں میں آپ نے تعلیم حاصل کی وہاں نظام تعلیم کے حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے ؟ جامعہ رحمانیہ لاہور اور مرکز التربیۃ فیصل آباد کے بارے میں بالخصوص کچھ لکھیں ۔​ 6۔كيا كسی پیشے سے منسلک رہے یا ہیں ؟​ 7۔عمرعزيز کی کتنی بہاریں گزار چکے ہیں ؟اب تك زندگی سے کیا سیکھا؟؟​ 8۔آپ ماشاءاللہ شادی شدہ ہیں ، اولاد کے نام سے آگاہ فرمائیں ؟ ان کو کیا بنانا چاہتے ہیں ؟ مستقبل میں ان سے پر امید ہیں ۔؟​ 9۔گھریلو ماحول کیسا ہے ؟ اہل خانہ علمی کاموں میں رکاوٹ تو نہیں بنتے ۔؟​ 10۔اپنی طبیعت اور مزاج کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے ؟​ 11۔انٹرنیٹ کی دنیا سے کب متعارف ہوئے ؟ اور اس پر دینی کام کرنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا ۔؟ انٹرنیٹ پر اپنی علمی و دعوتی مصروفیات ذرا تفصیل سے بتائیں ۔​ 12۔ کن کن مدراس میں بطور استاذ خدمات سرانجام دے چکے ہیں ؟ اپنا دینی ادارہ بنانے کی خواہش کیسے پیدا ہوئی ۔؟ اور اس سلسلے میں اپنے تجربات سے آگاہ فرمائیں ۔ 13۔فرصت اور پریشان کن لمحات کن امور پر صرف کرتے ہیں؟ آپ کے روز مرہ کے مشاغل کیا ہیں؟​ 14۔آپ کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟وہ کون سی ایسی خواہش یا خواب ہے جو اب تک پورا نہ ہو سکا؟​ 15- تحرير و تقرير کے میدان میں قدم کب رکھا ؟ آپ متعدد کتب کے مصنف ہیں ، آپ کی پسندیدہ کتاب کون سی ہے ۔؟آپ کے خطبات یا تقاریر کا کوئی ریکارڈ ہے ۔؟​ 16۔ علمی نظریات کو تحریر یا تقریر کی صورت میں آگے منتقل کرنے سے پہلے کسی معتبر عالم دین سے ’’ نظر ثانی ‘‘ کروانے کے بارےمیں آپ کا کیا خیال ہے ۔؟​ 17۔خود كو بہادر سمجھتے ہیں ؟ کن چیزوں سے ڈرتے ہیں ؟(ابتسامہ)​ 18۔ کسی کے ساتھ پہلی مُلاقات میں آپ سامنے والے میں کیا ملاحظہ کرتے ہیں ؟ علماء اور بڑی شخصیات سے بھی ملتے رہتے ہوں گے ، چند ایسی ملاقاتوں کا تذکرہ کریں جو آپ کے لیے یادگار ہوں ۔​ 19۔ بعض طالب علموں میں علماء عصر پر تنقید کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے ، اس حوالے سے کچھ کہنا چاہیں گے ۔؟​ 20۔اِس پُرفتن دور میں دُنیا کے مجموعی حالات کو دیکھ کر آپ کیا سوچتے ہیں؟​ 21-محدث فورم کے وہ کون سے اراكين ہیں ، جن کی تحاریر سے آپ متاثر ہوئے يا علمی فائدہ محسوس ہوا ؟​ 22۔مستقبل میں ایسا کیا کرنا چاہتے ہیں ، جو ابھی تک نہیں کیا؟ہمیں بھی اس سے آگاہ کیجئے ہوسکتا ہے آپ کو محدث فورم سے کوئی ہمنوا مل جائے ؟​ 23۔دین اسلام کی ترقی و سربلندی کے لیے ، مسلمانوں میں کس چیز کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟؟​ 24۔آپ کی نظر میں نوجوان طبقے کے لیے كون سی ضروری چیزیں ہیں جن کا خیال رکھ کر ایک مثالی مسلمان بن سکتا ہے ؟​ 25۔دین اسلام کے بیش بہا موضوعات میں سے وہ کون سا ایسا موضوع ہے ، جس کی محفل آپ کو بہت پسند آتی ہے ؟​ 26۔ مسلکی اختلافات کےبارے میں آپ کا نقطہ نظر کیا ہے ؟​ 27۔ جدید پیش آمدہ مسائل کے دینی حل کے لیے بہترین طریقہ کیا سمجھتے ہیں ؟​ 28۔ہر انسان زندگی کے کسی نہ کسی شعبہ میں مہارت اور قابلیت رکھتا ہے ، اس حوالے سے اپنی صلاحیتوں کی تلاش کیسے ہوئی ؟ نیز اس مہارت اور قابلیت کا تذکرہ بھی کیجیئے۔​ 29۔پاکستانی سیاست میں بطور عالم دین شمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں؟؟​ 30- اپنی پسندیدہ شخصیات اور کتب کے بارے میں آگاہ فرمائیں ۔​ 31۔امور خانہ داری میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟کھانے میں کیا پسند کرتے ہیں؟؟اور اگر خود کھانا بنانا پڑے تو؟؟؟​ 32۔ آپ کو غصہ کتنا آتا ہے اور اُس صورت میں کیا کرتے ہیں؟​ 33۔ادارہ محدث کے کاموں میں پہلے سے اب تک عملی طور پر شامل ہیں یا نہیں؟​ 34۔ اب تک محدث فورم کے کن کن اراکین سے آپ کی مُلاقات ہو چُکی ہے۔​ 35۔ اراكينِ محدث فورم کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟​ [​IMG] @ابن بشیر الحسینوی [​IMG]​ نوٹ : انٹرویو میں دیگر اراکین بھی شرکت کرسکتے ہیں لیکن ذرا نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہوئے ۔​ (منجانب : انٹرویو پینل )​ ان سوالات کے جواب پڑھنے کے لئے ابھی لنک پر کلک کریں

Sunday, 15 February 2015

حدیث کی تحقیق میں جمھور کی بات مانیں جائے گی؟:


حدیث کی تحقیق میں جمھور کی بات مانیں جائے گی؟: تالیف : فضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ اگر کوئی کہے :''وہ حدیث جس کے صحیح یا ضعیف ہونے پر اختلاف ہے اس میں جمہور کی تحقیق کو ترجیح دینا اجتھادی مسئلہ ہےیاد رہے کہ جس اصول کو بھی اختیار کیا جائے پھراس پر عمل ضروری ہے ورنہ قول و فعل میں تضاد کا دوسرا نام منافقت ہے ۔۔۔اس میں بھی راجح یہی ہے کہ ائمہ محدثین کی اکثریت جس طرف ہے اسے ہی ترجیح دی جائے گی ۔''((فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :٢/٢٩٤) کیااس اصول پر چلے ؟!! ۔اس کی ایک مثال ابھی ملاحظہ فرمائیں ۔اور دیگر مثالیں سلسہ دفاع حدیث میں دیکھی جا سکتی ہیں واذا قرا فانصتوا مضعفینِ حدیث: ان مضعفین میں: ١۔ امام بخاری، کتاب القراء ۃ للبیہقی (ص: ١٣١) ٢۔ امام ابن معین۔ امام ابو حاتم الرازی، شرح النووی (١/ ١٧٥) معرفۃ السنن والآثار للبیھقي (٢/ ٤٦، ٤٧) ٣۔ امام احمد بن حنبل سے امام اثرم نے اضطراب نقل کیا ہے۔ شرح العلل لابن رجب (٢/ ٧٩٠) جبکہ حافظ ابن عبدالبر نے، التمھید (١١/ ٣٤) میں امام اثرم کے حوالے سے تصحیح نقل کی ہے۔ ممکن ہے کہ امام احمد نے پہلے اس کی تصحیح فرمائی ہو، بعد میں اصل حقیقت منکشف ہونے پر اس پر اضطراب کا حکم لگایا ہو۔ واﷲ اعلم. ٤۔ حافظ محمد بن یحییٰ ذہلی تحقیق الکلام از محدث عبدالرحمن مبارکپوری (٢/ ٨٧) مرعاۃ المفاتیح للعلامۃ عبید اﷲ مبارکپوری: (٣/ ١٢٨) ٥۔ امام ابوداود۔ سنن أبي داود (حدیث: ٩٧٣ باب التشہد!) ٦۔ امام بزار نے بھی تفرد کی جانب اشارہ کیا ہے۔ البحر الزخار (٨/ ٦٦، ح: ٣٠٥٩) ٧۔ امام ابوبکر الاثرم۔ الناسخ والمنسوخ دیکھئے: شرح علل ابن رجب (٢/ ٧٨٨، ٧٨٩) ٨۔ امام مسلم نے اسے بیانِ علت کے لیے ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ حافظ ابو مسعود الدمشقی کی بھی رائے ہے اور قرائن بھی اس کے متقاضی ہیں۔ ٩۔ امام الائمۃ ابن خزیمۃ۔ القراء ۃ خلف الإمام للبیھقي (ص: ١٣١) ١٠۔ امام دارقطنی۔ سنن دارقطني (١/ ٣٣١)، الإلزامات والتتبع: (ص: ١٧١)، علل الأحادیث للدارقطني (٧/ ٢٥٢، ٢٥٣) ١١۔ امام ابو الفضل ابن عمار الشہید۔ علل الأحادیث التي في صحیح مسلم، حدیث (١٠) ١٢۔ حافظ ابو مسعود الدمشقی: کتاب الأجوبۃ (ص: ١٥٩، ١٦٠) ١٣۔ امام بیہقی: السنن الکبری (٢/ ١٥٦۔ ١٥٧) معرفۃ السنن والآثار (٢/ ٤٦) ١٤۔ امام مزّی نے بھی تفرد کی طرف اشارہ کیا ہے۔ تحفۃ الأشراف (٦/ ٤١٠) ١٥۔ امام نووی۔ شرح صحیح مسلم (١/ ١٧٥) ١٦۔ محدث عبدالرحمن مبارکپوری: تحقیق الکلام (٢/ ٨٤۔ ٩٧) و أبکار المنن (ص: ١٥٩) ١٧۔ محدث عبید اﷲ مبارکپوری۔ مرعاۃ المفاتیح (٣/ ١٢٨) ١٨۔ حافظ محدث محمد گوندلوی۔ خیر الکلام (ص: ٤١٧) ١٩۔ مولانا بشیر سہسوانی۔ البرھان العجاب (ص: ٩٨۔ ١٠١) ٢٠۔ حافظ مجتہد محدث عبداﷲ روپڑی۔ الکتاب المستطاب (ص: ٨٣۔ ٨٩) ٢١۔ محدثِ یمن ابو عبدالرحمن مقبل بن ہادی۔ التعلیق علی الإلزامات والتتبع (ص: ١٧١) ٢٢۔ دکتور ربیع بن ہادی مدخلی۔ بین الإمامین (١١٣۔ ١١٧) ٢٣۔ دکتور حمزہ ملیباری۔ عبقریۃ الإمام مسلم (ص: ٦٨۔ ٧٦) ٢٤۔ ابراہیم بن علی۔ محقق کتاب الأجوبۃ (ص: ١٦٤۔ ١٦٥) ٢٥۔ دکتور احمد بن محمد الخلیل۔ مستدرک التعلیل علی إرواء الغلیل (ص: ١٩٦ تا ٢٠٣) ٢٦۔ شیخ ابو سفیان مصطفی باحُو۔ الأحادیث المنتقدۃ في الصحیحین (١/ ١٣٤) ٢٧۔ شیخ ایمن علی ابو یمانی۔ محقق مسند الرویانی (١/ ٣٧٠۔ ٣٧١) ٢٨۔ محدث استاذ ارشاد الحق اثریd۔ توضیح الکلام (ص: ٦٦٧) مصححینِ حدیث: اس حدیث یا زیادت کی تصحیح درج ذیل علماء نے کی ہے۔ ١۔ امام طبری۔ جامع البیان (٩/ ١١٢) ٢۔ حافظ ابن عبدالبر۔ التمھید (١١/ ٣٤) ٣۔ امام منذری۔ مختصر سنن أبي داود (١/ ٣١٣) ٤۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ۔ الإلمام بحکم القراء ۃ خلف الإمام (ص: ١٢) ٥۔ حافظ ابن کثیر۔ تفسیر ابن کثیر (١/ ١٤ ۔سورۃ الفاتحۃ۔) ٦۔ حافظ ابن حجر۔ فتح الباري (٢/ ٢٤٢) ٧۔ محدث امام البانی۔ إرواء الغلیل (٢/ ٣٨) و صفۃ الصلاۃ (١/ ٣٥٢) ٨۔ شیخ سلیم بن عید الھلالی۔ التخریج المحبر الحثیث (١/ ٣٠٩) ٩۔ شیخ زبیر علی زئی d۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ فرمانا: ''بعض ائمہ کا اسے ضعیف و معلول قرار دینا صحیح نہیں۔'' (ماہنامہ الحدیث، ص: ١٥/ اپریل ٢٠٠٨ئ) بجائے خود غیر صحیح ہے۔ کیا یہ ''بعض ائمہ'' ہیں یا اکثر ائمہ؟ متأخرین محدثین کی تصحیح قابلِ استناد ہے، یا جمہور متقدمین کا اس بارے میں فیصلہئ تضعیف؟ جنھوں نے اس روایت کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا، کیا ان تک جمہور محدثین بھی پہنچے اور جنھوں نے اس روایت کو شواہد کی بنا پر صحیح قرار دیا، کیا ان تک جمہور محدثین بھی پہنچے اور انھوں نے ان شواہد کی تصحیح کی یا ان کو بھی معلول قرار دیا۔ جن محدثین پر یہ علت واضح ہوگئی ان کی تضعیف راجح ہوگی یا جن پر مخفی رہی، ان کی تصحیح؟ حدیثِ تیمی کی تضعیف کرنے والے کیا اس کی ثقاہت و حفظ سے بے خبر تھے؟ جمہور اہلِ اصطلاح نے رواۃ کے مابین مخالفت کی ایک ہی کسوٹی مقرر کی کہ ایک حدیث میں اثبات اور دوسری میں نفی ہو، جیسے محترم حافظ زبیر صاحب باور کرا رہے ہیں؟ چنانچہ محترم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ـ ''یہ ہے جناب خبیب صاحب کی کل فہرست، جس میں پانچ معاصرین اور دو قریبی دور کے علماء کو نکالنے کے بعد باقی سترہ بچے، جن میں سے بعض کے حوالے محلِ نظر ہیں۔ ان سترہ کے مقابلے میں بیس سے زیادہ علماء و محدثین کا صحیح مسلم کی حدیث کو صحیح کہنا یا صحیح قرار دینا اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ حدیث جمہور کے نزدیک صحیح و ثابت ہے، والحمد ﷲ۔'' (الاعتصام: ج: ٦٠، ش: ٤٦، ص: ٢٠) قارئینِ کرام! ذرا انصاف فرمائیں، جن محدثین نے اس زیادت کو صراحتاً شاذ قرار دیا ہے، ان کا قول راجح ہے یا جنھوں نے مطلقاً صحیح مسلم کو کتبِ صحاح میں شمار کیا ہے؟ محدثین کا اصولِ درایت اس کے شذوذ کا متقاضی ہے یا صحت کا؟ خاص دلیل کو پیشِ نظر رکھا جائے گا یا عام دلیل کو؟ مفسر جرح مقدم ہوگی یا مطلق تصحیح؟ شاذ قرار دینے والی جماعت کی معرفتِ علل وسیع ہے یا تصحیح کرنے والی جماعت کی؟ صحیح مسلم کی اسانید کا دراستہ کرنے والوں کے ہاں یہ شاذ ہے یا محفوظ؟ شارحینِ صحیح مسلم کا رجحان اس کے شذوذ کی طرف ہے یا درستی کی طرف؟ سترہ مضعفین جمہور ہیں یا نو مصححین؟ بلاشبہ ان سبھی سوالات کے درست جوابات ہمارے موقف کی موید ہیں کہ اس کا شذوذ ہی راجح ہے۔ اخر میں پھر یاد دہانی کے اصول ذکر کر دیتے ہیں کہ بعض الناس نے کہا : ''وہ حدیث جس کے صحیح یا ضعیف ہونے پر اختلاف ہے اس میں جمہور کی تحقیق کو ترجیح دینا اجتھادی مسئلہ ہےیاد رہے کہ جس اصول کو بھی اختیار کیا جائے پھراس پر عمل ضروری ہے ورنہ قول و فعل میں تضاد کا دوسرا نام منافقت ہے ۔۔۔اس میں بھی راجح یہی ہے کہ ائمہ محدثین کی اکثریت جس طرف ہے اسے ہی ترجیح دی جائے گی ۔''((فتاوی علمیہ المعروف توضیح الاحکام :٢/٢٩٤) اپنے ہی اصول کی موافقت ہے یا مخالفت۔

توضیح الکلام سے علوم حدیث کے فوائد کا اشاریہ


تالیف : فضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ التقریب لعلوم شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ہر اہل علم جانتا ہے کہ توضیح الکلام اصول حدیث اور جرح وتعدیل پر مشتمل ہے اس سے ایک اصول یا کسی راوی پر بحث تلاش کرنے کے لئے ساری فہرست دیکھنی پڑتی ہے اس لئے قارئین کی سہولت کی خاطر توضیح الکلام میں موجود اصول حدیث ،جرح وتعدیل وغیرہ کی ایک جامع فہرست تیار کر رہا ہوں تاکہ جو چیز کسی بھائی نے دیکھنی ہو وہ اس فہرست میں دیئے گئے صفحہ کھولے اور اپنی مطلوبہ بحث کا مطالعہ کرے ۔ فائدہ :یہ کام شیخ اثری حفظہ اللہ کی تمام کتب پر کرنا ہے ابتداء راقم توضیح الکلام سے کر رہا ہے ۔ان شاء اللہ

حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات قسط3


حسن لغیرہ کا حجت ہونا متقدمین سے ثابت نہیں ہے ؟۔ جواب: ۱۔ یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق محدث سندھ شیخ الاسلام محب اللہ شاہ راشدیؒ فرماتے ہیں: ’’لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔‘‘ (مقالات راشدیہ ص :۳۳۲) نیز فرماتے ہیں: ’’کسی کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا یہ کوئی دلیل نہیں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کی بات صحیح نہیں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصیات کو۔‘‘ (ایضا: ۳۳۳) نیز کہا: ’’تو کیا آپ ایسے سب رواۃ (جن کی حافظ صاحب نے توثیق فرمائی اور ان کے بارے میں متقدمین میں سے کسی کی توثیق کی تصریح نہیں فرمائی) کے متعلق یہی فرمائیں گے کہ ان کی توثیق مقبول نہیں یہ ان کا اپنا خیال ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس طرح آپ اس جلیل القدر حافظ حدیث اور نقد الرجال میں استقراء تام رکھنے والے کی ساری مساعی جمیلہ پر پانی پھیر دیں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کی زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گی۔‘‘ (ایضا: ۳۳۵) ۲۔ فضیلۃ الشیخ ابن ابی العینین فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے: ’’بعض طلبا جنھوں نے ماہر شیوخ سے بھی نہیں پڑھا وہ بعض نظری اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہیں اور وہ کبار علما سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم متقدمین کے پیروکار ہیں اور انھوں نے متاخرین کے منہج کو غلط قرار دیا ہے۔۔۔۔‘‘ (القول الحسن، ص: ۱۰۳) ۳۔ متقدمین کی حسن لغیرہ کے متعلق کون سی بحثیں ہیں کن کے خلاف متاخرین نے اصول وضع کیے ہیں؟! ۴۔ متاخرین نے علم متقدمین سے ہی لیا ہے اور وہ انھیں کے انداز سے اصول متعین کرتے ہیں ۔ محدثین کا اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کو قبول کرنا: متعدد متقدمین محدثین نے اسماعیل بن ابی خالد کے بدونِ تدلیس عنعنہ کو قبول کیا ہے۔اورہمارے اساتذہ کرام میں سے بعض علماء ان کی عن روایات کو ضعیف کہتے ہیں مثلادیکھئے :’’اسماعیل بن ابی خالد عنعن وھو مدلس (طبقات المدلسین :۳۶؍۲ وھو من الثالثۃ)(انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من السن الاربعۃ ص:۱۰۶ح۲۹۳۰،ص۱۵۲ح۴۲۷۰،ص۴۳۷ح:۱۶۱۲) نیز دیکھے (الفتح المبین ص:۳۳) ذیل میں محدثین کینام جو ابن ابی خالد کی بدون تدلیس عنعنہ کو قبول کرتے ہے ، ان کے اسماء درج ہیں۔ ۱۔ امام ترمذی ۲۷۹ھ، سنن الترمذی (حدیث: ۲۵۵۱، ۳۰۵۷، ۳۸۲۱، وقال: حسن صحیح) و (حدیث: ۱۹۲۵، ۲۱۶۸ وقال: صحیح) و (حدیث: ۳۷۱۱، وقال: حسن صحیح غریب)۔ ۲۔ امام الأئمۃ ابن خزیمہ ۳۱۱ھ۔ صحیح ابن خزیمۃ (۴/ ۱۳، ح: ۲۲۵۹) ۳۔ امام ابو عوانہ ۳۱۶ھ۔ مسند أبي عوانۃ، المستخرج علی صحیح مسلم (۱/ ۳۷، ۵۸، ۵۹، ۹۶، ۳۷۶ و ۲/ ۸۶ مرتین، ص: ۳۶۶)۔ ۴۔ امام ابو نُعیم ۴۳۰ھ۔ المسند المستخرج علی صحیح مسلم (۱/ ۱۳۷، ۱۳۸، ح: ۱۷۸ و ۲/ ۴۰۹، ۴۱۰، ۴۱۱، ۴۹۴، ح: ۱۸۴۳، ۱۸۴۴، ۱۸۴۷، ۱۸۴۸، ۲۰۴۶ و ۳/ ۱۰۹، ح: ۲۳۲۴ و ۴/ ۶۶، ح: ۳۲۴۵)۔ ۵۔ امام ابن الجارود ۳۰۷ھ۔ المنتقی (حدیث: ۳۳۴) اس کتاب کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۱۴/ ۲۳۹) ۶۔ امام ابن حبان ۳۵۴ھ۔ صحیح ابن حبان (۱/ ۱۵۲، ۲۶۱۔ ۲۶۲ مرتین، ح: ۹۰، ۳۰۴، ۳۰۵ و ۳/ ۲۸۸، ح: ۲۱۳۴ و ۴/ ۲۸۵، ح: ۲۹۸۸ و ۵/ ۹۹، ح: ۳۲۳۲ و ۶/ ۱۷۵، ۲۶۸، ح: ۴۱۲۹، ۴۳۱۵ و ۷/ ۵۳، ۵۸۹، ح: ۴۵۶۴، ۵۹۵۳ و ۸/ ۱۱، ۱۲۱، ۱۶۲، ۲۳۷، ح: ۲۱۲۶، ۶۴۱۲، ۶۴۹۴، ۶۶۳۹۔۔۔)۔ ۷۔ امام حاکم ۴۰۵ھ۔ المستدرک (۱/ ۳۲۲۔ ۳۲۳ و ۲/ ۴۶۶، ۴۸۸ و ۳/ ۸۴، ۴۴۰ و ۴/ ۶، ۵۴۶، ۵۸۸) وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔ و (۲/ ۱۵۷) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ۔ و (۳/ ۹۹، ۴۹۹) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ۔ ۸۔ ابو الحسن احمد بن محمد بن منصور عتیقی ۴۴۱ھ۔ (امام محدث ثقۃ) المنتقی: حافظ ابوبکر احمد بن محمد بن غالب برقانی خوارزمی ۴۲۵ھ (حافظ ثبت) في ’’التخریج لصحیح الحدیث عن الشیوخ الثقات علی شرط کتاب محمد بن إسماعیل البخاري وکتاب مسلم بن الحجاج القشیری أو أحدھما‘‘ (التخریج علی الصحیحین) (ص: ۳۹، حدیث: ۱۳ وقال ھو حدیث صحیح) و (ص: ۵۲۔ ۵۳) حدیث: (۲۹، ۳۰) ۹۔ قاضی ابو یعلی الفراء ۴۵۸ھ۔ في ’’ستۃ مجالس من أمالی‘‘ (ص: ۵۰، ح: ۲) وقال: ھذا حدیث صحیح۔ ۱۰۔ محدث امام البانی ۱۴۲۰ھ۔ السلسلۃ الصحیحۃ (حدیث: ۴۷۵، ۷۶۴، ۷۶۸، ۸۰۸، ۸۳۳، ۱۲۵۳، ۱۵۶۴، ۱۸۷۶، ۲۶۶۳، ۲۸۲۵، ۲۸۳۱) ظلال الجنۃ (حدیث: ۳۹۲، ۴۴۶۔ ۴۵۱، (۴۶۱ وراجع: الصحیحۃ: ۳۰۵۶) ۷۳۹، ۱۱۷۵، ۱۱۷۶) سنن أبي داود (۷/ ۴۰۰، حدیث: ۲۳۸۰ و ۸/ ۱۰۸) صفۃ صلاۃ النبي (۳/ ۸۶۴) وغیرہ۔ تلک عشرۃ کاملۃ۔ ملحوظ رہے کہ بعض مقامات پر اسماعیل بن ابی خالد کے متابع یا شاہد موجود ہیں، مگر ہمارا مقصود صرف اس قدر ہے کہ محدثین نے اسماعیل کے عنعنہ بدونِ تدلیس کو باعثِ جرح قرار نہیں دیا۔ جیسا کہ معترض باور کرا رہے ہیں۔ (مقالات اثریہ از :حافظ خبیب احمد الاثری ) گزارش ہے کہ متقدمین کے ہاں ابن ابی خالد کا عن مضر نہیں ہے اور یہی راجح ہے ۸۔ کیا متقدمین کا منہج تمام ائمۂ متأخرین نہ سمجھ سکے۔ ۱۱۔ جب کوئی کہے کہ یہ موقف (حسن لغیرہ حجت ہے ) بہت سے ائمہ متقدمین سے ثابت نہیں، مثلا امام وکیع بن جراح ،امام یحییٰ بن سعید القطان، امام عبداللہ بن وہب۔۔۔ امام محمد بن عمر اور ابو جعفر العقیلی۔ تو یہ انداز درست نہیں کیونکہ ان محدثین کے ناموں کو کسی نے بھی پیش نہیں کیا کہ ان کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں!!

حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات قسط 2


تالیف : فضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ ساتواں اشکال : بسا اوقات کسی ضعیف حدیث کی متعد د سندیں ہوتی ہیں یا اس کے ضعیف شواہد موجود ہوتے ہے، مگر اس کے باوجود محدثین اسے حسن لغیرہ کے درجے میں نہیں لاتے۔ جواب: حسن لغیرہ کی عدمِ حجیت کے بارے میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے اور اسی سے وہ لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں۔ اس کا جواب ہم محتر م حافظ خبیب احمد الاثری کی قیمتی کتاب ’’مقالات اثریہ ‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔ کثرتِ طرق کے باوجود حدیث کو مقبول نہ ماننے کی وجوہات کا بیان۔ عدمِ تقویت کے اسباب: ایسی حدیث کے حسن لغیرہ نہ ہونے میں پہلا سبب یہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں شاہد حدیث کے کسی راوی نے غلطی کی ہے، لہٰذا غلط متابع یا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہیں کر سکتے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک حدیث کی دو سندیں ہیں، اس کی ایک سند کے راوی کے بارے میں راجح یہ ہے کہ اس نے سند یا متن میں غلطی کی ہے، یعنی وہ دوسروں کی مخالفت کرتا ہے، یا اس سے بیان کرتے ہوئے راویان مضطرب ہیں تو ایسی سند دوسری سند سے مل کر تقویت حاصل نہیں کر سکتی۔ اسے تطبیقی انداز میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ امام حاکم نے سفیان بن حسین عن الزہری ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے، پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہری) ذکر کیا، اس مرفوع حدیث میں جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حدیث سے دور کرنے کی کوشش کی۔ (المستدرک: ۱/ ۳۹۲۔ ۳۹۳) مگر حافظ ابن حجر اس مرفوع حدیث کو اس مرسل روایت سے تقویت دینے کے قائل نہیں کیونکہ سفیان بن حسین، امام زہری سے بیان کرنے میں متکلم فیہ ہے، بنابریں اس نے یہ روایت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بیان کی ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’قلت: بل ھو علتہ۔‘‘ تغلیق التعلیق لابن حجر (۳/ ۱۷) کہ ابن المبارک کا اس حدیث کو زہری سے مرسل بیان کرنا سفیان کی غلطی کی دلیل ہے، لہٰذا یہ روایت مرسل ہی راجح ہے اور وہ مرفوع کو تقویت نہیں دیتی، کیونکہ اس کا مرفوع بیان کرنا غلط ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ امام حاکم ایک حدیث کو متأخرین کی اصطلاح کے مطابق حسن لغیرہ قرار دے رہے ہیں، اسی حدیث کو حافظ ابن حجر مرسل ہونے کی بنا پر ضعیف قرار دے رہے ہیں، کیونکہ حافظ صاحب کے نزدیک مرفوع بیان کرنا غلطی ہے، جس کی وجہ مرسل روایت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محدثین کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینے کے لیے قرائن کو پیشِ نظر رکھتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی تغلیق التعلیق میں ذکر کیا ہے، ضعیف+ ضعیف کو مطلق طور پر حسن لغیرہ قرار دینا محدثین کا منہج نہیں ہے۔ بسا اوقات کوئی محدث کسی حدیث کو تقویت دینے میں وہم کا شکار ہوجاتا ہے جوکہ استثنائی صورت ہے، اس سے حسن لغیرہ کے حجت ہونے میں قطعی طور پر زد نہیں پڑتی، کسی حدیث کے حسن لغیرہ ہونے یا نہ ہونے میں محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، حقائق بھی اس کے مؤید ہیں، مگر ان سب کے باوجود محدثین حسن لغیرہ کے حجیت کے قائل ہیں۔ کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینا ایک اجتہادی امر ہے، جس میں صواب اور غلط دونوں کا امکان ہوتا ہے، جس طرح راویان کی توثیق و تجریح بھی اجتہادی امر ہے، اسی طرح غلط اور صحیح کا تعین بھی اجتہادی معاملہ ہے، جس کا فیصلہ قرائن کے پیش نظر ہوتا ہے، ملحوظ رہے کہ راوی کی غلط متعابعت سے دور نہیں ہوتی، خواہ وہ حافظ راوی کی ہو۔ دوسرا سبب: حدیث میں فرضیت یا حرمت ہو: ایسی حدیث جس میں کسی چیز کی فرضیت (جس کا تارک گناہ گار ہو) یا حرمت (جس کا مرتکب گناہ گار ہو) ہو تو ایسی ضعیف حدیث کو محدثین حسن لغیرہ قرار دینے میں تأمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک یہ دونوں چیزیں یا ایک چیز صحیح سند (صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ) سے ثابت ہونا ضروری ہے، جیسا کہ امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ نے فرمایا: ’’مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی۔‘‘ امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: ’’میرا بھی یہی موقف ہے۔‘‘ المراسیل لابن أبي حاتم (ص: ۷) فضائل، رقائق بلکہ احکامِ شرعیہ میں محدثین حسن لغیرہ روایات قبول کرتے ہیں، بلکہ جن کا ضعف خفیف ہو اس سے بھی استدلال کرتے ہیں، جیسا کہ وضو سے پہلے تسمیہ کے بارے میں ہے۔ مگر جن مسائل کا تعلق عقائد سے ہوئے اس میں محدثین وہی احادیث قبول کرتے ہیں جو صحیح ہوں، وہ حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے۔ تیسرا: ضعیف راوی کا تفرد: جس ضعیف حدیث کو بیان کرنے میں راوی اپنے شیخ سے منفرد ہو تو محدثین ایسے تفرد کو قابلِ تقویت نہیں سمجھتے، مثلاً وہ کسی مشہور سند سے کوئی ایسی منفرد حدیث بیان کرتا ہے جو اس شیخ کے مشہور شاگرد بیان نہیں کرتے یعنی وہ امام زہری یا امام سفیان ثوری جیسے شیخ سے روایت بیان کرنے میں منفرد ہے۔ ایسی صورت میں محدثین زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، چہ جائیکہ وہ زیادۃ الضعیف کو تقویت دیں۔ جب ضعیف راوی کسی مشہور سند سے حدیث بیان کرنے میں منفرد ہوگا تو اس کی غلطی کا قوی یقین ہوجائے گا یا یہ تصور کیا جائے گا کہ اسے کسی اور روایت کا شبہ ہے، یا اس کی حدیث میں دوسری حدیث داخل ہوگئی ہے یا اسے وہم ہوا کہ اس سند سے یہ متن مروی ہے یا اسے تلقین کی گئی تو اس نے قبول کر لی یا اس کی کتاب وغیرہ میں حدیث داخل کر دی گئی اور وہ اس سے بے خبر رہا۔ چوتھا سبب: جب ایک سے زائد سبب ضعف ہوں: جب حدیث کی کسی سند میں ایک سے زائد ضعف ہوں مثلاً روایت میں انقطاع بھی ہے اور راوی بھی ضعیف ہے، یا اس میں دو راویان ضعیف ہیں تو بسا اوقات محدثین ایسی سند کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث غریب ہے، امام حاکم نے الإکلیل میں اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ علی بن قادم، اس کا استاذ (ابو العلاء خالد بن طہمان) اور اس کا استاد (عطیہ) کوفی اور شیعہ ہیں، ان میں کلام ہے، ان میں سب سے زیادہ ضعیف عطیہ ہے، اگر اس کی متابعت ہوتی تو میں اس حدیث کو حسن (لغیرہ) قرار دیتا۔‘‘ موافقۃ الخُبر الخَبر (۱/ ۲۴۵) حافظ ابن حجر نے اس کے بعد اس کے شواہد بیان کیے ہیں مگر اس کے باوجود اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایک سے زائد وجۂ ضعف ہے ۔ ملاحظہ ہو: موافقۃ الخُبر الخَبر (۱/ ۲۴۵۔ ۲۴۷) دیگر اسبابِ ضعف: بعض ایسے ضعف کے اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور یہ اسباب متعدد ہیں جن کا شمار مشکل ہے، تاہم ذیل میں چند اسباب بیان کیے جاتے ہیں: ۱۔ اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو ایسی روایت متابع یا شاہد نہیں بن سکتی۔ ۲۔ سند میں راوی کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے؟ ۳۔ اس میں متروک اور انتہائی کمزور راویوں کی منقطع اور مرسل روایات بھی داخل ہیں۔ ۴۔ جب ضعیف راوی کسی حدیث کو مرسل بیان کر دے، مثلاً امام دارقطنی فرماتے ہیں: ’’ابن بیلمانی ضعیف ہے، جب وہ موصول حدیث بیان کرے تو وہ حجت نہیں، جب وہ مرسل بیان کرے تو کیسے حجت ہوسکتا ہے؟‘‘ سنن الدارقطنی (۳/ ۱۳۵) (مقالات اثریہ ،از حافظ خبیب احمد )

حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات

ازقلم: ابن بشیر الحسینوی بسم اللہ الرحمن الرحیم میں نے اپنے مضمون میں مختلف اشکالات کے جوابات دینے پر اکتفاء کیا مگر بعض بھائیوں نے اس کو سمجھنے کی بجائے غلط ہوا دینی شروع کی ،اللہ تعالی ہم سب کی اصلاح فرمائے آمین ۔اور بعض بھائیوں کی خیر خوا ہانہ باتیں انتہائی اچھی لگیں اللہ تعالی تمام بھائیوں کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔آمین ۔ میرے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے جس میں بعض ترمیمات انتہائی ضروری تھیں وہ میں نے کر دی ہیں اور اسی کو اصل سمجھا جائے اور پہلی تحریر سے راقم الحروف بری ہے۔اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالی میرے تمام اساتذہ پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے کہ جن کی محنت وکاوش سے ہی سب کچھ ملا ہے ۔ حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات: محترم حافظ خبیب احمد الاثری نے لکھتے ہیں ’’حسن لغیرہ کے بارے میں بعض لوگ انتہائی غیر محتاط رویہ اپناتے ہیں، ان کے نزدیک ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی مطلق طور پر کوئی حیثیت نہیں، خواہ اس حدیث کے ضعف کا احتمال بھی رفع ہوجائے۔ بزعم خویش حدیث کے بارے میں ان کی معلومات امام ترمذی، حافظ بیہقی، حافظ عراقی، حافظ ابن حجرؒ وغیرہ سے زیادہ ہیں۔ حالانکہ یہ بداہتاً معلوم ہے کہ جس طرح رواۃ کی ثقاہت کے مختلف طبقات ہیں اسی طرح ان کے ضعف کے بھی مختلف درجات ہیں۔ کسی راوی کو نسیان کا مرض لاحق ہے تو کسی پر دروغ بافی کا الزام ہے، بعض کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے: ’’یُعْتَبرْ بِھِمْ، یُکْتَبُ حَدِیْثُھُمْ‘‘ جبکہ بعض کے بارے میں ’’لَا یُعْتَبرْ بِھِمْ، لَا یُکْتَبُ حَدِیْثُھُمْ‘‘ ہے۔ ’’حسن لغیرہ کا مطلق طور پر انکار کرنے والے جس انداز سے متاخرین محدثین کی کاوشوں کو رائیگاں قرار دینے کی سعی نامشکور کرتے ہیں اسی طرح متقدمین جہابذۂ فن کے راویان کی طبقہ بندی کی بھی ناقدری کرتے ہیں اور بایں ہمہ وہ فرامین نبویہ کی خدمت میں مصروف ہیں۔ إِنا ﷲ وإِنا إلیہ راجعون۔‘‘ (مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ)

النصیحۃ فی التعلیق علی انوار الصحیفۃ


امام ابن شھاب زہری کی معنعن احادیث کا دفاع تالیف: ابن بشیر الحسینوی ہم اپنی اس بحث میں ان احادیث کو صحیح ثابت کریں گے جو امام زہری صیغہ عن سے بیان کرتے ہیں اور محدثین ان کو صحیح قرار دیتے ہیں لیکن بعض الناس ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ہم اپنی اس بحث میں ان احادیث کو محدثین کے نزدیک صحیح ثابت کریں گے ان شاء اللہ ۔ بعض الناس خود زہری کی عن والی ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : ''امام دارقطنی ،امام حاکم ،امام بیہقی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔(دیکھئے سنن دار قطنی ١/٣٢٢ ح١٢١٩،المستدرک ٢/٢٣٩ح٨٧٤،السنن الکبری للبیہقی٢/١٦٨ح١٩٦۔١٩٥،جزء القراء ت للبیہقی ص٩٢،٩٤) اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر تدلیس کا الزام ثابت ہے لہذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں ۔کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے ۔واللہ اعلم ۔(الکواکب الدریۃ مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:٩٠) اور ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:' 'ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمین ۔(صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣) تحقیق سند کی تحقیق اسے درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے ۔ ١:ابن حبان (صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣) ٢:ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ :١/٢٨٧) ٣:حاکم (مستدرک حاکم :١/٢٢٣،معرفۃ السنن والآثار :١/٥٣٢) ٤:ذھبی (تلخیص المستدرک :١/٢٢٣) ٥:دارقطنی (سنن الدارقطنی :١/٣٣٥،وقال:ہذا اسناد حسن ) ٦:بیہقی (التلخیص الحبیر :١/٢٣٦بلفظ :حسن صحیح ) ٧:ابن قیم (اعلام المؤقعین :٢/٣٩٧) ٨:ابن حجر (تلخیص الحبیر میں تصحیح نقل کرکے سکوت اختیار کیا ہے) حافظ ابن حجر کا تلخیص میں کسی حدیث کو ذکر کے سکوت کرنا دیوبندی علماء کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے لہذا یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا گیا ہے ۔ (دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث للشیخ ظفر احمد تھانوی ص٥٥،معارف السنن :١/٣٨٥،توضیح الکلام :١/٢١١ ) امام زہری بہت کم تدلیس کرتے تھے ۔(میزان الاعتدال :٤/٤٠) حافظ صلاح الدین کیکلدی نے جامع التحصیل میں انھیں دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کی صورت میں )قبول کیا ہے ،مولاناارشاد الحق اثری نے توضیح الکلام :١/٣٨٨۔٣٩٠)میں امام زہری کی تدلیس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں تنبیہ :لیکن میری تحقیق میں راجح یہی ہے کہ اما م زہری مدلس ہیں لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔لیکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحیح ہے۔(القول المتین ص٢٦۔٢٧) قارئین نے ہمارا مقصود سمجھ لیا کہ یہ حدیث متقدمین محدثین کے نزدیک صحیح ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کی شرط پر تو صحیح ہوتا ہے امام دارقطنی ،حاکم ۔بیہقی اور ذہبی،معتمدعلیہ حفاظ حدیث، ائمہ دین کی شرط پر تو صحیح ہے اور یہی صحیح بات ہے ۔ !!! علائی نے کہا :قبل الائمۃ قولہ عن''(جامع التحصیل ص١٠٩)یہی بات سبط العجمی نے اپنی کتاب( التبیین ص:٨٠)میں کہی ہے ۔ دکتور حاتم العونی نے کہا :''العلماء متفقون علی قبول عنعنۃ الزہری ومنھم ابن حجر نفسہ''تمام علماء ، محدثین امام زہری کے عن والی روایات کو قبول کرنے پر متفق ہیں اور ان میں ابن حجر خود بھی ہیں ۔(التخریج و دراسۃ الا سانید ص٧٧)ہمارے علم کے مطابق حافظ ابن حجر نے کسی بھی حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف قرار نہیں دیا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر کا تیسرے طبقے میں شمار کرنا مرجوح قول ہے ۔ تو آئیں ملاحظہ فرمائیں امام زہری رحمہ اللہ کی عن سے مروی احادیث کا دفاع جن کو بعض الناس نے زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے! ۔ انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من السنن الاربعۃ میں زہری کی عن سے مروی ہونے کی وجہ سے جن احادیث کو ضعیف قرار دیا گیا ان کے حدیث نمبر درج زیل ہیں ۔ سنن ابی داود: رقم الحدیث : ١٤۵، ٢٨١، ٢٨٦، ٢٩٦، ٣٤٦، ٧٣٨ ،٧٨٥، ٩٢٢، ١٠٠٤، ١٣٧٩، ١٦٠٧، ١٦١٩،١٦٣٢،٢٠٨٦، ٢٣٩٣، ٢٤٥٤، ٢٤٧٣، ٢٦١١، ٢٨٣٢، ٢٩٦٦، ٢٩٦٧، ٢٩٧١، ٢٩٨٩، ٢٩٧١، ٢٩٨٩، ٣٠٠٠، ٣٠٠٤، ٣٠١٧، ٣٠١٨، ٣١٣٦، ٣١٣٧، ٣٥٦٩، ٣٨٤٢، ٣٩٧٦، ٤٠٠٠، ٤٥٢٦، ٤٥٣٤، ٤٦٣٦، ٥٢٦٧۔ سنن الترمذی : رقم الحدیث۔ ٤٤٠،٧٠٠،٧٣٥،١١٢٨،١١٤٩،١٨٩٥،٢٣١٨،٢٤٦٤،٣١٦٥،٣١٧٠،٣١٩١۔ سنن النسائی رقم الحدیث ٢١٦،١٢٣٣،١٨٤٠،٢٢٨٨،٣٧٩٣،٥١٤٦،٥٢٩٨،٥٦٧٩،٥٧٣٤۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ١٢٦٨،١٤٦٧،١٥٧٣،١٦٦٦،١٧٠٠،٢٤٤١،٣٥٥٨،٤٠٣٨ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ہماری تحقیق میں زہری کا عن بیان کرنا محدثین کی شرط کے مطابق مضر نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسی حدیث کو صحیح کہتے تھے ۔ اس کی چند مثالیں ملاحظ فرمائیں ۔ مبعض الناس لکھتے ہیں :'' ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ؐ سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمین ۔(صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣) تحقیق سند کی تحقیق اسے درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے ۔ ١:ابن حبان (صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣) ٢:ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ :١/٢٨٧) ٣:حاکم (مستدرک حاکم :١/٢٢٣،معرفۃ السنن والآثار :١/٥٣٢) ٤:ذھبی (تلخیص المستدرک :١/٢٢٣) ٥:دارقطنی (سنن الدارقطنی :١/٣٣٥،وقال:ہذا اسناد حسن ) ٦:بیہقی (التلخیص الحبیر :١/٢٣٦بلفظ :حسن صحیح ) ٧:ابن قیم (اعلام المؤقعین :٢/٣٩٧) ٨:ابن حجر (تلخیص الحبیر میں تصحیح نقل کرکے سکوت اختیار کیا ہے) حافظ ابن حجر کا تلخیص میں کسی حدیث کو ذکر کے سکوت کرنا دیوبندی علماء کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے لہذا یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا گیا ہے ۔ (دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث للشیخ ظفر احمد تھانوی ص٥٥،معارف السنن :١/٣٨٥،توضیح الکلام :١/٢١١ ) [امام زہری بہت کم تدلیس کرتے تھے ۔(میزان الاعتدال :٤/٤٠)حافظ صلاح الدین کیکلدی نے جامع التحصیل میں انھیں دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کی صورت میں )قبول کیا ہے ،مولاناارشاد الحق اثری نے توضیح الکلام :١/٣٨٨۔٣٩٠)میں امام زہری کی تدلیس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں ۔] تنبیہ :لیکن میری تحقیق میں راجح یہی ہے کہ اما م زہری مدلس ہیں لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔لیکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحیح ہے۔(القول المتین ص٢٦۔٢٧) ایک جگہ پر واجب الاحترام بعض الناس لکھتے ہیں : کہ ''اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر تدلیس کا الزام ثابت ہے لہذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں ۔کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے ۔واللہ اعلم ۔(الکواکب الدریۃ مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:٩٠) قارئین نے ہمارا مقصود سمجھ لیا کہ (١)یہ حدیث متقدمین و متاخرین محدثین کے نزدیک صحیح ہے ۔ (٢)امام زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کے نزدیک مضر نہیں ہوتا بلکہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے تھے ۔ (٣)جو حدیث محدثین کی شرط مطابق صحیح ہو اس کو صحیح سمجھا جائے گا ،محڈثین کے خلاف آج کے کسی محقق کی شرط کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور خصوصا اس وقت کہ جب متقدمین و متاخرین کی مخالفت ہو رہی ہو ۔ امام دارقطنی ،امام ابن خزیہ ،امام ابن حبان ،حاکم ۔بیہقی ، ذہبی،ابن حجر ،ابن قیم معتمدعلیہ حفاظ حدیث، ائمہ دین کی شرط پر تو صحیح ہے اور یہی صحیح بات ہے ۔ !!! علائی نے کہا :قبل الائمۃ قولہ عن''(جامع التحصیل ص١٠٩)یہی بات سبط العجمی نے اپنی کتاب( التبیین ص:٨٠)میں کہی ہے ۔ اور یہی دکتور حاتم العونی نے کہا :''العلماء متفقون علی قبول عنعنۃ الزہری ومنھم ابن حجر نفسہ''تمام علماء ، محدثین امام زہری کے عن والی روایات کو قبول کرنے پر متفق ہیں اور ان میں ابن حجر خود بھی ہیں ۔(التخریج و دراسۃ الا سانید ص٧٧)ہمارے علم کے مطابق حافظ ابن حجر نے کسی بھی حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف قرار نہیں دیا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر کا تیسرے طبقے میں شمار کرنا مرجوح قول ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امام زہری کی عن سے مروی احادیث کا دفاع انوار الصحیفۃ میں (٦٧)احادیث کو زہری کے عن کی وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے ترتیب وار ان کا دفاع پیش خدمت ہے ۔ [پہلی صحیح حدیث کا دفاع] ١:داڑھی کے خلال کے متعلق رسول اللہ ؐ نے فرمایا:''ہکذا امرنی ربی''مجھے میرے رب نے اسی طرح حکم دیا ہے ۔ اس کے متعلق (انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃمن السنن الاربعۃ ص١٨ح١٤٥)میں لکھ گیا ۔اسنادہ ضعیف ۔ولید بن زوران :لیّن الحدیث (تق:٧٤٢٣)وللحدیث شاہد ضعیف عندا لحاکم (ج١ص١٤٩،ح٥٢٩)فیہ الزہری مدلس (طبقات المدلسین :٠٢ا۔٣)و عنعن'' جواب : تو آئیے جو علتیں تحقیق میں بیان کی گئی ہیں ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ضعیف کہنا درست نہیں ہے اس اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :''اسنادہ حسن لان الولید وثقہ ابن حبان ولم یضعفہ احد وتابعہ علیہ ثابت البنانی عن انس رضی اللہ عنہ ۔''(النکت علی ابن الصلاح ج١ص٤٢٣)اس کی سند حسن درجے کی ہے کیونکہ ولید بن مسلم کو امام ابن حبان نے ثقہ کہا ہے کسی نے بھی ان کو ضعیف نہیں کہا اور ثابت البنانی نے ان کی متابعت کی ہے ۔ محترم کا یہ کہنا کہ اس کا ایک شاہد بی ہے اور اس کی سند میں زہری مدلس ہیں اور وہ عن سے بیان کر رہے ہیں ۔تو عرض ہے کہ سلف وخلف محدثین میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا بلکہ محدثین تو اس حدیث کو صحیح کہ رہے ہیں مثلا ۔ ١:امام حاکم نے کہا :''اسنادہ صحیح''(المستدرک :ج١ص٢٧٦) ٢:امام ضیا ء مقدسی نے کہا :''اسنادہ صحیح ''(الاحادیث المختارہ :ج٣ص١٦٩،ح٢٧١٠) ٣:امام ابن قطان الفاسی نے کہا :''ہذاالاسناد صحیح ''(بیان الوہم والایھام :ج٥ص٢٢٠) حافظ نووی نے کہا:''اسنادہ حسن او صحیح''(المجموع :ج١ص٣٧٦) ٤:حافظ ذ ہبی نے کہا :''صحیح''(تلخیص المستدرک ج١ص٢٧٦) ٥:حافظ ا بن قیم نے کہا :''ہذا اسناد صحیح ''(تہذیب سنن ابی داود :ج١ص٧٦) ٦:حافظ ابن حجرنے کہا :''اسنادہ حسن''(النکت :ج١ص٤٢٣) ٧:علامہ عبدالروف المناوی نے کہا :''حسن''(التیسیر بشرح الجامع الصغیر ج٢ص٢٧٦) ٨:علامہ حمدی بن عبدالمجید السلفی نے کہا :''صحیح''(تحقیق مسند الشامیین ج٣ص٦) ٩:امام ناصر الدین البانی نے کہا :''صحیح ''(ارواء الغلیل ج١ص١٣٠) ١٠:علامہ ابو عبیدہ مشہور حسن نے کہا :''والحدیث صحیح''(تحقیق المجالسہ وجواہر العلم ج٣ص٣٢٣ح٩٤٩) تلک عشرۃ کاملۃ ولدینا مزید قارئین نے ہمارا مقصود سمجھ لیا کہ (١)یہ حدیث متقدمین و متاخرین محدثین کے نزدیک صحیح ہے ۔ (٢)امام زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کے نزدیک مضر نہیں ہوتا بلکہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے تھے ۔ (٣)جو حدیث محدثین کی شرط مطابق صحیح ہو اس کو صحیح سمجھا جائے گا (٤)یاد رہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی بھی محدث نے اس حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا ۔! والحمدللہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ [دوسری صحیح حدیث کا دفاع] استحا ضہ کے بارے میں فاطمہ بنت ابی حبیش کے متعلق حدیث ہے :''فامرھا ان تقعد الایام''آپ ؐ نے اس کو ایام حیض میں بیٹھنے کا حکم دیا (کہ وہ نماز نہ پڑھے) انوار الصحیفہ (ح٢٨١،ص٢٤)میں اس کے متعلق لکھا ہوا ہے :''اسنادہ ضعیف ،الامام الزہری عنعن (تقدم:١٤٥)وعند النسائی (١/١١٦ح٢٠١)لفظ آخر بسند صحیح ،فھو یغنی عنہ ۔ اقول: امام ابن حزم نے کہا :''صحیح''(المحلی:٢٫١٩٥) امام البانی نے کہا :''صحیح''(صحیح ابی داود:٢٨١) اس کی اصل صحیح البخاری (٣٠٦)اور صحیح مسلم(٣٣٣)میں ہے ۔ اور صاحب انوار الصحیفہ بذات خود تسلیم کرتے ہیں :''وعند النسائی (١/١١٦ح٢٠١)لفظ آخر بسند صحیح ،فھو یغنی عنہ ۔'' یاد رہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی بھی محدث نے اس حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا ۔! والحمدللہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امام شافعی اور مسئلہ تدلیس میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات


لنک

تراث الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ


خود کشی کے احکام


تالیف :ابن بشیر الحسینوی اورخودکشی عام ہو رہی ؟ موجودہ معاشرے میں لوگ اسلام سے دور ہوتے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں بھیانک اور مہلک گناہوں میں زندگیاں بسر کر رہے ہیں ۔بے علمی کی انتہائی ہے کہ ذرہ سی بات پر اپنے آپ کو موت کی گھاٹ اتار دیتے ہیں !!شاید ایسے لوگوں کو علم نہیں ہے کہ اس طرح کرنے سے مصیبتیں دور نہیں ہوتیں بلکہ ہمیش ہمیش مصیبتیں اور تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں !شاید اچھی تربیت کا بھی فقدان ہے والدین اور اساتذہ لوگوں کی اس طرح تربیت نہیں کر رہے جس طرح کرنی چاہئے کہ ان میں صبر وتحمل کا جزبہ پیدا کیا جائے اور قرآن وحدیث کو مضبوطی سے پکڑنے کا حرص پیدا ہو ۔تقوی جیسی عظیم نعمت سے لذت اٹھائیں ،میڈیا ،انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے بھی لوگوں میں خود کشی کے عناصر کو جنم دیا ہے کہ کنٹرول سے باہر ہو جاتے ہیں ،اسی طرح لوگ تو نماز کے قریب نہیں آتے اسلامی احکام سے دور، دور نظر آتے ہیں وہ خود کشی نہ کر یں تو اور کیا کریں ،جتنے بڑے گناہ ہیں وہی ہمارے معاشرے میں زیادہ ہو رہے ہیں ۔خود کشی میں ملوث مردو خواتین ہی نہیں بلکہ بچے بھی شامل ہیں !!!چند دن پہلے ایک بزرگ نے مجھے کہا کہ میرا چھوٹا بچہ اپنی امی سے کہتا ہے کہ مجھے فلاں سکول سے اٹھا لو ورنہ میں چھت سے چھلانگ لگا دوں گا !!!روزانہ اخبارات میں یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ باپ نے تھوڑا سا ڈانٹا تو بیٹے نے اسی وقت کہہ دیا کہ میں ابھی خود کشی کر رہا ہوں !بیٹی کی بات نہ مانی تو اس نے خود کشی کرلی ،غربت کی وجہ سے اپنے آپ کو موت کی گھاٹ اتار لیا !میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا تو خاوند یا بیوی نے بجلی کو ہاتھ لگا لیا !انصاف نہ ملنے پر اپنے آپ کو مار ڈالا !اس طرح کی خبریں ہمیں روزانہ اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہیں !!یہ لوگ قصور وار ہیں کہ انھوں نے خود کشی کا ارتکاب کیا لیکن ہم نے ان کو اس سے بچانے کے لئے ان کی دینی تعلیم و تربیت کا کیا کوئی خاص انتظام کیا جس میں نوجوا ن طبقہ کو اسلامی تربیت پر مشتمل کورسز کروائے جائیں ،ان کی تربیت کی جائے اور ان میں صبر و تحمل پیدا کیا جائے !اگر انتظام ہے تو الحمدللہ ورنہ جلدی شروع کیجئے والدین اور اساتذہ خصوصی توجہ دیں اپنے سکولز ،یونیورسٹیوں ،کالجوں ، محلوں اور گھروں میں خود کشی کی مذمت اور صبر پر لیکچرز کا اہتمام کروائیں تا کہ امت مسلمہ اس کبیرہ گناہ سے باز آجائے ۔ اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔ خود کشی ایک کبیرہ گناہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو شخص کسی ہتھیار سے خود کشی کرے تو جہنم میں وہ ہتھیار اس شخص کے ہاتھ میں ہو گا اور اس ہتھیار سے جہنم میں وہ شخص خود کو ہمیشہ زخمی کرتا رہے گا اور جوشخص زہر سے خود کشی کرتا ہے وہ جھنم میں ہمیشہ زہر کھاتا رہے گا اور جو شخص پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے گا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ پہاڑ سے گرتا رہے گا ۔(صحیح مسلم ) اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ نووی لکھتے ہیں :خود کشی کبیرہ گناہ ہے لیکن کفر نہیں ہے اس کے ارتکاب سے انسان دائمی جھنمی کیوں ہے ؟اس کے دو جواب ہیں :۱:جس شخص نے خود کشی کو حلال سمجھ کر کیا حالانکہ اس کو خود کشی کے حرام ہونے کا علم تھا لیکن اس نے اس کو حلال سمجھا اس لئے ہمیشہ جھنم میں رہے گا ۔۲:اس حدیث میں ہمیشہ سے مراد زیادہ وقت ہے یعنی وہ شخص زیادہ وقت عذاب میں مبتلا رہے گا ۔ نوٹ:اگر اللہ تعالی چاہے تو اس کو معاف بھی کر سکتا ہے اس مسئلے پر آگے بحث ہو گی۔ خود کشی کرنے والے ذرہ سوچ! کہ اللہ تعالی نے تیری قسمت میں کتنی خوشیاں لکھی ہیں،کتنی نیک صالح اولاد لکھی ہے ،کتنی جائیداد لکھی ہے ،کتنی کاریں اور کوٹھیاں بنگلے لکھے ہیں ، لیکن تو ان کو لینے سے انکار کر رہا ہے اب تو شاید غریب ہے لیکن کل کو تیرا مستقبل کتنا روشن ہونا ہے ،اب شاید تجھے پریشانیاں لاحق ہیں لیکن کل تجھے کتنی خوشیاں ملنے والی ہیں۔کچھ تو سوچ !صرف آج کو چھوڑ دے کل پر نظر رکھ ،موت تو آنے ہی والی ہے اللہ تجھے زندگی دینا چاہتا ہے لیکن تو اللہ تعالی سے اعلان جنگ کر رہا ہے اور خود کشی کر رہا ہے نہ جانے تجھ سے کتنے لیڈر اور کمانڈر اللہ تعالی نے پیدا کرنے ہیں ،کتنے ولی اور محدثین تیری اولاد میں ہونے ہیں ،کتنے سپہ سالار اور مجاہدین کا تو نے باپ بنناہے !!!میری یہ باتیں بار بار پڑھ اور خود کشی سے باز آجا ۔۔۔یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ ایک تنگی کے بعد دوہری خوشیاں ملتی ہیں ان کا انتظار کر ۔۔آج تو اکیلا ہے کل تیری ایک فوج ہو گی جن کی تو تربیت کرے گا اور کسی کا خاوند کسی کا باپ کسی کا نانا کسی کا دادا کسی کا استاد بننے والا ہے ،ہو سکتا ہے اللہ تجھے کتنی عزتوں سے سرفراز کرے ۔یہ کسی کو نہیں معلوم کہ آج وہ جیلوں میں پھنسا پریشان ہے اور کل کو وہی ملک کا صدر بننے والا ہو ۔آج گداگر ہے تو کل کو وزیر اعظم کا باپ بننے والا ہے ۔۔۔دیکھ اپنے ارد گرد سوال کر اپنے والدین سے کہ فلاں کو اتنی عزت کیوں ملی ؟فلاں امیر کسیے ہوا ؟فلاں جاگیر دار کیسے بنا ؟؟؟ایک دوست نے مجھے بتا یا کہ ہم پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہمارے والد محترم نے ہماری امی سی کہا کہ میرا آم کھانے کو دل کرتا ہے امی جواب دیتی ہے کہ تمہیں آم کھلاوں یا بچوں کے پیٹ بھروں !!؟؟وہ دوست کہنے لگا کہ الحمدللہ یہ وقت ہے ہمارے صرف ایک بھائی کی ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار سے زیادہ ہے باقیوں کے کاروبار الگ ہیں !!!!! خود کشی کرنے سے پہلے فون کریں! اگر کسی نے خود کشی کا ارادہ کیا ہے تو پہلے ایک باررابطہ کرے ان نمبروں پر : 03024056187 03164056187 03234056187 سکائیپ:ibrahim.alhusainwy فیس بک:ibnebashir alhusainwi ای میل:alhusainwy@gmail.com ضرور اپنی پریشانی کا حل پائے گا ،یہ صرف اس ارادے کے تحت عمل شروع کیا ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:جس نے ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ۔ خود کشی کرنے کے بعد ! جب کوئی اس کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو لوگ برے الفاظ سے یاد کرتے ہیں !مثلا یہ جہنم میں جائے گا !اس نے بہت برا کام کیا ہے ؟یہ کمزور نکلا ہے ؟اس نے بے صبری سے کام لیا ہے ؟اس میں عقل نہیں تھی کیا ؟یہ اللہ تعالی کو کیسے حساب دے گا ؟کئی علماء کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اس کا جنازہ نہیں پرھنا ؟؟!!اس کے رشتہ دار بہت زیادہ پریشان ہوتے ہیں اور نہ جانے ان پر کیا گزرتی ہے !!خود کشی کرنے والے یہ باتیں بھی یاد رکھنی چاہئے !!خود کشی سے آرام نہیں ملتا بلکہ اپنے آپ کو جھنم کے سپرد کرنا ہے ،عذاب قبر کے سپرد کرنا ہے کون ہے عقل مند جو چھوٹی مصیبت سے نکال کر اپنے آپ کو جھنم کے حوالے کرے !!دنیاوی مصیبتیں چھوٹی پریشانیاں ہیں اس میں تو دلاسہ دینے والے اور سمجھانے والے بہت زیادہ ہوتے ہیں غم ہلکہ ہو ہی جاتا ہے ،پریشانی ختم ہو ہی جاتی ہے لیکن قبر میں جھنم میں کوئی بھی سمجھانے والا دلاسہ دینے والا نہیں ہوتا !! کیوں یہ غلطی کر رہے ہو !صبر کرو !جلد ہی پریشانی دور ہو جائے گی ،اللہ تعالی کی طرف رجو ع کریں ،نیک لوگوں اور علماء میں سے کسی سے مشورہ کریں ! خود کشی کیا اللہ تعالی سے جنگ نہیں ! جی ہاں خود کشی اللہ تعالی سے جنگ ہے اس لیے خود کشی کرنے والا ناکام رہے گا اللہ تعالی کو غصہ آتا ہے کہ میرا بندا ہوکر مجھ سے جھنگ کر رہا ہے !!میں تو اس کو زندگی دینا چاہتا ہوں مگر یہ ختم کرنا چاہتا ہے !! خود کشی کرنے والا پہچانا جاتا ہے اسے پہچانیے اور اس کا خیال رکھیے؟!!اہم بات یہ ہے کہ خود کشی کا ارادہ در اصل ایک خاص ذہنی کیفیت میں کیا جاتا ہے ،ڈپریشن ،افسردگی کی انتہائی کیفیت ہے جس میں انسان کے مجموعی جسمانی افعال متاثر ہوتے ہیں ۔ڈپریشن کا شکار ہونے والا انسان انتہائی تھکاوٹ اور بے چینی محسوس کرتا ہے اسے اپنی لاچارگی کا حددرجہ احساس ہوتا ہے اس کیفیت میں بھوک پیاس بھی نہیں لگتی ،دنیا اسے تاریک اورزندگی بے معنی محسوس ہوتی ہے انسانی سوچ کے اس حدتک پہنچنے کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں پے در پے ناکامیاں ،صدمات ،رکاوٹیں اور تناو زدہ ماحول سرفہرست ہیں ۔وہ کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا ،اور اشاروں میں کہتا پھرتا ہے کہ فلاں وقت یا دن میرا آخری دن ہے ،وجہ پوچھنے پر کہتا ہے کہ میں کبھی نہیں بتاوں گا !!جب کسی کی اس طرح کی صورت حال ہو تو ہمیں اس پر کڑی نگرانی کرنی چاہئے ،اس کو اکیلے کو نہیں رہنے دینا چاہئے بلکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی اس کے پاس ضرور موجود ہو ،تاکہ وہ اس عمل سے باز رہ سکے ،اگر ممکن ہو سکے تو دینی پروگرام یا میٹنگ میں ساتھ لے جائیں تاکہ اسے سکون ملے اگر اس کی پریشانی کا تناو زیادہ محسوس ہو رہا ہو تو اسے نشے کی عارضی سی کوئی چیز کھلا دی جائے تاکہ کچھ دیر سونے کے بعد اٹھے گا تو سکون محسوس کرے گا ۔میرے خیال میں خود کشی ایک بہت بڑا گناہ ہے اس سے بچانے کے لئے جو بھی کام کرنا پڑے کریں لیکن اس کو خود کشی سے بچائیں ۔نوٹ:نشہ حرام ہے اس میں کوئی شک نہیں جو ہم نے کہا ہے اس سے مقصود خود کشی سے بچانا ہے اور کوئی مقصد نہیں ! خود کشی سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے ! درج ذیل باتوں پر عمل کرنے سے اس کبیرہ گناہ سے چھٹکارہ ممکن ہے مثلا ۱:قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں ۔ ۲:اپنے اندر اللہ تعالی کا ڈر پیدا کریں ۔ ۳:علماٗ کرام اور نیک لوگوں سے رابطہ رکھیں اور ان کے پاس بیٹھنے کی عادت بنائیں اپنی تکالیف ان کے سامنے بیان کریں اور ان کا حل تلاش کرتے رہیں ۔ ۴:آخرت کی خطرناک سزاوں کو کبھی نہ بھولیں ! ۵:پریشانی اور مصیبت میں صبر کرنا فرض ہے اس پر عمل کریں ! کیا خود کشی کرنے والے کے لئے بھی معافی ہے ؟ مفتی پاکستان استاد محترم حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :خود کشی واقعی بہت بڑ اجرم ’’خلود فی النار ‘‘(جہنم میں ہمیشہ رہنے )کا موجب ہے مگر یہ کہ اللہ کو کوئی نیکی پسند آجائے تو ممکن ہے نجات کا ذریعہ بن جائے جس طرح کہ ایک مہاجر کے بارے میں صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے کہ اس نے تکلیف کی وجہ سے انگلیاں جوڑوں سے کاٹ دیں ۔خون بہہ نکلا ،اس سے موت واقع ہو گئی ۔بعد میں ایک دوست (طفیل دوسی رضی اللہ عنہ )بحالت خواب ملاقات ہوئی ۔دریافت کیا کیا حال ہے ؟کہا میری ہجرت کی وجہ سے اللہ نے مجھے معاف کر دیا ہے ۔کہا ہاتھ کیوں ڈھانپ رکھا ہے ؟کہا رب نے فرمایا :اس فعل کا ارتکاب چونکہ تونے کیا ہے لہذا اسے خود ہی درست کرو ۔نبی ﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو فرمایا :اللھم ولیدیہ فاغفر‘‘اے اللہ اس کے ہاتھوں کو بھی معاف فرما۔(صحیح مسلم:)اس واقعہ سے معلوم ہوا (اگر خود کشی کرنے والے کا کوئی اچھا عمل ہے جس سے اللہ تعالی راضی ہے مثلا والدین کی خدمت،سخاوت وغیرہ تو اللہ تعالی اس کو خود کشی کرنے کے باوجود بھی معاف فرما دیں گے لیکن وہ خود کشی کو حلال نہ سمجھتا ہو ۔اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے)کہ خود کشی کرنے والے کے لئے بخشش کے لئے دعا ہو سکتی ہے ۔دوسرا قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کے چاہے معاف کر دے ۔(النساء:۱۱۶)اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا شرک کے علاوہ جملہ گناہوں سے درگزر ممکن ہے ۔اس کے عموم میں خود کشی بھی شامل ہے اور جہاں تک اس حدیث (خود کشی کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا )کا تعلق ہے جو سائل نے ذکر کی ہے ،اس کی تاویل طول مکث (زیادہ مدت رہنے )سے ممکن ہے(یا اس شخص کے لئے ہے جو خود کشی کو حلال سمجھ کر کرتا ہے ) جس طرح کہ قرآن مجید میں ایک آیت :اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں ہمیشہ (جلتا)رہے گا (النساء:۳۹)کی تاویل و تفسیر طول مکث یعنی عرصہ دراز سے کہ گئی ہے ۔(فتاوی ثنائیہ مدنیہ جلد:۱ صفحہ ۸۶۴۔۸۶۵) برائیکٹوں کی عبارتیں میری طرف سے ہیں ۔الحسینوی ۔ خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ اور اس کے لئے بخشش کی دعا کرنا: سماحۃ الشیخ مفتی سعودی عرب ابن باز رحمہ اللہ ایک سوال کا جواب دیتے ہیں : خود کشی کرنے والے کو غسل دیا جائے گا ،اس کا جنازہ بھی پڑھایا جائے گا ۔اور اسے مسلمانوں کے ساتھ ہی دفن کیا جائے گا اس لئے کہ وہ گناہ گار ہے ،کافر نہیں ،کیونکہ خود کشی معصیت ہے کفر نہیں ،لہذا جو شخص خود کشی کرے ،والعیاذباللہ اسے غسل دیا جائے گا ،اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اسے کفن دیا جائے گا لیکن معروف عالم دین اور ایسے لوگوں کو جن کی خاص اہمیت ہو ،چاہئے کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ وہ اس کے عمل سے راضی ہیں ،اس لئے معروف عالم دین ،بادشاہ ،قاضی چئیر مین بلدیہ یا میر شہر اس سے نارضی کا کرتے ہوئے جناز ہ ترک کر دیں اور یہ اعلان کردیں کہ خود کشی کرنا غلط ہےء تو یہ ایک اچھی بات ہے لیکن بعض نمازیوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھ لینی چاہئے ۔(فتاوی اسلامیہ :جلد ۲صفحہ:۹۹) وہ خود کشی سے کیسے بچا !؟راقم سے کئی مردوں اور عورتوں نے اپنے حالات سے تنگ آکر کہا کہ ہم خود کشی کرنا چاہتے ہیں میں نے ان سے مفصل بات کی اور وجہ پوچھی اور ان کو سمجھایا تو وہ اللہ تعالی کی توفیق سے مطمئن ہوگئے اور اب وہ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں ان سے جو میرے مکالمے ہوئے وہ پڑھیں شاید کہ آپ بھی خود کشی سے بچ سکیں ۔دوستوں کے نام صیغہ راز میں رکھتے ہوئے صرف مخفف لکھوں گا ۔ الف:بھائی جان میں زندگی سے بہت تنگ ہوں کیوں کہ میں چل نہیں سکتا میرا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میں چلنے سے عاجز ہوں اب میرا زندہ رہنے کو دل نہیں کرتا خود کشی کرنا چاہتا ہوں ! ابن بشیر الحسینوی:میں آپ سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ان پر غور کریں ان شاء آپ ضرور مطمئن ہوں گے ۔ ۱:آپ ساری عمر تندرست رہے اور تندرستی اللہ تعالی کی طرف سے تھی اب اسی اللہ تعالی نے آپ کو بیمار کیا ہے تو آپ ناشکری کرتے ہوئے اللہ تعالی کی اپنے اوپر بے شمار نعمتوں کو بھلا رہے ہو پہلے تندرستی کی نعمت ۔اب بھی تم کھاتے ہوں ،بولتے ہوں ،سنتے ہو ،سوچتے ہو ،اپنے اہل وعیال کے پاس ہو سارے تمہاری خدمت کر رہے ہیں ،یہ کتنی بڑی نعمتیں ہیں ۔شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ چلنا صرف ایک نعمت سے عارضی طور پر محروم ہو اس سے بھی جلد ہی آپ کو شفا مل جائے گی ان شاء اللہ ۔ہم آپ کی شادی کریں گے اللہ تعالی آپ سے بہت بڑے نوجوان افراد پیدا کرے گا ان میں سے بعض لیڈر بعض محدثین پیدا ہوں گے آپ کا دنیا میں نام رہے گا ۔ان شاء اللہ ۲:آپ فارغ نہ رہیں بلکہ چھوٹا سا کارو بار شروع کریں تاکہ مصروف رہیں جب انسان فارغ رہتا ہے تو ویسے ہی عجیب و غریب باتیں سوچتارہتا ہے اپنے آپ کو مصرو کرو۔ ۳:علماء کرام اور نیک دوستوں سے ملاقاتیں کیا کرو وہ آپ کو سمجھاتے رہیں گے اور آپ کو تسلی دیتے رہے گے آپ کی پریشانی ختم ہوتی رہے گی ۔ ۴:دینی کتب کا مطالعہ کیا کریں اللہ تعالی آپ سے بڑا دینی کام لے گا ان شاء اللہ ۔ ن:بھائی میں آپ کی ان باتوں پر ضرور عمل کروں گا آپ میرے لئے دعا بھی کیا کریں اور جب بھی گاوں آئیں مجھے ملتے رہا کریں اور قیمتی باتوں سے دل کو منور کیا کریں ۔ ابن بشیر الحسینوی:جی ضرور میں دعا بھی کروں گا اور گاوں آکر وقت بھی دیا کروں گا ان شاء اللہ اللہ کی قسم میرے اس بھائی نے میری باتوں پر عمل کیااب وہ کئی سالوں سے موبائلوں کی اپنی دکان پر ہوتا ہے اور خوش خرم زندگی گزار رہا ہے والحمدللہ ۔طبیعت بھی پہلے سے کافی بھتر ہے ۔اگر وہ خود کشی کرتا تو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے دو چار ہوتا ۔ ایک دوسرا دوست: ب:بھائی جان میں خود کشی کرنا چاہتا ہوں پہلے تین بار کوشش کر بھی چکا ہوں لیکن اللہ تعالی نے مجھے بچایا ہے ،میں زندگی سے بڑا پریشان ہوں میری رہنمائی کریں ۔ ابن بشیر الحسینوی:محترم آپ اپنی پریشانی کی وضاحت کریں تاکہ میں رھنمائی کر سکوں ۔ ب:محترم میں شراب پیتا ہوں اور برے کام بھی کرتا ہوں میرا والد میرے کہنے پر میری شادی نہیں کر رہا اگر میں شراب نہ پیوں اور برا کام نہ کروں تو مرتا ہوں اس لئے خود کشی کرنا چاہتا ہوں ! ابن بشیر الحسینوی:میرے بھائی یہ تو کوئی بات نہیں ہے کہ شادی نہیں ہو رہی ہم آپ کی سفارش کردیتے ہیں ان شاء اللہ۔ جلدی شادی ہو جائے گی آپ وقت نکالیں دینی مدرسہ میں داخل ہو جائیں ان شاء اللہ دونوں بری عادتیں جلد ہی ختم ہو جائیں گی اور دینی کتب کا مطالعہ کیا کریں اپنے آپ کو فارغ نہ رکھیں اور تنہائی سے بچیں ،شراب پینے سے انسان کا دفاغ ختم ہو جاتا ہے اور جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے بری محفلوں سے بچیں یہ عقیدہ مضبوط کریں کہ اللہ تعالی مجھے پر جگہ دیکھ رہا ہے۔میری ان باتوں پر عمل کریں اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ۔ ب:میں آپ کی باتوں پر ضرور عمل کروں گا ۔ اللہ کی قسم !اس بھائی نے مدرسہ میں داخلہ لیا اور کافی پڑھا اب بیٹی اور بیٹے کا باپ ہے کئی مرتبہ عمرہ بھی کر چکا ہے اور اچھی ملازمت پر کام کر رہا ہے اور بہت ہشاش بشاش زندگی گزار رہا ہے ۔ اگر وہ خود کشی کرتا تو دنیا اور آخرت کی رسوائی سے دو چار ہوتا کیا پریشانی کا حل خود کشی ہے ! کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کو تھوڑی سی پریشانی آئے تو وہ فورا خود کشی کر لیتے ہیں ،حالانکہ پریشانیاں ہر وقت نہیں رہتیں بلکہ کچھ عرصہ پریشانی رہی تو پھر ختم ہو جاتی ہے ۔اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے تقدیر برحق ہے ،فرشتوں اور انسانوں میں اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر یہ حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔اس کبیرہ گناہ سے امت مسلمہ کو بچانے کی خاطر یہ حقیقت پر مبنی ایک پیغام شایع کیا جارہا ہے شاید کو ئی مسلمان خود کشی جیسی لعنت سے باز رہے اور تکالیف میں صبر اور ثابت قدمی کو اپنا شیوہ بنائے ۔کئی ایک فرق ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کو پریشانی دکھ اورتکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اس لئے پریشانی کے وقت اللہ تعالی کو یاد کرنا چاہئے اور علمااور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کر نی چاہئے ،تو ان شاء اللہ جلدی ہی پریشانی ختم ہوجاتی ہے !دنیا کی کی پریشانی چھوٹی ہے اور اس سے نجات پانے کے بے شمار طریقے بھی ہیں لیکن خود کشی کے بعد کی پریشانی بہت بڑی ہے اللہ تعالی سب کو محفوظ فرمائے ! خود کشی کرنے والے کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا : جس سے ایسا گناہ سر زد ہو گیا ہے تو اس کے اہل وعیال کو چاہئیے کہ اس کے لئے بخشش کی دعا بھی کریں اور صدقہ جاریہ بھی کریں مثلا مسجد بنا دیں یا مسجد میں کوئی کمرہ بنا دیں یا نیک فقیروں کی سرپرستی کریں یا کوئی دینی کتاب اس کی طرف سے شایع کردیں ،تاکہ اس کا ثواب اسے مسلسل پہچنتا رہے شاید کہ اللہ تعالی اس وجہ سے اسے معاف فرما دے ۔ کیا غربت کا حل خود کشی ہے ؟ کتنے لوگ صر ف اس وجہ سے خود کشی کرتے ہیں کہ غربت ہے !!حالانکہ غربت کے کئی ایک حل موجود ہیں جس پر عمل کیا جائے توضرور حالت بہتر ہو گی مثلا۔۱:اللہ تعالی سے دعا کرے کہ اے اللہ مجھ پر رحم فرما اور میر لئے رزق حلال وسیع فرما ۔۲:نمازوں کا اہتمام کرے اور کثرت استغفار کرے ۔۳:محنت مزدوری کرے ۔۴:کسی سے قرض لینا پڑے تو لے کر اپنا کام چلائے ۔۵:اپنے والدین اور رشتہ داوں سے تعاون لے کر کارو بار شروع کرے ۔کتنے ہی لوگ ا یسے گزرے ہیں جو بے چارے پتے کھا کر گزارا کرتے تھے اور ساری انسانیت کے سردار ہمارے پیارے رسول ﷺ بھی تو غریب ہی تھے کئی کئی دن گھر میں آگ نہیں جلتی تھی ۔اور غربت و امیری اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اللہ تعالی انسان کی حالتیں بدلتا رہتا ہے کبھی امیری اور کبھی غریبی ۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ غربت کا حل ضرور ہے لیکن اس کا حل خود کشی ہرگز نہیں ہے ۔ اگر میاں ،بیوی کا اختلا ف ہو جائے تو اس کا حل! بے شمار لوگ اس وجہ سے خود کشی کر رہے ہیں کہ ان کی میاں بیوی کی آپس میں ناچاکی ہو گئی یا کسی بات پر اتفاق نہ ہوا تو خاوند یا بیوی نے خود کشی کرلی ،حالانکہ اس کے کئی ایک حل ہیں خود کشی حل نہیں ہے مثلا ۱:اپنے والدین ،بہن بھائیوں یا سسرال کو خبر دی جائے کہ وہ میری بیوی کو سمجھائیں ،اس طرح اختلاف حل ہو جاتا ہے ۔میاں بیوی کا آپسی اختلا ف ہو جاتا ہے لیکن اس کا حل خود کشی نہیں بلکہ افہام و ت فہیم ہے ۔ ۲:اگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو فیصلہ کرنے والے محترم شخصیات کو اپنی پریشانی بتا ئی جائے اور یہ طبقہ ہر ہر جگہ موجود ہوتا ہے وہ بڑے اچھے طریقہ سے مسئلہ حل کر دیتے ہیں اور وہ فریقین کو مجلس میں بلا کر تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ آئندہ سے اگر بیوی کی طرف سے کوئی تکلیف پہنچی تو اتنا جرمانہ ادا کرنا ہوگا ۔ ۳:اگر پھر بھی کوئی حل نہ نکلے تو گورنمنٹ عدالتیں کس لئے بنائی گئی ہیں ان کی طرف رجوع کیا جائے اور انصاف کی اپیل کی جائے ضرور مسئلہ حل ہو گا ۔ ۴:اگر پھر بھی حالات بہتر نہیں ہو رہے تو طلاق دے کر فارغ کیا جائے کیوں کہ طلاق دینا جائز ہے اللہ تعالی کا حکم ہے اس پر عمل کیا جائے اور بہتر بیوی تلاش کرکے دوبارہ شادی کر لی جائے ۔ ان چار باتوں میں جس طرح کی مرضی ناچاکی ہے وہ ضرور ختم ہو جاتی ہے اور یہی اس کا حل ہے خود کشی اس کا حل ہر گز نہیں ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے خواہشات کے پیچھے بھاگنے والے! خواہشات کو چھوڑ دے: امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں : ’’اے بھائی ! اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہو اپنی گمراہی اور خواہشات سے باز آ اپنی بقایا عمر اطاعت کے وظائف میں گزار ،جلدی کی خواہشات کے ترک پر صبر کر ،اے مکلف ہر قسم کے جرائم اور گناہوں سے دور بھاگ کیونکہ دنیا میں اطاعت خداوندی پر صبر کرنا دوزخ پر صبر کرنے سے بہت آسان ہے۔‘‘(بحرالدموع : اردو: ۲۵) اے مسافر !ایسے غافل کیوں ہے؟،آگے جہنم بھی ہے : امام ابن جوزی فرماتے ہیں :’’بردران گرامی ! یہ نیند کیوں ہے تم تو بیدار ہو ، یہ حیرت کیوں ہے ،تم تو دیکھ رہے ہو ،غفلت کیوں ہے تم تو حاضر ہو یہ بے ہوشی کیوں ہے حالانکہ تم چیختے چلاتے ہو۔یہ سکون کیوں ہے تم سے حساب لیا جائے گا ۔یہ رہائش کیوں ہے تم نے کل کوچ کرجانا ہے، کیا سونے والوں کے لئے ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ بیدار ہوجائیں ۔کیا غفلت کے بندوں پر یہ وقت نہیں آیا کہ نصیحت پکڑیں ؟جان لے اس دنیا میں سب لوگ سفر میں ہیں اپنے لئے وہ عمل کرلے جو تجھے قیامت کے دن دوزخ سے نجات دلا سکیں ۔‘‘(بحرالدموع :۴۰۔۴۱) اے دنیا میں مزے لینے والے آگے موت کو نہ بھول: امام ابن جوزیؒ فرماتے ہیں : ’’اے برادران ! غافل پر افسوس ہے کب تک سوتا رہے گا ؟کیا اس کو راتیں اور دن نہیں جگاتے؟ محلات اور خیموں کے مکین کہاں گئے ؟ اللہ کی قسم ! موت کا پیالہ ان پر بھی گھوم چکا ہے اور موت نے ان کو اس طرح اٹھا لیا ہے جس طرح سے کبوتر دانہ اٹھاتا ہے مخلوق اس میں ہمیشہ نہیں رہ سکتی ، صحیفے لپیٹ لئے گئے اور قلم خشک ہو چکے ہیں ۔‘‘(بحرالدموع : ۵۸) اے انسان دینی ذمہ داری کو مت بھول : ابن جوزیؒ فرماتے ہیں :’’ اے بھائی ! کتنے د ن ایسے ہیں جو تونے امید کے سہارے کاٹے ہیں ۔کتنی زندگی ایسی ہے جس میں تو نے اپنی ذمہ داری کو ضائع کیا ہے ،کتنے کان ایسے سننے والے ہیں لیکن ان کو خوف دلانا یا تنبہیہ نہیں کرتا ۔‘‘(بحرالدموع :: ۶۱) اے بوڑھے لوٹ آ دین کی طرف: امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں ؛’’ اے زندگی کے حاضر ! تو حدود کو بھلا چکا ہے ،اپنی مصیبت پر رو، ایسا نہ ہو کہ تو مر دود ہو جائے ،اے وہ ! جس کی بہت سے عمر بیت چکی ہے اور ماضی لوٹ نہیں سکتا تجھے نصیحتوں نے رہنمائی کی ہے اور بڑھاپے نے آگاہ کیا ہے کہ موت قریب ہے اور زبان حال پکار پکار کر کہہ رہی ہے (بحرالدموع :: ۶۴) اے غافل انسان آخرت کی فکر کر : امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں :’’ اے آدم زاد ! تیرے لئے ایک زندگی دنیا کی ہے اور ایک آخرت کی ۔دنیا کی زندگی کو آخرت پر قربان مت کر ۔اللہ کیقسم ! میں نے ایسی قوم کو دیکھا ہے جنہوں نے اپنی عاقبت کو دنیا پر ترجیح دی اور ہلاک ہوئے ،ذلیل ہوئے اور شرمندہ ہوئے ۔‘‘ اے آدم کے بیٹے ! دنیا کوآخرت کے بدلے میں بیچ ڈال ۔دنیا اور آخرت دونوں میں فائدہ میں رہے گا ۔ آخرت کو دنیا کے بدلہ میں نہ دے ورنہ دونوں میں رسوا ہو گا۔ اے آدم کے بیٹے ! جب تو نے آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا تو دنیا کی کوئی تکلیف تجھے ضرر نہ پہنچا سکے گی اور سب کی آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا تو دنیا کی کوئی راحت تجھے فائدہ نہ پہنچا سکے گی۔ اے آدم کے بیٹے ! یہ دنیا سواری ہے اگر تو اس پر سوار ہو گا تجھے اٹھائے گی اگر تو نے اس کو چھوڑ دیا تو یہ تجھے قتل کردے گی۔ اے آدم کے بیٹے ! تو اپنے عمل کے بدلے میں گروی ہے اور تو موت تک پہنچنے والا ہے اور رب تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والا ہے جو کچھ تیری ہمت میں ہے اس کو آکرت کے لئے ذخیرہ کرلے اس کا تجھے موت کے وقت علم ہو گا ۔ اے آدم کے بیٹے ! اپنے دل کو دنیا میں مت لگا اگر ایسا کرے گا تو ایک چمٹ جانے والے شر سے دل لگائے گا۔ دنیا میں جہا ں تک پہنچ چکا ہے رک جا۔مزید آگے نہ بڑھ۔ (بحرالدموع : ۱۲۰) تیرا اعمال نامہ لکھا جا رہا ہے ذرا دھیان کر: امام حسن بصری فرماتے ہیں :’’اے آدم کے بیٹے ! تیرا اعمال نامہ اتر چکا ہے اور دو بڑی شان والے فرشتے تیرے نگران ہیں ایک تیری دائیں طرف ہے اور دوسرا بائیں طرف۔ جو تیری دائیں طرف ہے وہ تیری نیکیاں لکھ رہا ہے اور جو تیرے بائیں طرف ہے وہ تیری برائیاں لکھ رہا ہے جو چاہے عمل کر لے تھوڑے وعمل کر یا زیادہ عمل کر ، جب تو اس دنیا کو الوداع کہے گا تو تیرا یہ اعمال نامہ لپیٹ دیا جائے گا اور اس کو تیری گردن میں لٹکا دیا جائے گا جب قیامت کا دن آئے گا تو اس کو نکالا جائے گا اور تجھے حکم ہو گا ۔’’اپنی کتاب کو پڑھ‘‘ ( الاسرا ء: ۱۴) اپنا اعمال نامہ پڑھ لے آج تو خود اپنے محاسبے کے لئے کافی ہے۔ اے برادر ! اللہ کی قسم ! جس ذات نے تجھے تیرے نفس کا محاسب بنا یا ہے پورا انصاف کیا ہے ۔ اے آدم کے بیٹے ! سمجھ لے تو نے اکیلے مرنا ہے ،تو نے قبر میں اکیلے جانا ہے تو اکیلے کھڑا ہو گا اور اکیلے حساب دے گا۔ اے آدم کے بیٹے ! اگر ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداربن جائے اور صرف تو اکیلا اس کا نر فرمان ہو تب بھی ان کی فرمانبردای تیرے کسی کام نہ آئے گی۔‘‘ (حلےۃ الاولیاء: ۸ ؍ ۱۰ بحر الد موع : ۱۳۶) اللہ تعالیٰ کی محبت کو تلاش کر : میری نصیحوں کو قبول کر اور اس کے دروازہ کے بند ہونے سے پہلے سبقت اور پہل کر یہ تجھے ہر قسم کے طعام وغیرہ سے اور ہر خوشبو دار خوشگوار سے بے فکر کر دے گی۔ اسی سے حضرت آدم نے پیا تھا ۔ حضرت ذکریا کو آرہ سے چیرا گیا تھا۔حضرت ابراہیم خیل اللہ کو آگ میں ڈال دیا گیا تھا جس میں گرنے سے وہ گھبراتے نہ تھے۔ حضرت موسیٰ کا شوق آگے بڑھا اور انھوں نے درخواست کر دی مجھے اپنی زیارت کرادے تا کہ میں بھی ناظر کی زیارت سے مشرف ہوجاؤں ۔ حضرت داؤد نے شوق اور زبور کو خوشی الحانی سے پڑھ پڑھ کر مزے لئے حضرت عیسیٰ جنگلات میں جاتے رہے اور انھوں نے کسی بستی میں ٹھکانہ نہ بنا یانہ کسی شہر میں ۔اس کو ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہفتہ کے دن حاصل کیا تھا اور ان میں زیارت کا بقیہ رہ گیا تھا جس پر بہت سی تفریفات اور فخر بیان کرنے و اجب ہوئے۔ ساری کائنات تیرے سامنے ہے اس کا طیب و طاہر شارب (یعنی اللہ کی جنت)کا انتخاب کر اس کا ایک قطرہ نہر کوثر (کا حکم رکھات)ہے یہ تیز گرمی کی پیاس بجھائے گا اس کی نوبت حضرت صدیق اکبرؓ حضرت فاروق اعظمؓ ،حضرت سعیدؓ اور دیگر عشرہ مبشرہ رضی اللہتعالیٰ عنہم تک پہنچ چکی ہے ۔یہ شروع میں بھی اس کے پینے کے لئے جمع ہوئے ۔اور آخر زمانہ نبوت میں بھی ۔انھیں اکبرین امت کے نقش قدم پرچلتے ہوئے بزرگان دین نے بھی روحانی فکر اپنائی ،تو بھی اہل صفہ (مسجد نبوی میں سکونت پذیر شاگردان رسول ﷺ کی صفت اختیار کر تجھے بھی روحانیت سے کچھ نصیب مل جائے گا ۔ اس کی طلب میں تو بھی سارے بہانے چھوڑ دے ۔تجھے کیا فرق پڑے گا اگر تو ملامت کا راستہ چھوڑدے گا ،اگر ایسا نہ کیا تو تیرا کوئی عذر قابل قبول نہ ہو گا ۔سُر سے گنگنا ،خوشی سے جھوم یہ مخلوق تیری دوست بن جائے گی اور محبوب (اللہ تعالیٰ ) حاصل ہو گا ۔مقام سیر کو غیر سے پردہ میں رکھ اور اپنے دل کی حفاظت کر ۔اگر تو نے غیر اللہ کی طرف نظر کی تو وہ تجھے اپنے سے دور کر دے گا پھر تیرا کیا بنے گا جب تیرا مالک تجھ سے دور ہوجائے گا۔ اے جماعت فقراء! یہ تمہاری سننے کی بات ہے جو میری بات سن رہا ہے وہ میرے پاس ہے کہ نہیں ۔اے ارباب احوال ! میں تم سے مخاطب ہوں ۔یہ خوبیاں میں تمہارے لئے بیان کر رہا ہوں اور تمہارے قافلے کے ساتھ چل رہا ہوں ۔ اے توبہ کرنے والی جماعت ! کیا اس قابل فخر جوہر حاصل کرنے کے لئے معصیت کا چھوڑنا تمہارے لئے آسان نہیں ہوا اگر تو اس خطاب سے محروم ہو گیا اور خوشی میں نہ جھوم پھر تو محرومی کے بیابان میں سر گرداں رہے گا۔‘‘ ( بحرالدموع : ۱۴۲۔ ۱۴۳) خواہشِ نفس اور شیطان کی پیروی مصیبتوں کا گھر ہے : حضرت عطاء ابن سلمیٰ ؒ نے حضرت عمر بن عبد ایزید سلمیٰ ؒ سے کہا آپ مجھے کوئی نصیحت فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا: ’’ اے احمد! دنیا کی خواہش نفس اور شیطان کے ساتھ کی وجہ سے مصیبت پر مصیبت ہے اور آخرت موافقت اور حساب و کاتب کے ساتھ مصیبت پر مصیبت ہے ۔جو ان دونوں مصیبتوں میں پھنس گیا وہ بڑے صدقہ اور مشکل میں ہے اس لئے تو کب تک بھولا بھٹکا کھیل کود میں رہے گا اور زندگی بر باد کرے گا ۔ملک الموت تاک میں ہے تجھ سے غافل نہیں اور فرشتے تیرا ایک ایک سانس گن رہے ہیں ۔‘‘(بحرالد موع : ۱۴۹) زبان کا کنٹرول ہزاروں پریشانیوں سے نجات : ایک دانشور کہتا ہے : ’’ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھ اس سے پہلے کہ تیری مصیبتیں طویل ہوجائیں اور شخصیت مجروح ہو ۔زبان کو قابو کرنے کے سوا اور کوئی شئے ایسی نہیں جس کی حفاظت کی جائے ۔ زبان درستی سے دور رہتی اور جواب دینے میں جلد باز ہے ۔ ایک عقلمند کہتا ہے :’’ فضول گفتگو کو چھوڑنا حکمت سے گفتگو کرنے کو جنم دیتا ہے ۔فطری طور پر نظر ترک کرنا خشوع اور خشیت خداوندی پیدا کرتا ہے فضول طعام کو چھوڑنا عبادت کی مٹھاس ظاہر کرتا ،ہنسناترک کرنا ہیبت خداوندی لاتا ہے ،لوگوں کے عیبوں کی جستجو چھوڑنا اپنے عیبوں کی اصلاح کرتا ہے اور اللہ تعالی کے حق میں وہم پرستی کو چھوڑنا شک ،شرک اور منافقت کو مٹاتاہے ۔‘‘ (بحرالد مو ع : ۲۱۱) غیبت اور چغل خوری سے بچو : امام ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں : ’’اے بھائی ! خود کو غیبت اور چغل خوری سے محفوظ رکھ یہ دونوں تیرے دین کا نقصان کررہی ہیں نیک لوگوں کے عمل کو مٹا رہی ہیں اور مسلمانوں کے درمیان عداوت ڈال رہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان دونوں سے محفوظ فرمائے۔‘‘ (بحرالدموع: ۲۲۷) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عید میلاد شیخ الاسلام ابن عثیمین کے نزدیک ! سعودی عرب کے بہت بڑے مفتی ابن عثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں :یوں عید میلاد بھی تقرب الہی کے حصول اور رسو ل اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عبادت ہے اور جب یہ عبادت ہے توکسی کو ہرگز ایسی عبادت کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اللہ کے دین کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جس کا دین سے تعلق نہ ہو یعنی اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم نہ دیا ہو جیسا کہ عید میلاد کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور جب اس کا دین میں کوئی تصور نہیں تو معلوم ہوا کہ یہ بدعت اور حرام ہے پھر ہم یہ بھی سنتے رہے ہیں کہ عید میلاد کی محفلوں میں ایسی بڑے بڑے حرام کام کا ارتکاب کیا جاتا ہے جنھیں شرعی یا حسی یا عقلی طور پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ان محفلوں میں گاگا کر ایسی نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن میں نبی ﷺ کے بارے میں غلو سے کام لیا گیا ہوتا ہے حتی کہ :۔۔۔نعوذ باللہ ۔۔۔۔آپ کو اللہ تعالی ذات پاک سے بھی بڑا ثابت کیا جاتا ہے عید میلاد منانے والوں کی اس بے وقوفی کے بارے میں ہم سنتے رہتے ہیں کہ ان محفلوں میں ولادت کا قصہ بیان کرنے والے جب یہ کہتے ہیں کہ پھر مصطفی ﷺ کی ولادت ہو گئی تو اس لمحے سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس محفل میں رسول اللہ ﷺ کی روح بھی تشریف لے آتی ہے اور اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ بے وقوفی کی بات ہے اور پھر یہ ادب نہیں ہے کہ اس لمحے سب لوگ کھڑے ہوں آپ تو اپنے لئے لوگوں کے کھڑے ہونے کو سخت ناپسند فرمایا کرتے تھے یہی وجہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جنھیں تمام لوگوں کی نسبت رسول اللہ ﷺ سے شدید محبت تھی اور وہ ہم سے کہیں بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کی تعظیم بجا لانے والے تھے ان کا رسول اللہ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا معمول نہ تھا کیونکہ انھیںیہ معلوم تھا کہ آپ اسے ناپسند فرماتے ہیں اگر آپ اپنی حیات طیبہ میں اسے ناپسند فرماتے تھے توآپ کی وفات کے بعد محفلوں میں کھڑا ہونا کس طرح پسندیدہ ہو سکتا ہے عید میلاد منانے کی اس بدعت کا رواج پہلی تین افضل صدیوں کے بعد شروع ہوا ہے اور ان محفلوں میں اس طرح کے منکر امور کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس سے دین میں خلل پیدا ہوتا ہے ۔۔۔‘‘(فتاوی ارکان اسلام ص:۱۶۴)شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے سچ فرمایا بلکہ اب تو کروڑوں روپے خرچ کرکے گلیوں بازاروں میں روشن کیا جاتا ہے اور ہر طرف جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں بلکہ جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں بعض لوگ دھول بجاتے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں عید میلاد کی نماز بھی پڑھی جاتی ہے ۔۔۔افسوس ہے ان لوگوں پر جو صحابہ اور تابعین ائمہ دین ،محدثین کرام ،علماء کرام ان میں احناف بھی شامل ہیں انھیں ابلیس کہتے ہیں فانا للہ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتہارت:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فتاوی حصاریہ از محقق العصر مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ (کاوش و پیش کش شیخ الحدیث محمدیوسف راجووالوی حفظہ اللہ،جمع و ترتیب: مولانا ابراھیم خلیل حفظہ اللہ ) آٹھ ضخیم جلدوں میں شایع ہو چکی ہے جو فرق باطلہ کے خلاف اور قرآن وحدیث کے پرچار میں انتہائی قیمتی کتاب ہے یہ کتاب ہر لائبریری میں بہت ضروری ہے ۔رابطہ ناشر:مولانا عبداللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث لاہور ۰۳۰۱۴۲۲۷۳۷۹ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقالات اثریہ از شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ ،تقدیم محدث العصر شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ ۔یہ کتاب اصول حدیث کی نادر اور علمی بحوث پر مشتمل ہے اس میں حسن لغیرہ کی حجیت پر تقریبا دو سو صفحات پر بحث کی گئی ہے ،مسئلہ تدلیس پر بھی اتنی ہی بحث ہے ،ثقہ کی زیادتی پر بھی ایک انتہائی مفصل مقالہ ہے ،کچھ فقہی مباحث بھی ہیں اور کچھ احادیث کی تحقیق بھی شامل اشاعت ہے ،علماء اور طلباء کے لئے قیمتی ذخیرہ ہے ،یہ کتاب لاہور ،فیصل آباد ،اسلام آباداور کراچی وغیرہ کے تمام سلفی مکتبوں سے مل سکتی ہے رابطہ ناشر:ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد:۰۴۱۲۶۴۲۷۲۴

روزوں کے احکام

تالیف :ابن بشیر الحسینوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روزہ اور اس کے متعلق احکام و مسائل رمضان کے روزے فرض ہیں( البقرہ:184،185،بخاری:8مسلم::1080)فرضی روزہ کی نیت رات کو فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے ۔(سنن النسائی:2338،وسندہ صحیح)امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ '' اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرضی روزے مراد لیے ہیں نفلی نہیں۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح1935)) فرضی روزہ کی روزانہ رات کو نیت کرنی چاہیے ۔ اوپر والی حدیث اس پر صادق آتی ہے ۔امام ابن خزیمہ نے (انما الاعمال بالنیات) پر باب باندھا ہے کہ:''روزہ کی اس دن فجر طلوع ہونے سے پہلے روزانہ نیت کرنا واجب ہے ،برخلاف اس آدمی کے جس نے کہا ہے کہ ایک دفعہ کی نیت تمام مہینے کے لیے کافی ہے۔''(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح1934)) اور امام ابن المنذر النیشابوری فرماتے ہیں :''اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے۔''(کتاب الاجماع:رقم123)) وصال(بغیر افطار ی اور سحری کے روزہ رکھ لینا)منع ہے(بخاری:1962،م:1102)روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنی چاہئے۔(بخاری:1957،مسلم :1098)سحری دیر سے کھانی مستحب ہے۔(مصنف عبدالرزاق:7591،صححہ ابن حجر:فتح الباری:4/713)سینگھی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔(بخاری:1938)دوران روزہ سرمہ لگانا جائز ہے۔(ق:1678،صححہ البانی) دوران روزہ جھوٹ سے پرہیزلازم ہے۔(بخاری:1903)لغو اور بے ہودہ باتوں سے پرہیز لازم ہے۔(صحیح ابن خزیمہ:1996)حالت جنابت میں روزہ رکھنا جائز ہے۔(بخاری:1926،مسلم :1109)گرمی کی وجہ سے دوران روزہ غسل کرنا مسنون ہے ۔(سنن ابی داود::2365،صححہ البانی)مبالغہ سے ناک میں پانی نہ چڑھائے(سنن الترمزی::788،صححہ البانی)روزہ افطار کرنے کی دعا:ذھب الظماوابتلت العروق وثبت الاجر ان شاء اللہ(سنن ابی داود::2357،حسنہ البانی) روزہ کس چیز سے افطار کرنا چاہئے:تازہ کھجور،یا چھوہارے یا پانی سے کرنا چاہیے(د:2356،صححہ البانی)افطار کروانے والے کو روزہ روزہ دار کے مثل اجر ملے گا۔(ت:807،صححہ البانی)مریض یا مسافر پر روزہ ضروری نہیں پھر قضاء لازم ہے (البقرہ:184،)اسی طرح حائضہ (اور نفاس )والی عورت بعد میں قضائی دے گی (بخاری:321،م:335)دوران سفر روزہ رکھنا بھی جائز ہے۔(بخاری:1943،م:1121)جس آدمی کے ذمے روزے تھے وہ فوت ہو جائے تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے ۔(بخاری:1952،م:1147) روزہ باطل کرنے والے امور جان بوجھ کر کھانا ،پینا(بخاری:1894)لیکن بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا(بخاری:1933،م:1155)جماع کرنا(بخاری:1936،مسلم:111)اس کا کفارہ یہ ہے کہ:ایک گردن آزاد کرنا اس کی طاقت نہیں تو دو ماہ کے پے در پے روزے رکھنا اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا۔(بخاری:1936،مسلم:1111)جان بوجھ کر قے کرنے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے(سنن ابی داود::2380،صححہ البانی)حیض (اور نفاس )کے شروع ہونے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔(بخار) .............................. رات اور روزہ اس میں درج ذیل بحثیں ہیں: 1: چاند کو دیکھ کر رمضان کے روزے شروع کرنا سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( صوموا لرویتہ ..)) چاند دیکھ کر روزہ رکھو ۔ ( صحیح البخاری :1909، صحیح مسلم : 1081) سیدنا عبداللہ بن عمر iسے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ((لا تصوموا حتی تروا الھلال ...)) اس وقت تک تم روزہ نہ رکھو جب تک چاند نہ دیکھ لو۔ (صحیح البخاری : 1906، صحیح مسلم : 1080) 2: شک والے دن روزہ نہیں رکھنا چاہئے سیدنا عمار نے فرمایا: '' من صام یوم الشک فقد عصی أبا القاسم '' جس نے شک والے دن ( چاند کے طلوع میں شک کے باوجود ) روزہ رکھا تو یقیناًاس نے ابو القاسم ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی نافرمانی کی۔ ( صحیح البخاری قبل ح 1906 ) 3: رؤیتِ ہلال کے ثبوت کے لئے دو (عادل) مسلمانوں کی گواہی ضروری ہے ( سنن ابی داود:2339 وھو صحیح )رؤیتِ ہلال میں اگر ایک (عادل) مسلمان کی گواہی مل جائے تو وہ بھی قبول کی جائے گی ۔ (ابو داود : 2342،وسندہ صحیح ، صحیح ابن حبان : 871 ) 4: چاند دیکھ کر ہی روزے ختم کرنا سیدنا ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صوموا لرؤیتہ وأفطروا لرؤیتہ فإن غم علیکم فاکملوا شعبان ثلاثین)) چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو۔اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لے۔(صحیح البخاری : 1909، صحیح مسلم : 1081) 5: رؤیت ہلال کی دعا صحیح روایت میں صرف یہ آیا ہے کہ نبی ﷺنے پہلی رات کے بعد والا چاند دیکھا تو فرمایا : اے عائشہ! اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔ الخ ( سنن الترمذی : 3366 وسندہ حسن وقال الترمذی : '' حسن صحیح '' و صححہ الحاکم 2/ 540 ، 541 ووافقہ الذہبی ) 6: اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا۔ (صحیح ابن خزیمہ 3/205ح 1916، ورواہ مسلم : 1087) تنبیہ : اگر پہلی رات کا چاند تھوڑا سا بڑا نظر آئے تو اسے سابقہ دن کا خیال کرنا غلط ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ 3/206ح 1919) فائدہ : بیوہ یا مطلقہ کی عدت ،مدت حمل، رضاعت ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کا اعتبار چاند سے ہی لگایا جاتا ہے۔ 7 : جس شخص نے قربانی کرنی ہے و وہ ذوالحجہ کے چاند طلوع ہونے سے لے کر قربانی کرنے تک نہ بال کاٹے اور نہ ناخن تراشے۔ سیدہ ام سلمہk سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ((إذا رأیتم ھلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحی فلیمسک عن شعرہ وأظفارہ)) جب ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تمھارا قربانی کرنے کا ارادہ ہو تو اپنے بالوں اور ناخنوں (کوکاٹنے اور تراشنے ) سے بچو۔ (صحیح مسلم : 1977) 8: فرضی روزہ کی نیت رات کو کرنا ضروری ہے ام المومنین سیدہ حفصہ نے فرمایا: '' لا صیام لمن لم یجمع قبل الفجر '' جو شخص فجر سے پہلے نیت نہ کرے ،اس کا روزہ نہیں ہے۔ ( سنن النسائی 4/197ح 2338 وسندہ صحیح ) نفلی روزوں کی دن کو بھی نیت کر سکتے ہیں ۔ تفصیل کے لئے دیکھیں صحیح البخاری ( 1924 ) 9: فرضی روزہ کی روزانہ رات کو نیت کرنی چاہئے اوپر والی حدیث بھی اس پر صادق آتی ہے اور امام ابن المنذر النیشاپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ '' اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہررات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا، اس کا روزہ مکمل ہے۔'' ( کتاب الاجماع ص 38 مترجم ) نیز دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ( 3/212) تنبیہ: ''وبصوم غد نویت من شھر رمضان '' کے مروجہ الفاظ سے روزہ کی نیت کرنا حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔ فائدہ : نیت دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا ۔مزید تحقیق کے لئے دیکھئے ہمارا رسالہ ''نیت کے احکام'' 10: رات کو سحری کھانا سیدنا عمرو بن العاص ﷺسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( فصل ما بین صیامنا وصیام أھل الکتاب أکلۃ السحر)) ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں کے درمیان حدِفاصل سحری کھانا ہے۔( صحیح مسلم : 1096) سیدنا انس بن مالک ﷺسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (( تسحروا فإن فی السحور برکۃ )) سحری کاکھانا کھاؤ، بے شک سحری کے کھانے میں برکت ہے۔ ( صحیح البخاری : 1923 ، صحیح مسلم : 1095) مومن کی بہترین سحری کھجور کا کھانا ہے۔ ( سنن ابی داود : 2345وسندہ صحیح ، صحیح ابن حبان :883) سحری تاخیر سے کھانی چاہئے اذانِ فجر اور سحری کھانے کا درمیانی وقت تقریباً پچاس آیات (پڑھنے کے برابر ) کا ہونا چاہئے ۔ (صحیح البخاری : 1921 ، صحیح مسلم : 1097) 11: رات کے شروع ہوتے ہی ( یعنی غروبِ آفتاب کے فوراً بعد) روزہ افطار کر نا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج) پھر رات تک( اپنے )روزے پورے کرو۔ (البقرہ : 187) افطاری کرنے میں جلدی کرنی چاہئے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگ ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ افطاری میں جلدی کریں گے۔ (صحیح البخاری : 1957 ، صحیح مسلم 1093) 12: روزوں کی راتوں میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ( اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْط) روزوں کی راتوں میں تمھارے لئے اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ ( البقرہ : :۷۸۱) 13: رات کو روزہ نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ '' پھر رات تک اپنے روزے پورے کرو۔'' (البقرہ : 187) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دلیل کی روشنی میں فرمایا کہ '' یہ اس شخص کی دلیل ہے جس نے کہا کہ رات کو روزہ نہیں ہے۔'' (صحیح بخاری قبل ح 1961) 14: لیلۃ القدر کے احکام لیلۃ القدر کے احکام درج ذیل ہیں : 1۔ یہ برکت والی رات ہے ۔ ( الدخان : ۳) اس میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ( الدخان :۴) یہ رات ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ( القدر :۳) اس رات روح اور فرشتے اپنے پروردگار کے اذن سے ہر حکم لے کر نازل ہوتے ہیں ۔ (القدر:۴) یہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک ۔ ( القدر :۵) اس رات قرآن مجید نازل ہوا ۔ ( القدر:۱) 2۔لیلۃ القدر کو تلاش کرنا: سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا (( تحروا لیلۃ القدر فی الوتر من عشر الآواخر من رمضان )رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔ ( صحیح البخاری : 2017، صحیح مسلم :۹۶۱۱) 3۔لیلۃ القدر کے قیام کا ثواب: سیدنا ابو ہریرہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس شخص نے لیلۃ القدر کا قیام، ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا ، اس کے سابقہ گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ ( صحیح البخاری : 1901، صحیح مسلم :۹۵۷) 4۔لیلۃ القدر کی دعا: سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا : یا رسول اللہ ! اگر مجھے لیلۃ القدر کا علم ہو جائے تو میں کیا کہوں ؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا:کہو : '' اللھم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی '' اے اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے معاف کر دے۔ ( سنن الترمذی : 3513 وقال:'' حسن صحیح'' وھو صحیح ) 5۔ لیلۃ القدر کی علامات: اس کی صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے تو وہ بلند ہونے تک ایک تھال کی طرح ہوتا ہے ۔ اس کی شعاع نہیں ہوتی۔ (صحیح مسلم : 762) 6۔ لیلۃ القدر کی نماز عشاء باجماعت پڑھنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے لیلۃ القدر کی فضیلت کو پا لیا ہے۔ (صحیح ابن خزیمہ 3/333ح 2195وسندہ حسن ، عقبۃ بن ابی الحسناء وثقہ ابن خزیمہ و ابن حبان) 15: رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں سخت محنت کرنا سیدہ عائشہ سے روایت ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دس دن آتے تو رسول اللہ ﷺ کمربستہ ہو جاتے، رات کو جاگتے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بیدار کرتے۔ (صحیح البخاری : 2024، صحیح مسلم : 1173) 16: ایک رات کا اعتکاف بھی صحیح ہے ۔ (صحیح البخاری : 2032 ، صحیح مسلم : 1656) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روزوں کے متعلق غیر ثابت روایات اور مسائل کا تذکرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (۱)رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا دوسرا بخش کا اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا :''یہ حدیث منکر ہے ۔''(العلل لابن ابی حاتم :۱؍۹۴۲) امام عقیلی رحمہ اللہ نے کہا :''اس کی کو ئی اصل نہیں ہے ۔''(الکامل :۳؍۷۵۱۱) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:اس حدیث کا دارو مدار علی بن زید پر ہے اور وہ ضعیف ہے (اتحاف المہرۃ :۵؍۱۶۵) شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :''منکر'' (الضعیفہ :۱۷۸) شیخ ابو اسحا ق الحوینی مصری حفظہ اللہ نے کہا :''یہ حدیث باطل ہے۔''(النافلۃ فی الاحادیث الضعیفہ والباطلۃ۔۱؍۱۹۲) (۲)روزے کی نیت ان الفاظ سے کرنا ۔ (وبصوم غد نویت من شہر رمضان) یہ الفاظ قرآن و حدیث میں کہیں ثابت نہیں ہیں بلکہ کسی جھوٹے انسان کے گھڑے ہوئے ہیں اور جس نے یہ الفاظ بنائے ہیں اس کو عربی زبان بھی نہیں آتی تھی کیو نکہ لفظ ''غد ''کے معنی ہیں ''کل''اور نیت کرنے والا آج کے روزے کی نیت کرتا ہے ،دین قرآن وحدیث کا نام ہے لوگوں کی باتیں ہرگز دین نہیں ہوسکتیں ۔نیت دل سے ہوتی ہے نہ کہ زبان سے۔ (۳)دعاء وتر میں (نستغفرک ونتوب الیک )پڑھناکسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ۔ (۴)رکوع کے بعد دعاء وتر پڑھنے والے ایک ضعیف روایت سے استدلال کرتے ہیں وہ (السنن الکبری :۳؍۸۳،۹۳،مستدرک الحاکم:۳؍۲۷۱)میں ہے لیکن اس کی سند میں فضل بن محمد بن المسیب الشعرانی راوی ضعیف ہے ،اس کے متعلق: حسین بن محمد القتبانی رحمہ اللہ نے کہا :''کذاب ''(لسان المیزان:۴؍۸۴۴) امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے کہا۔''تکلموا فیہ ''محدثین نے اس کے متعلق کلام کیا ہے۔(الجرح و التعدیل:۷؍۲۹) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث فوائد ابی بکرالاصبھانی تخریج الحاکم میں دیکھی ہے وہاں دعاء وتر رکوع سے پہلے پڑھنے کا ذکر ہے ۔(تلخیص الحبیر :۱؍۵۰۶) اور التوحید لابن مندہ (۲؍۱۹۱) میں فضل بن محمد بن مسیب کا قول ثابت ہے کہ میں دعاء وتر رکوع سے پہلے قراء ت سے فارغ ہو کر کہتا ہوں۔ فائدہ: سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر میں رکوع سے پہلے دعاء وتر پڑھتے تھے ۔(سنن النسائی :۰۰۷۱،سنن ابن ماجہ :۲۸۱۱)محدثین (ضیاء مقدسی:المختارہ : ۱؍۰۰۴،امام ابن السکن ۔الدرایۃ: اورشیخ البانی) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔(ارواء الغلیل :/۷۶۱) ابن مسعود رضی اللہ عنہ رکوع سے پہلے دعاء وتر پڑھتے تھے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی:۹؍۴۸۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا :یہ قول صحیح ہے۔ (الدرایۃ:۱؍۳۹۱) شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا:سندہ صحیح ''(ارواء الغلیل :۲؍۶۶۱) علقمہ نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام دعاء وتر رکوع سے پہلے کرتے تھے ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ :۲؍۲۰۳) شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا :یہ سند اچھی ہے اور یہ مسلم کی شرط پر صحیح ہے (ارواء الغلیل:۲؍۶۶۱) اسی طرح کئی ایک صحابہ و تابعین وغیرہ سے بھی دعاء وتر رکوع سے پہلے ثابت ہے دیکھئے (مصنف ابن ابی شیبہ :۲؍۲۰۳،ارواء الغلیل:۲؍۶۶۱۔۸۶۱ ) (۵)نماز تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد مخصوص دعاء پڑھنا ثابت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانو ں کے غلام ،آزاد،مرد عورت ،بچے اور بوڑھے سب پر صدقہ فطر فرض کیا ہے ایک صاع (تقریبا اڑھائی کلو )کھجوروں سے اور ایک صاع جو سے( اور صاع گندم سے )اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ یہ فطرانہ نماز عید کے لئے جانے سے پہلے ادا کر دیا جائے ۔''(بخاری:۳۰۵۱،مسلم:۴۸۹) عید سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر ادا کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ثابت ہے ۔(بخاری:۱۱۵۱) صدقہ فطر میں جنس( گندم وغیرہ) دینی چاہئے یہ احادیث سے ثابت ہے عبداللہ بن احمد نے کہا کہ میں نے اپنے باپ امام احمد بن حنبل سے سنا ،آپ صدقہ فطر کی قیمت نکالنا مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے مجھے یہ ڈر ہے کہ اگر کوئی شخص قیمت دے گا تو اس کا صدقہ فطر ہی جائز نہیں ہو گا ''َ(مسائل عبداللہ بن احمد بن حنبل :۹۰۸) امام احمد سے کہا گیا کہ:''لوگ کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ صدقہ فطر میں قیمت قبول کر لیتے تھے ''تو انھوں نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان چھوڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں !فلاں یہ کہتا ہے !''(السنن والمبتدعات ص۶۰۲) امام ابن تیمیہ نے کہا:''صدقہ فطر روز مرہ کی خوراک سے ادا کرنا چاہئے ''۔(مجموع الفتاوی:۵۲؍۵۳۔۶۳) بعض اہل علم نقدی سے بھی صدقہ فطر ادا کرنے کی اجازت دیتے ہیں واللہ اعلم بالصواب ۔ فائدہ : عورت نکاح سے پہلے اپنا صدقہ فطر خود ادا کرے گی۔امام ابن المنذر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ( کتاب الاجماع : ۰۱۱) فائدہ : امام ابن المنذر فرماتے ہیں: '' اجماع ہے کہ جنین ( بطن مادر میں موجود بچے ) پر صدقہ فطر نہیں ۔ '' ( کتاب الاجماع : ۱۱۱)