گزشتہ شمارے میں ہم نے سوالات کے جواب میں اس پر مختصرا عرض کیا تھا کہ اذان کی آواز سن کر ننگے سر ڈھانپنا ضروری سمجھنا درست نہیں ۔اس مسئلہ پر محترم نوید جج صاحب نے ناچیز سے محترم المقام سردار محمد شریف سوہڈل حفظہ اللہ کی معیت میں کچھ بحث کی اور پھر ہم نے کئی ایک علماء کرام سے بھی اس مسئلہ پر بحث کی تو اس کا خلاصہ یہ نکلا :
اذان کے وقت سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے ۔
دور نبوی ﷺ میں صحابیات میں سے کسی سے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور کوئی شرعی دلیل بھی موجود نہیں جس سے ضروری سمجھا جائے ۔
انسانوں کو بہت سی حالتوں میں اذان سننا پڑتی ہے مثلا پیشاب کرتے وقت ،غسل کرتے وقت ،میاں بیوی کے صحبت کی حالت میں ،کام کرتے ہوئے،پیدل چلتے ہوئے ،گاڑی چلاتے ہوئے ،کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے ،نماز ادا کرتے ہوئے ،سوتے ہوئے ،کسی سے بات کرتے ہوئے ۔سر پر بوجھ اٹھاتے ہوئے وغیرہ ۔تو اذان ہونے کی حالت میں ان تمام کاموں کو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اگر کوئی حرج ہوتا تو شریعت میں اس سے منع کر دیا جاتا ۔
آداب اور احترام مسنون ثابت ہیں ۔اپنی طرف سے کسی چیز کو آداب میں شمار کرنا پریشانی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔اذان کے مفصل احکام شریعت نے بیان کیے ہیں ۔انھیں تسلیم کرنا اور ان کے مطابق عمل کرنا کافی ہے ۔یہ ایک مصنوعی ادب ہے ۔اس کی اللہ کے ہاں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔اگر حیثیت ہوتی تو حکم ہوتا کہ اذان سن کر اپنے سر ڈھانپ لیا کرو۔ایسا نہیں ہے ۔شریعت کے مسائل میں بہت نزاکت اور احتیاط ہے ۔اذان کا ادب کون متعین کرے گا شریعت یا ہم؟صرف اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی ادب متعین کریں گے ۔
بس اسے خواتین کے اپنے آداب و مروت کی حد تک رہنے دیا جائے اس کو اسلام کی طرف منسوب کرنا درست نہیں اگر کوئی عورت اس طرح کرتی ہے تو ہم اس پر پابندی عائد نہ کریں کہ اس طرح نہ کیا کر ۔اور اسے شرعی فرض اور تعبدی بہر حال نہیں کہا جاسکتا ۔
لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے آداب کی لمبی فہرست ہے اور پھر مختلف قبائل میں مختلف آداب دیکھنے کو ملتے ہیں ۔قرآن و حدیث مکمل دین ہے اسی کی پیروی میں کامیابی ہے ۔ورنہ مصنوعی آداب ہی نظر آئیں گے اللہ اوراس کے رسول ﷺ کے مقرر کردہ آداب کافی نہ سمجھے جائیں گے جو کہ درست نہیں ۔