Saturday, 11 March 2017

مرکز تحقیقات التراث الاسلامی قصور پاکستان: تاریخ اہل حدیث (جنوبی پنجاب)ایک عظیم کارنامہ کی تف...

مرکز تحقیقات التراث الاسلامی قصور پاکستان: تاریخ اہل حدیث (جنوبی پنجاب)ایک عظیم کارنامہ کی تف...:                         السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔۔خاک سار تاریخ اھل حدیث جنوبی پنجاب پے جو کام کر رھا ھے۔اس کی کچھ تفصیل اللہ کے...

تاریخ اہل حدیث (جنوبی پنجاب)ایک عظیم کارنامہ کی تفصیل

                        السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔۔خاک سار تاریخ اھل حدیث جنوبی پنجاب پے جو کام کر رھا ھے۔اس کی کچھ تفصیل اللہ کے فضل سےآپ کے سامنےرکھتا ھوں۔یہ پورا خطہ کئی صدیاں پیشتر سندھ کا حصہ تھا۔۔اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم تابعین اور تبع تابعین اور محدثین رحمہم اللہ تعالی کی آمد کےاجلے نقوش بھی اس پورے وسیع وعریض علاقے کے چپے چپے پر پھیلے ھوئے ھیں۔۔712ءمیں محمد بن قاسم رحمہ اللہ ملتان آئے تو ان کے ساتھ مکہ وحجاز مقدس اور عراق وشام سے تعلق رکھنے والے نامور اصحاب الحدیث اورشیوخ اھل حدیث بھی تشریف لائے اوران میں سے متعدد دعوتی مشن کی غرض سے انھی علاقوں میں ھی اقامت گزیں ھو گئے۔اس کے ”حوالے“  باقاعدہ تاریخ کی بڑی کتابوں میں موجود ھیں۔۔جنوبی پنجاب اپنے دامن میں  بڑے مشہور اضلاع رکھتا ھے۔۔ جن میں سابق ریاست بہاول پور،سابق ریاست ملتان،بہاول نگر،رحیم یار خان،وھاڑی،مظفر گڑھ، لیہ،ڈیرہ غازی خان،راجن پور،ڈیرہ اسماعیل خان،جھنگ،خانیوال،شامل ھیں۔۔ان اضلاع کی ھر تحصیل میں بے شمار ایسے جید علماء وشیوخ ھو گزرے ھیں۔۔جنہوں نے دعوت اھل حدیث کے احیا کے لئے معرکةالاراء کارھائے نمایاں سرانجام دئیے۔۔انھوں نے قرآن مجید کی تفاسیر اور احادیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شروحات لکھیں۔۔تبلیغی میدان میں مثالی کام کیا۔تحریری میدان میں اگر ان حضرات کی فکر کا مطالعہ کیا جائے تو تاریخ اھل حدیث کے نادر نمونے سامنے آ سکتے ھیں۔۔جنوبی پنجاب میں کتاب وسنت کی دعوت کو عام کرنے اور مدارس کے قیام میں محدث ھند حضرت میاں سید نذیر حسین دھلوی رحمہ اللہ کےنامور تلامذہ کی   علمی،تحقیقی اور تدریسی خدمات کبھی گہنائی نہیں جا سکتیں۔۔چند نام دیکھئے:مولانا عبدالحق ملتانی۔مولانا عبد التواب ملتانی۔مولانا عبدالعزیزڈیروی۔مولاناعبدالواحد الہاشمی(احمد پورشرقیہ).مولانا تاج محمد(جام پوری).مولانا خواجہ عبد القادر دہلوی(رحیم یارخان).مولانا محمد احمد(بہاول پور).مولانا عبد العزیز ملتانی۔مولاناقادر بخش ریاستی۔مولانا عبد الرحیم امرتسری(احمد پور شرقیہ)رحمہم اللہ تعالی وغیرھم میاں صاحب مرحوم کے تلامذہ کے صرف چند نام ھیں۔۔لیکن افسوس سوائے چند ایک کے باقی کسی عظیم ھستی کا تذکرہ آج تک مرتب ھی نہیں کیا گیا۔۔میاں صاحب کے ان تلامذہ کے علاوہ جنوبی پنجاب کے تقریبا ایک ھزار سے زائد علمائے کرام وشیوخ کی علمی وتبلیغی خدمات پر کام کی اشد ضرورت تھی۔۔میں نے جب ان رجال حدیث کو ہدف بنا کر کام کرنا چاھا تو معلوم ھوا۔۔کہ علمائے عظام چوں کہ بہت زیادہ ھیں اس لئے ہر تحصیل پر الگ الگ کام کی ضرورت ھے ۔ تاریخ اھل حدیث جنوبی پنجاب کے متعلق مختلف موضوعات پر تفصیلی محنت کی صورت میں لگ بھگ ایک سو(100) کتابیں ان شاءاللہ معرض وجود میں آسکتی ھیں۔۔یہ بات میں محتاط اندازے کے طور پر عرض کر رھا ھوں۔۔ان میں سے بعض ایسے مرحومین اور موجودین  علمائے کرام ھیں جن کی خدمات الگ کتابی صورت میں مرتب کی جانی چاہئے۔اس کام کے لئے کافی سارے وسائل کی ضرورت ھے۔میں کم وبیش سولہ برس سے  تنہا کام کر رھا ھوں۔ جماعت کےبڑے لوگ اور بڑے ادارے اپنے اپنے انداز میں مصروف عمل ھیں لیکن اس پورے خطے کی تاریخ اھل حدیث کی ترتیب واشاعت بدقسمتی سے کسی کا بھی ایجنڈا نہیں ھے۔۔افسوس تو اس المیہ پر ھے کہ بعض الناس تو یہ کہتے ھیں:کہ تاریخ کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوئی ضرورت نہیں،بس جو قوم گزر گئی تو بس گزر گئی ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ھو گیا۔“بے شبہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ھے ۔۔لیکن  مستقبل میں دعوت اسلام کو درپیش چیلنجز کا جواب دینے کے لئے ان تذکار کا لکھنا بے حد ضروری ھے۔ کیوں کہ آج صحابہ کرام اور ان کے بعد کے محدثین کے احوال اور دینی خدمات لکھی گئی ھیں تو ھم لوگوں کو پڑھ کر سناتے ھیں اس سے ھمیں نشان منزل کا حصول ھوتا ھے۔الحمد للہ بطور تحدیث نعمت عرض کر رھا ھوں کہ اس پورے خطے میں تاریخ اھل حدیث کے متعلق جس قدر آثار پائے جاتے ھیں میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس کچھ خاص مواد ھے اور نہ اس قدر معلومات۔واللہ اعلم۔۔۔۔میری مجوزہ چند کتابوں کے نام یہ ھیں۔1۔جنوبی پنجاب میں اھل حدیث کی آمد۔2۔جنوبی پنجاب کے اھل حدیث خدام قرآن.3۔جنوبی پنجاب میں اھل حدیث کی صحافت۔4۔جنوبی پنجاب میں اھل حدیث کی سرگزشت۔5۔جنوبی پنجاب میں اھل حدیث کے مدارس۔6۔تحریک ختم نبوت میں علمائے اھل حدیث جنوبی پنجاب کی خدمات۔7۔جنوبی پنجاب میں حضرت میاں سید نذیر حسین دھلوی رحمہ اللہ۔8۔گلستان کتاب وسنت(ملتان کے علمائے حدیث کا تذکرہ)۔9۔چمنستان کتاب وسنت(ڈیرہ غازی خان کے علمائے حدیث کا تذکرہ)۔10۔دبستان کتاب وسنت(خانیوال کے علمائے حدیث کا تذکرہ)۔11۔بوستان کتاب وسنت(مظفرگڑھ کے علمائے حدیث کا تذکرہ)۔12۔تذکرہ شیخ الحدیث مولانا عبد الرزاق فاروقی رحمہ اللہ۔13۔حیات بہاول پوری رحمہ اللہ(پروفیسر حافظ عبد اللہ بہاول پوری رحمہ اللہ کی علمی خدمات)۔14چنگوانی علمائے حدیث۔15۔مشہدی خاندان۔16۔ڈاکٹر عبد الرشید اظہر شہید رحمہ اللہ۔17۔مولانا مفتی عبد الرحمان الرحمانی رحمہ اللہ۔18۔شیخ الحدیث مولانا محمد علی السعیدی رحمہ اللہ۔19۔مولانا عبد الرزاق سلفی عنایت پوری رحمہ اللہ کی علمی خدمات۔20۔مولانا محمد عبد اللہ السلفی رحمہ اللہ(کوٹ ادو والے)۔21۔شیخ الحدیث مولانا محمد رفیق الاثری جلال پوری حفظہ اللہ۔22۔بطل حریت مولانا قاری عبد الوکیل صدیقی خان پوری رحمہ اللہ۔23۔مشاھیر علمائے اھل حدیث احمد پور شرقیہ۔24۔داعی توحید وسنت مولانا عبد المتین جھنگوی رحمہ اللہ۔25۔تراجم علمائے اھل حدیث وھاڑی۔26۔تذکرہ علمائے اھل حدیث علی پور۔28۔کاروان عمل بالحدیث(میاں والی کے علماء حدیث کا تذکرہ)۔29۔قافلہ اھل حدیث(میاں چنوں کے علمائے حدیث کا تذکرہ)۔30۔اقلیم حدیث کے سخن ور(تذکرہ عمائے اھل حدیث چشتیاں)۔31۔کاروان اھل حدیث(تذکرہ علمائے اھل حدیث کوٹ ادو)۔32۔بھکر کے اھل حدیث علماء۔33۔بزم حدیث کے چراغ(تذکرہ علمائے اھل حدیث بہاول نگر)۔34۔تذکرہ علمائے اھل حدیث بہاول پور۔35۔کاروان اسلاف(تذکرہ علمائے اھل حدیث رحیم یار خان)۔36۔خان پور کے رجال حدیث۔37۔تاریخ اھل حدیث لیاقت پور۔38۔اقلیم فکرونظر(تذکرہ علمائے حدیث علی پور)۔39۔تاریخ اھل حدیث منڈی یزمان۔40۔تذکرہ علمائے اھل حدیث راجن پور۔41۔شیخ الاسلام علامہ ابو محمد عبد الحق الہاشمی رحمہ اللہ۔۔42۔جنوبی پنجاب میں اھل حدیث کی سیاست۔جنوبی پنجاب کی تاریخ اھل حدیث کے متعلق میری یہ زیر طبع چند کتابوں کے نام ھیں۔۔جن کی تکمیل کے لئے مجھے وسائل کی بہت ضرورت ھے۔۔میں کبھی کبھی سوچتا ھوں کہ کاش جماعت مجھے اپنی کفالت میں لے لیتی اور میں ان کتب کی تکمیل کے لئے دور دراز کے سفر کر کے ان کتابوں میں مذکور علمائے کرام کے مزید حالات وافکار اور  مخفی خدمات کے نقوش تلاش کرسکتا تاکہ جامع مانع قسم کے ارمغان مرتب ھو سکیں۔۔میں خود پچھلے تین سال سے بیمار چلا آ رھا ھوں۔شوگر بلڈ پریشر وغیرہ نے میری حالت  کافی خراب کر دی ھے۔کبھی یہ بھی خیال آتا ھے کہ دن بدن گرتی صحت کی وجہ سے پتا نہیں میں اپنے ان سارے علمی مشاغل سے سبکدوش ھو بھی پاٶں گا یا نہیں۔۔۔۔؟؟؟؟ یہاں ایک بات کا ذکر بھی ضروری ھے کہ مورخ اھل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کے حالات اور علمی آثار پر تفصیلی کام میرا کیا ھوا ھے۔”ارمغان مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ “ کے عنوان سے بڑے سائز کی 950صفحات کی ایک کتاب بھی شائع ھو چکی ھے۔ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ایک وہ دور تھا جب جنوبی پنجاب میں اھل حدیث کی صحافت کا نام ونشان نہ تھا ۔مجھے اللہ نے توفیق بخشی اپریل 2002ء میں ماہ نامہ مجلہ ”تفہیم الاسلام“ کا اجراء کیا جس نے علاقائی سطح پر  علمی اور ادبی صحافت نیز تاریخ کے  بعض نمایاں خدوخال کو محفوظ کرنے میں بھی اھم کردار ادا کیا۔۔تفصیل کا یہ موقع نہیں ھے۔اب تک اس کے 150 شمارے شائع ھو چکے ھیں۔۔نامساعد مالی وسائل کی وجہ سے میگزین کا سلسلہ بھی رکتا ھوا محسوس ھو رھا ھے۔۔ھمارا پورا خطہ قادیانیوں کی کفریہ ارادوں اور  تلبیسی چالوں کا مرکز بنا ھوا ھے۔ جنوبی پنجاب میں جس شرکیہ مذھبی کلچرکا چرچا آپ سنتے رہتے ھوں گے،اس کا رد بہت ضروری ھے اس سلسلے میں مجلہ ”تفہیم الاسلام“  کے ذریعے ھم دعوتی وتبلیغی قسم کے  مضامین چھاپ کر تقسیم کر رھے ھیں۔۔ اس کے علاوہ ”شرکیہ کلچر  اور بدعتی افکار “ کے رد میں یہاں کے لوگوں کی ذہنی سطح کے مطابق دیگر موضوعات پرآسان فہم  کتب بھی لکھ رھا ھوں۔۔جن میں سے چند کتب چھپ بھی گئی ھیں۔۔نام یہ ھیں:1۔”پیام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنیں“۔2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مستشرقین کے اعترافات“ 3۔”موضوعات القرآن فی توحید الرحمان “۔ چند کتب اشاعت کی منتظر ھیں کوئی اللہ کا بندہ ان کی اشاعت کی ذمہ داری اٹھا لے تو ان شاءاللہ عند اللہ عظیم اجر کے مستحق ٹھریں گے ۔۔ان کے نام ملاحظہ فرمائیں :منہاج التوحید۔جواہر التوحید۔فیضان توحید۔پیام قرآن کی کرنیں۔جواہر الحدیث۔وغیرہ۔خطے میں ھمارے جو دعوتی پراجیکٹ چل رھے ھیں ان کو سپورٹ کرنے کی کافی ضرورت ھے ورنہ یہ سارا دعوتی سیٹ اپ ختم ھی ھو جائے گا۔اللہ تعالی سے دعا ھے کہ وہ مالک کائنات ھمارے حال پے رحم فرمائے اور ھماری  دینی کدوکاوش کو قبول فرمائے اور ھمیں صرف اپنے در کا فقیر بنائے رکھے۔۔ اللہ تعالی آپ کا اور میرا ھمیشہ  حامی وناصر رھے۔ آمین۔۔اخوکم فی الدین۔حمید اللہ خان عزیز۔ ایڈیٹر:ماہ نامہ مجلہ”تفہیم الاسلام“۔ توحید منزل محلہ رحمان آباد(شکاری)احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور۔ پنجاب۔پاکستان۔.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ اہل حدیث جنوبی پنجاب کے مولف کا تعارف
میرا مختصر تعارف :حمید اللہ خان عزیز۔۔ولدیت عبد الخالق خان عزیزمرحوم ۔سلسلہ نسب کئی واسطوں سے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے جا ملتا ھے۔والد محترم مرحوم دین کے خادم کاروباری آدمی تھےجماعتی امور میں ھمیشہ  پیش پیش رہتے۔مولانا غلام اللہ خان اور شیخ الحدیث مولانا عبد الرزاق فاروقی رحمہم اللہ سے دینی علوم وفنون حاصل کئے ۔اسی طرح میرے دادا مرحوم مولانا فیض اللہ خان عزیز ،مولانا عبد الوھاب دھلوی اور مولانا احمد الدین گھکڑوی رحمہم اللہ کے تلامذہ میں سے تھے۔  جماعت اھل حدیث کے مقامی امیر رھے۔ ان کا گھر علماۓ اھل حدیث کی آمد کا مرکز بنا رہتا۔۔تاحیات اکابر جماعت سے ان کے قریبی تعلقات قائم رھے۔میری دینی تربیت میں ان کا کردار زیادہ ھے۔میں نے مختلف مدارس میں تعلیمی مراحل طے کئے۔معہد الشریعہ کوٹ ادو۔جامعہ محمدیہ خان پور اسی طرح جامعہ البدر بھاول پور بھی کچھ عرصہ پڑھتا رھا۔۔جامعہ محمدیہ عنایت پور میں مولانا عبد الرزاق سلفی عنایت پوری رحمہ اللہ سے ایک سال پڑھنے کے دوران والد محترم کی وفات ھو گئی اور پھر مزید تعلیم کا حصول  رک گیا۔۔ اور یوں کسی درسگاہ کی فراغت کا سرٹیفیکٹ باقاعدہ حاصل نہ کر سکا۔۔ دوران  تعلیم الحمد للہ خطبات جمعہ دینے کا سلسلہ شروع ھوا جو تاحال جاری وساری ھے۔میں نے اپنے ذاتی مطالعے  اور مقامی علمائے کرام علامہ مولانا عبد اللہ خان۔مولانا حضوراحمد،مولانا محمدابراھیم ترمنی رحمہم اللہ تعالی اور مفتی سراج احمد حفظہ اللہ سے دینی علوم  بالخصوص  تفسیر قرآن کے موضوع  پر کافی استفادہ کیا۔۔مجھے دو دفعہ تفسیر القرآن کے دورہ جات میں بھی شمولیت کا موقع ملا۔میری ایک کتاب :”موضوعات القرآن فی توحید الرحمان“اصل میں قرآن مجید میں مذکور مقامات توحید کا تفصیلی اشاریہ ھے۔اس سے میری اس موضوع سے دلچسپی کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ھے۔۔”تفہیم الاسلام“ میں بھی کچھ عرصہ درس قرآن اور درس حدیث لکھتا رھا۔۔مجھے زیادہ رغبت رجال حدیث پر لکھنے میں ھے۔۔اور میں زیادہ تر اسی موضوع پر ھی لکھتا ھوں۔آئندہ بھی اسی پر لکھوں گا۔ ان شاءاللہ۔کالج کی تعلیم بی اے۔ بی ایڈ ھے۔۔جب کہ ایم اے اردو کی تیاری کر رھا ھوں ۔اس کے بعد اگر صحت نے اجازت دی تو اسی میں ایم فل ،پی ایچ ڈی اور پھر ایم اے اسلامیات کروں گا۔۔لیکن سچی بات یہی ھے۔طبعیت مختلف عوارضارت میں گھرے رہنے کی وجہ سے اب نکالتی نہیں ھے۔۔اتنے پڑھے کو ہی میں کافی سمجھوں تو بہتر ھے۔میرے برادر اکبر مولانا حفیظ اللہ خان عزیز ایک محقق عالم دین ھیں۔۔مجھے مسلسل ان کی علمی سرپرستی اور رھنمائی حاصل ھے۔۔اس لئے لکھنے پڑھنے کے دوران درپیش بعض علمی مسائل بفضل اللہ ان کی وجہ سے حل ھو ھی جاتے ھیں۔۔الحمد للہ میرے مختلف عنوانات پر کم و بیش پانچ ہزار سے بھی زائد صفحات ھیں۔۔جو مختلف مقامی اور قومی اخبارات وجرائد میں شائع ھو چکے ھیں۔۔ میں تو دینی خدمت کے جذبے سے کام کرتا رھا۔۔لیکن اچانک پتا چلا کہ میں اندر اندر سے تو  سخت بیمار ھوچکا ھوں ۔شوگر بلڈ پریشر اور ھارٹ کے مسائل پیدا ھو گئے۔۔میرا عزم برقرار ھے۔”تاریخ اھل حدیث جنوبی پنجاب پے جس قسم کا کام میں نے کیا ھے یا ابھی آگے کرنا ھے ۔۔ایسا کام پہلے نہیں ھوا۔۔تاریخ اھل حدیث وافکار اھل حدیث پر لکھے ھوئے میرے مقالات کو ذہبی دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے اپنی بعض کتابوں میں میرے حوالے سے درج کیا ھے۔۔اللہ تعالی سے دعا ھے کہ ھمیں جب تک زندہ رکھے ایمان وتوحید کی سلامتی کے ساتھ زندہ رکھے اور جب موت دے تو سعادت وایمان پر ھی دے۔ آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تاریخی کام کو منصہ شہود پر لانا ہے ان شاء اللہ تاریخ سے سے دلچسپی رکھنے والے لاکھوں ہیں ۔
اس پروجیکٹ کی سرپرستی،مصنف سے ہمدردی اور ان کتب کو شائع کرنا ہے ان شاء اللہ ۔
چند مخلص ساتھیوں کی تلاش ہے جو اس کو عام کرنے میں ہمارا ساتھ دیں ۔
الداعی الی الخیر:محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی 
0092 3024056187وٹس اپ:

Thursday, 2 March 2017

میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کا آخر خط


ایک سو چوہترواں(۱۷۴)خط باطلاع بیماری و نصائح آخری

بسم اللہ الرحمن الرحیم از عاجز محمد نذیر حسین بمطالعہ گرامی مولوی سید عبدالعزیزی صمدنی سلمہ ربہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد واضح ہو کہ مسرت نامہ آیا ۔آپ کے چلے جانے کے بعد رات ہی میں میری طبیعت خراب ہو گئی کچھ مفرح کھانے سے میری طبیعت ٹھہری اور اس ٹھہر جانے سے اب تو چلا جانا ہی اچھا ہے ۔اور خوب پڑھا لیا ۔اور کتاب اللہ و سنت نبوی ﷺ کی خدمت کر لی ۔اللہ تعالی و رسول اللہ ﷺ کے احکام کی بخوبی تبلیغ کی اور اب کوئی تمنا اس دنیائے فانی میں باقی نہیں رہی ہے ۔ہاں البتہ جل شانہ کے دربار حق جانے کے لیے فقیر تیار ہے ۔اور وہ ہی ان شاء اللہ تعالی میری آرزو پوری کرے گا۔تم سب لوگ ہمیشہ زندہ و کامران رہو اور میرا ضعفِ دماغ اور میرا موجودہ حال مجھ سے کہہ رہا ہے کہ آپ لوگ شاید آئندہ مجھے نہ دیکھ سکیں گے ۔خیر خوش رہو ۔بڑی عمر پاؤ۔تاکہ اور اشاعت کلمۃ الحق میں مصروف رہو اور اب اللہ کے سپرد تم کو کرتا ہوں ۔اللہ تعالی تم سب کا حافظ وناصر ہے ۔اور میرے لیے ہر وقت اور ہمیشہ ہمیشہ میری مغفرت کے لیے اپنی اپنی دعاؤں سے یاد کرتے رہنا۔اب تو قوائے جواب دے چکے ۔آئندہ شاید تمہیں کسی خط کا جواب نہ ہی مل سکے گا۔فقط۔والسلام خیر الختام ۔