۔
(محمد احسان الحق شاہ ہاشمی یاروخیل میانوالی)
جنگ مؤرخہ 06-05-2016 میں جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے مسجد میں نمازجنازہ اداکرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ ’’’’ فقہائے احناف کے نزدیک مسجد میں جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے‘‘
اگر وہ اسی پر اکتفا فرماتے تو بات اور تھی مگر انہوں نے حنفی مؤقف کی تائید و توثیق میں ساتھ ہی فرمایا کہ ’’ اس کی اصل یہ حدیث ہے، ’’ترجمہ؛۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جس نے مسجد میں ۰ رکھی ہوئی) میت کی نماز جنازہ پڑھی اس کے لئے کوئی ( اجر) نہیں ہے ( سنن ابو داؤد 3154]‘‘
مزیر فرماتے ہیں کہ ’’اس حدیث کو امام ابن ماجہ، امام عبد الرزاق، امام ابن ابی شیبہ اور امام بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔‘‘
کل امام یخطی و یصیب ( یعنی ہر امام سے خطا اور صواب کا امکان ہے) کے تحت مفتی و مجتہد کی بھول چوک چونکہ اللہ کے نزدیک معاف ہی نہیں بلکہ اخلاص اور محنت کے پیشِ نظر اس پر دوہرا یااکہرا بھی ہے ، تاہم کسی کی سہواً غلطی کی اصلاح بھی افرادِ امت کا فرائض میں سے ہے اس لئے اس ضمن میں کچھ معروضات پیش خدمت ہیں،
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن میں یوں باب باندھا ہے، ’’ الصلٰوۃ علی الجناۃ فی المسجد‘‘ ترجمہ؛۔ ’’مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔ ‘‘ پھر اس باب میں مندرجہ ذیل میں تین احادیث لائے ہیں۔
۱۔ عن عائشۃ قالت واللہ ما صلیٰ رسول اللہ ﷺ علیٰ سھیل ابن البیضآء الا فی المسجد۔
ترجمہ؛۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ؛۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضا پر نماز جنازہ نہیں پڑھی مگر مسجد میں۔
۲۔ عن عائشۃ قالت واللہ لقد صلیٰ رسول اللہ ﷺ علی البنی بیضاء فی المسجد سھیل و اخیہِ
ترجمہ ؛۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ؛۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ بیضا ء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ، یعنی سھیل اور ان کے بھائی پر
۳۔ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلیّ جنازۃ فی المسجد فلا شیء’‘ علیہِ
ترجمہ؛۔ حضرت ابو ہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی اس پر کوئی گناہ نہیں
نوٹ؛۔ ( مذکورہ بالا تینوں احادیث مبارکہ کا ترجمہ مشہور حنفی حمد عبد الحکیم خاں اختر مجددی مظہری شاہجہانپوری کا کیا ہوا ہے جو نیٹ پر سنن ابو داؤد کی جلد ۲ کے صفحہ 543 پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ )
جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے ابن ماجہ کا بھی حوالہ دیا ہے جبکہ ابن ماجہ میں یہ حدیث مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ہے،
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلیّ جنازۃ فی المسجد فلیس لہ شیء
ترجمہ؛۔ جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس کو کچھ نہ ملاِ
اس حدیث سے اگرچہ مفتی صاحب کے موؤف کی تائید ہوتی ہے مگر واضح رہے کہ اس کے بالکل متصل ہی امام ابن ماجہ ؒ درج ذیل حدیث لائے ،
عن عائشۃ قالت واللہ ما صلیٰ رسول اللہ ﷺ علیٰ سھیل ابن البیضآء الا فی المسجد۔
یہ ( موٗ خر الذکر) حدیث مبارکہ نقل کرنے بعد امام ابن ماجہؒ فرماتے ہیں ’’ حدیث عائشۃ اَقْوَیْ‘‘ ترجمہ ؛۔ حضرت عائشہ کی حدیث زیادہ قوی ہے۔
لہذا اصول حدیث کے مطابق قوی حدیث کو ضعیف پر بہر حال وقیت ہے۔ ’’ گر فرقِ مراتب نہ کنی زندیقی‘‘
دیگر محولہ کتبِ احادیث تو ویسے ہی صحاح ستہ سے فرو تر ہیں۔
اول الذکر دونوں احادیث کی تائید و توثیق صحیح مسلم کی حسب ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے،
عن ابو سلمۃ ابن عبد الرحمن ان عائشۃ رضی اللہ عنہا لما توفیٰ سعد ابن ابی وقاص قالت ؛ادخلوا بہ المسجد حتیٰ اصلی علیہ، فانکروا ژلک علیھا، فقالت واللہ لقد صلیٰ رسول اللہ ﷺ علی ابنیْ بیضآء فی المسجد سھیل و اخیہ۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعدؓ بن ابی وقاص فوت ہوئے توحضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں لے آؤ تاکہ میں بھی اس پر نمازِ جنازہ پڑھ لوں، اس
پر لوگوں نے تعجب کیا تو ام المومنینؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے بیضا ء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کا جنازہ مسجد میں ادا فرمایا تھا۔
نمبر ۳ کے تحت مذکور حدیث کا اگر وہ ترجمہ درست تسلیم کر لیا جائے جو مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے جنگ میں کیا ہے تو نبی ﷺ کے قول و فعل میں تضاد رونما ہوتا ہے جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اللہ کے ارشادات اور افعال میں تضاد ہو۔ اس لئے مولانا شاہجہانپوری صاحب والا ترجمہ درست ماننا پڑے گا اورعربی زبان سے ادلیٰ واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہی ( شاہجہانپوری) ترجمہ درست ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب مسجد میں فرض عین کی ادائیگی مرد حضرات پر فرض ہے الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، تو فرضِ کفایہ کی ادائیگی میں کونسی نص مانع ہے حالانکہ نماز جنازہ تووہاں بھی پڑھنی جائز اور مسنون ہے جہاں دوسری نمازوں کی ادائیگی بالاتفاق ممنوع ہے۔
باقی رہی فقہ ، تو یہ قرآن و حدیث کے تابع ہے نہ کہ متبوع۔ اس لئے مناسب یہ ہے سب سے پہلے قرآن و سنت سے دلائل پیش کئے جائیں اور ان کی اگرتوضیح مزید کی ضرورت محسوس ہو تو فقہی حوالے متابعت میں دیئے جانے چاہئیں۔
رہی بات اضطراری صورت میں میت مسجد سے باہر اور امام بمع چند لوگ محراب اور باقی مسجد میں کھڑے ہو سکتے ہیں، یہ موقف بھی اچھنبے سے کم نہیں کیونکہ ہمارے ہاں حنفی آئمہ فرضِ عین کی جماعت کراتے وقت بھی محراب سے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں گویا کہ محراب کو مسجد کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو از روئے فقہ ا یسی با جماعت کی مقبولیت کی
کیا دلیل ہے جس میں امام بمع چند حضرات حدودِمسجد سے باہر یعنی محراب میں اور باقی عامۃ الناس اندرونِ مسجد ہوں۔ ؟؟ اگرہم قرآن مجید اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کر مسائل کا حل تلاش کریں گے تو فقہی پیچیدگیوں سے بہت حد تک بچے رہیں گے ۔ کیونکہ حدیثِ نبوی ہے کہ دین آسان ہے ۔ اور معلوم ہے کہ دین نام ہے کتاب و سنت کا ۔
ھذا ما عندی وللہ اعلم بالصواب
العبد
محمد احسان الحق شاہ ہاشمی یاروخیل میانوالی
جنگ مؤرخہ 06-05-2016 میں جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے مسجد میں نمازجنازہ اداکرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ ’’’’ فقہائے احناف کے نزدیک مسجد میں جنازہ رکھ کر نمازِ جنازہ پڑھنا بالاتفاق مکروہ ہے‘‘
اگر وہ اسی پر اکتفا فرماتے تو بات اور تھی مگر انہوں نے حنفی مؤقف کی تائید و توثیق میں ساتھ ہی فرمایا کہ ’’ اس کی اصل یہ حدیث ہے، ’’ترجمہ؛۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، جس نے مسجد میں ۰ رکھی ہوئی) میت کی نماز جنازہ پڑھی اس کے لئے کوئی ( اجر) نہیں ہے ( سنن ابو داؤد 3154]‘‘
مزیر فرماتے ہیں کہ ’’اس حدیث کو امام ابن ماجہ، امام عبد الرزاق، امام ابن ابی شیبہ اور امام بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔‘‘
کل امام یخطی و یصیب ( یعنی ہر امام سے خطا اور صواب کا امکان ہے) کے تحت مفتی و مجتہد کی بھول چوک چونکہ اللہ کے نزدیک معاف ہی نہیں بلکہ اخلاص اور محنت کے پیشِ نظر اس پر دوہرا یااکہرا بھی ہے ، تاہم کسی کی سہواً غلطی کی اصلاح بھی افرادِ امت کا فرائض میں سے ہے اس لئے اس ضمن میں کچھ معروضات پیش خدمت ہیں،
امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے سنن میں یوں باب باندھا ہے، ’’ الصلٰوۃ علی الجناۃ فی المسجد‘‘ ترجمہ؛۔ ’’مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔ ‘‘ پھر اس باب میں مندرجہ ذیل میں تین احادیث لائے ہیں۔
۱۔ عن عائشۃ قالت واللہ ما صلیٰ رسول اللہ ﷺ علیٰ سھیل ابن البیضآء الا فی المسجد۔
ترجمہ؛۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ؛۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن بیضا پر نماز جنازہ نہیں پڑھی مگر مسجد میں۔
۲۔ عن عائشۃ قالت واللہ لقد صلیٰ رسول اللہ ﷺ علی البنی بیضاء فی المسجد سھیل و اخیہِ
ترجمہ ؛۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ؛۔ خدا کی قسم رسول اللہ ﷺ بیضا ء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ، یعنی سھیل اور ان کے بھائی پر
۳۔ عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلیّ جنازۃ فی المسجد فلا شیء’‘ علیہِ
ترجمہ؛۔ حضرت ابو ہرہرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی اس پر کوئی گناہ نہیں
نوٹ؛۔ ( مذکورہ بالا تینوں احادیث مبارکہ کا ترجمہ مشہور حنفی حمد عبد الحکیم خاں اختر مجددی مظہری شاہجہانپوری کا کیا ہوا ہے جو نیٹ پر سنن ابو داؤد کی جلد ۲ کے صفحہ 543 پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ )
جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے ابن ماجہ کا بھی حوالہ دیا ہے جبکہ ابن ماجہ میں یہ حدیث مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ ہے،
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ ﷺ من صلیّ جنازۃ فی المسجد فلیس لہ شیء
ترجمہ؛۔ جس نے مسجد میں جنازہ پڑھا اس کو کچھ نہ ملاِ
اس حدیث سے اگرچہ مفتی صاحب کے موؤف کی تائید ہوتی ہے مگر واضح رہے کہ اس کے بالکل متصل ہی امام ابن ماجہ ؒ درج ذیل حدیث لائے ،
عن عائشۃ قالت واللہ ما صلیٰ رسول اللہ ﷺ علیٰ سھیل ابن البیضآء الا فی المسجد۔
یہ ( موٗ خر الذکر) حدیث مبارکہ نقل کرنے بعد امام ابن ماجہؒ فرماتے ہیں ’’ حدیث عائشۃ اَقْوَیْ‘‘ ترجمہ ؛۔ حضرت عائشہ کی حدیث زیادہ قوی ہے۔
لہذا اصول حدیث کے مطابق قوی حدیث کو ضعیف پر بہر حال وقیت ہے۔ ’’ گر فرقِ مراتب نہ کنی زندیقی‘‘
دیگر محولہ کتبِ احادیث تو ویسے ہی صحاح ستہ سے فرو تر ہیں۔
اول الذکر دونوں احادیث کی تائید و توثیق صحیح مسلم کی حسب ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے،
عن ابو سلمۃ ابن عبد الرحمن ان عائشۃ رضی اللہ عنہا لما توفیٰ سعد ابن ابی وقاص قالت ؛ادخلوا بہ المسجد حتیٰ اصلی علیہ، فانکروا ژلک علیھا، فقالت واللہ لقد صلیٰ رسول اللہ ﷺ علی ابنیْ بیضآء فی المسجد سھیل و اخیہ۔
ابو سلمہ بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ جب حضرت سعدؓ بن ابی وقاص فوت ہوئے توحضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں لے آؤ تاکہ میں بھی اس پر نمازِ جنازہ پڑھ لوں، اس
پر لوگوں نے تعجب کیا تو ام المومنینؓ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ نے بیضا ء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کا جنازہ مسجد میں ادا فرمایا تھا۔
نمبر ۳ کے تحت مذکور حدیث کا اگر وہ ترجمہ درست تسلیم کر لیا جائے جو مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے جنگ میں کیا ہے تو نبی ﷺ کے قول و فعل میں تضاد رونما ہوتا ہے جبکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اللہ کے ارشادات اور افعال میں تضاد ہو۔ اس لئے مولانا شاہجہانپوری صاحب والا ترجمہ درست ماننا پڑے گا اورعربی زبان سے ادلیٰ واقفیت رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ یہی ( شاہجہانپوری) ترجمہ درست ہے ۔
یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب مسجد میں فرض عین کی ادائیگی مرد حضرات پر فرض ہے الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، تو فرضِ کفایہ کی ادائیگی میں کونسی نص مانع ہے حالانکہ نماز جنازہ تووہاں بھی پڑھنی جائز اور مسنون ہے جہاں دوسری نمازوں کی ادائیگی بالاتفاق ممنوع ہے۔
باقی رہی فقہ ، تو یہ قرآن و حدیث کے تابع ہے نہ کہ متبوع۔ اس لئے مناسب یہ ہے سب سے پہلے قرآن و سنت سے دلائل پیش کئے جائیں اور ان کی اگرتوضیح مزید کی ضرورت محسوس ہو تو فقہی حوالے متابعت میں دیئے جانے چاہئیں۔
رہی بات اضطراری صورت میں میت مسجد سے باہر اور امام بمع چند لوگ محراب اور باقی مسجد میں کھڑے ہو سکتے ہیں، یہ موقف بھی اچھنبے سے کم نہیں کیونکہ ہمارے ہاں حنفی آئمہ فرضِ عین کی جماعت کراتے وقت بھی محراب سے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں گویا کہ محراب کو مسجد کا حصہ نہیں سمجھتے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو از روئے فقہ ا یسی با جماعت کی مقبولیت کی
کیا دلیل ہے جس میں امام بمع چند حضرات حدودِمسجد سے باہر یعنی محراب میں اور باقی عامۃ الناس اندرونِ مسجد ہوں۔ ؟؟ اگرہم قرآن مجید اور سنتِ رسول اللہ ﷺ کر مسائل کا حل تلاش کریں گے تو فقہی پیچیدگیوں سے بہت حد تک بچے رہیں گے ۔ کیونکہ حدیثِ نبوی ہے کہ دین آسان ہے ۔ اور معلوم ہے کہ دین نام ہے کتاب و سنت کا ۔
ھذا ما عندی وللہ اعلم بالصواب
العبد
محمد احسان الحق شاہ ہاشمی یاروخیل میانوالی