بسم اللہ الرحمن الرحیم
دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال اوکاڑہ میں ایک سال
تحریر:ابن بشیر الحسینوی رئیس جامعہ امام احمد بن حنبل اہل حدیث سٹی قصور
راقم نے عرصہ آٹھ سال جامعہ امام محمد بن اسماعیل البخاری گندہیاں اوتاڑ قصور میں تدریس کی بلکہ اس جامعہ کے پہلے استاد کا شرف بھی حاصل ہے ۔پروفیسر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ راقم سے ایک لمبے عرصے سے دوستانہ تعلق رکھتے تھے اور کافی دفعہ اظہار بھی کر چکے تھے کہ آپ ہمارے جامعہ میں تدریس کریں ہر دفعہ راقم یہی کہتا رہا کہ جس جامعہ میں میں تدریس کررہاہوں یہ میرا اپنا جامعہ ہے اس کو چھوڑنا نہیں چاہتا ۔۔اس کا اظہار شیخ محسن صاحب نے بھی کئی ایک جگہوں پر خود بھی کیا کہ ابن بشیر الحسینوی جامعہ امام محمد بن اسماعیل کے ساتھ مخلص ہے وہ ہمارے پاس نہیں آنا چاہتے۔
2012 کے دوران شیخ محسن صاحب میری رہائش گاہ مسجد حراء چھانگا مانگا میں تشریف لائے اور آنے کا سبب بھی بتایا کہ میری درینہ خواہش ہے کہ آپ ہمارے جامعہ میں تدریس کریں ہمیں آپ کی اشد ضرورت ہے ہماری لابریری سے کوئی بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا رہا آپ تدریس بھی کریں اور تصنیفی و تحقیقی کام بھی کریں ،اس پر مجھے سوچنے پر مجبور کردیا اور میں نے کہا کہ شیخ صاحب ایک عرصہ سے آپ اصرار کررہے تھے اب میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ استاد محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ اور محترم قاری محمد ادریس ثاقب حفظہ اللہ کو راضی کرلیں اگر یہ دونوں شخصیات مجھے خوشی سے اجازت دے دیں تو آپ کے جامعہ میں آجاؤں گا ان شا ء اللہ ۔
شیخ محسن صاحب نے استاد محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ سے میرے متعلق تفصیلی بات کی کہ آپ ابن بشیر الحسینوی بھائی کو ہمارے جامعہ میںتدریس و تصنیف کی اجازت دے دیں تو حافظ شریف صاحب اس پر راضی ہو گئے اور کہا کہ میں ابن بشیر کو بخوشی دارالحدیث راجووال تدریس کرنے کی اجازت دیتا ہوں ساری تفصیل شیخ محسن صاحب نے مجھ سے بیان کر دی پھر راقم نے استاد محترم شریف صاحب سے مفصل بات کی تو انھوں نے کہا کہ بیٹا جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ میں آپ نے آٹھ سال ڈٹ کر کام کیا ہے ہم نے آپ کی اچھی خبریں سنی ہیں ہم آپ سے راضی ہیں اب ہم آپ کو راجووال میں بھیج رہے ہیں اور حافظ صاحب نے مجھے کہا کہ آپ محترم قاری محمد ادریس ثاقب صاحب سے میری رضامندی بیان کردیں وہ ان شاء اللہ آپ کو بخوشی اجازت دے دیں گے ان شاء اللہ ۔
میں نے اپنے کزن محترم انجنیئر محمد شفیق صاحب کو اپنے ساتھ لیا اور محترم قاری ادریس صاحب کے پاس پہنچ گئے ان سے ساری بات بیان کی تو انھوں نے غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ استاد محترم حافظ محمد شریف صاحب کی چاہت کو میں ترجیح دیتا ہوں میں ان کے حکم کی مخالفت کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا اور مجھ سے کہا کہ آپ نے عرصہ آٹھ سال ہمارے پاس گزارا ہے ہمیں آپ سے کوئی شکوہ نہیں اگر آپ کو کوئی ہے تو ہمیں بتا دیں اس پر راقم نے کہا کہ آپ نے مجھے بہت محبت دی مجھے آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں پھر قاری صاحب نے یہ بھی کہا کہ شیخ صاحب ہمارے دروازے آپ کے لئے کھلے ہیں جب بھی ہمارے جامعہ میں آنا چاہیں ہم آپ کی خدمات کے لئے حاضر ہیں ۔
راقم رمضان کے بعد جامعہ دارالحدیث راجووال میں پہنچ گیا جامعہ کی سال کی پہلی میٹنگ ہوئی اس میں راقم کو تدریس کے لئے درج ذیل کتب دی گئیں ۱:صحیح البخاری جلد اول ،۲: سنن ابی داود ،۳:سنن الترمذی ،۴:ہدایہ،۵:فقہ السنۃ۔
راقم نے کتب راجووال میں پڑھائیں الحمدللہ ۔،اور باقی میری تمام مصروفیات تحقیقی و تصنیفی تھیں ۔
میرے ساتھ تدریس کرنے والے جو شیوخ کرام تھے ان کے نام درج ذیل ہیں ۔ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف ،شیخ عنایت اللہ امین ،شیخ رفیق زاہد ،شیخ عدنان ،شیخ عبدالباسط ،شیخ محمد آصف سلفی ،شیخ اور شعبہ حفظ میں قاری شفیق صدیق ،قاری عبیداللہ احسن ،قاری قاری نجیب اللہ اور شعبہ سکول میں پڑھانے والے سر عابد ، سر مولانا عمر فاروق ہاشمی حفظہم اللہ تھے اور سفیر جامعہ مولانا ھارون صاحب تھے ۔
راقم کے ذمے مکتبہ کی دیکھ بھال بھی تھی اور پانچ پریڈ پڑھانے کے علاوہ باقی اکثر وقت مکتبہ میں گزرتا ۔
راجووال میں رہنے کے ثمرات:
راوجووال میں راقم نے جو کچھ ثمرات پائے ان کی تفصیل تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے مختصرتفصیل درج ذیل ہے ۔
۱:بابا جی شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جن کی زندگی دین حنیف کے لئے وقف تھی ان کی زندگی کے کئی ایک عظیم کارنامے منکشف ہوئے بلامبالغہ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ تھے جب بھی مؤرخ تاریخ برصغیر پر قلم اٹھائے گا ان کا تذکرہ کئے بغیر نہ رہے گا ،فرحمہ اللہ۔
۲:مکتبہ دارالحدیث راجووال جو کہ بابا جی کی ستر سال کی محنت کا نتیجہ تھا کو بغور مطالعہ کرنے کا موقع ملا جہاں تمام علوم کی بے شمارکتب کا جم غفیر موجود ہے وہاں پر چند الماریاں پرانی کتب پر بھی مشتمل ہیں یہ وہ کتب ہیں جو برصغیر کے عظیم محدث اور شارح سنن الترمذی مولانا محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جن سے استفادہ اٹھایا اور ان کتب کے مالک جناب محمد عبداللہ کھپیانوالوی رحمہ اللہ تھے جب مولانا مبارکپوری شرح ترمذی لکھ رہے تھے انھوں نے جناب عبداللہ کھپیانوالوی کو خط لکھا کہ مجھے کتابوں کی اشد ضرورت ہے اس کے جواب میں مولانا کھپیانوالوی نے اونٹوں پر اپنا مکتبہ لاد کر مبارکپور میں روانہ کر دیا سبحان اللہ جب ان کتب سے مبارکپوری صاحب نے بھر پور فائدہ اٹھا لیا تو سارا مکتبہ واپس کردیا ۔تقسیم ہند کے وقت یہ مکتبہ پاکستان آیا کھپیانوالوی رحمہ اللہ کی اولاد میں سے مولانا عبدالمنان رحمہ اللہ اور انکے بیٹوں نے یہ مکتبہ، مکتبہ دارالحدیث راجووال کو وقف کر دیا ۔۔۔۔۔فجزاہم اللہ خیرا ۔
اس مکتبہ کی ایک ایک کتاب کو بغور پڑھنے کا موقع ملا یہ ساری کتب اہم ترین مراجع و مصادر کی کتب تھیں اور تمام کتب تقریبا پہلے طبعے ہی تھے جن کو دیکھ کو محدثین کی محنت کا اندازہ ہوا کہ نہ ہی لکھائی واضح اور نہ پرنٹ پرتکلف سبحان اللہ ۔وہاں پر صحاح ستہ کے تراجم کے پہلے طبعات بھی موجود تھے جو انتہائی سادہ اور بوسیدہ حالت میں تھے ۔وہاں پر امام العصر نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ کی بھی بے شمار کتب موجود تھیں اسی طرح سید نزیر حسین محدث دہلوی کے بعض شاگردوں کی بھی قیمتی کتب موجود تھیں مثلا مولانا محمد سعید محدث بنارسی ،مولانا محمد ابوالقاسم سعید بنارسی ،محدث ابوالمکارم ،محدث ابوالحسن سیالکوٹی ،
وغیرہ ۔۔وہاں رہ کر ہی کم از کم بیس ہزار روپے کی قیمتی نادر کتب کی فوٹو کاپیاں کروائیں اور بعض نادر کتب پر تخریج وتحقیق کا کام بھی مکمل کیا ۔۔
۳:راجووال کے نزدیک ببر کھائی میں شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ کے پاس بعض نادر خطوط تھے ان کو بغور دیکھنے کا موقع ملا ان کا تعلق ان کے گاوں ببر کھائی کے بعض اہل علم سے تھے جن میں سے ایک عظیم شخصیت ابوداود عبداللہ رحمہ اللہ کی تھی جو سید نزیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد تھے اور یہ امام العصر نواب صدیق حسن خاں کو بھی ملے تھے بلکہ ان کا وظیفہ نواب صاحب نے مقرر کررکھا تھا اور بعض کتب کی تصحیح انھوںنے انھی سے کروائی تھی بھوپال سے ببر کھائ میں ڈاک آتی تھی ۔۔۔نیز اس گاوں کے بعض وہ اہل علم جو جامعہ رحمانیہ دہلی سے فارغ تھے ان کی اسانید دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔۔۔
4:اس جامعہ میں مہمان بہت کثرت سے آتے تھے ایک دفعہ اوکاڑہ قاری عبداللہ یونس اور ان کے بھائی مولانا عبداللہ یوسف حفظہما اللہ تشریف لائے ان سے رات گئے تک میٹنگ ہوئی انھوں نے محدث عبدالجبار کھنڈیلوی رحمہ اللہ کے اوکاڑہ دارالحدیث لانے کی کار گزاری سنائی اور بعض ظلم وستم کی داستان یں سنائیں ۔۔۔اسی ملاقات میں انھوں نے سید نزیر حسین دہلوی رحمہ اللہ کے ایک شاگرد عبدالغنی رحمہ اللہ کا تذکرہ کیا جو رینالہ کے قریبی دیہات کسی جی ڈی میں رہتے تھے وہ پڑھنے کے لئے دہلی گئے اور واپسی پر وہ دہلی سے عورتوں کا سلہ ہوا لباس بھی ساتھ لائے اور انھوں نے اپنے علاقے کی عورتوں کو توجہ دلائی کہ اس طرح کا لباس سلائی کیا کرو بلکہ شروع شروع میں خود سلائی کرکے عورتوں کو لباس دیتے رہے اصل میں جی ڈی والے دیہات جانگلی تھے اور وہاں کی عورتوں کا لباس اس زمانے اس طرح تھا کہ جسم کا اکثر حصہ ننگا ہوتا تھا او ران کو کوئی سمجھانے والا نہیں نزیر حسین دہلوی صاحب کے تربیت یافتہ شاگرد نےاس علاقے میں آکر لوگوں کی بری تربیت کی اور جانگلیوں کو سیدھا کر دیا اللہ تعالی کی توفیق سے ۔
۵:اس جامعہ میں رہ کر بابا جی کی اولاد عبداللہ سلیم مرحوم کے حالات معلوم کرنے کا موقع ملا اور ان کے فرزند ان :ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف ،ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظھما اللہ کے ساتھ بہترین رفاقت کا موقع ملا راقم نےان بزرگوں سے بہت کچھ سیکھا اور بہت زیادہ کاموں میں اپنی ناقص آرابھی دیتا رہا راقم ان کے اخلاق کریمانہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا ۔۔۔اخلاق عالیہ کی ایک مثال راقم نے اپنا جامعہ شروع کرلیا لیکن پورا سال کوئی مہینہ ایسا نہیں گیا جس میں انھوں نے راقم کو اپنے ادارے نہ بلایا ہو بلکہ پہلے سے بھی زیادہ بہتر تعلقات قائم ہیں بلکہ اپنا ادارہ شروع کرنے کے تقریبا ایک سال بعد راقم نے اپنی کتاب (نصیحتیں میرے اسلاف کی)کا مقدمہ شیخ عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ سے لکھوایا انھوں نے راقم ناچیز کے بارے میں درج ذیل خیالات کا اظہارفرمایا :(اے اللہ مجھے ان کے گمان کے مطابق کر دے آمین،الحسینوی)
ابن بشیر الحسینوی کے متعلق پروفیسر ڈاکٹر عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ کے تاثرات
مجھے سردست کچھ مؤلف کے بارے گزارشات پیش کرنی ہیں۔ میں فضیلۃ الشیخ ابن بشیرd سے ذاتی طور پر ایک عرصہ سے واقف ہوں۔ خدمت دین، تحقیق و تصنیف، دعوت و تبلیغ تعلیم و تدریس کے حوالے سے جذبات کا ایک تلاطم ہے جو ان کی شخصیت میں سمو دیا گیا ہے۔ آسماں کی بلندیوں کو چھوتے عزائم، سمندر کی وسعتوں اور گہرائیوں سے بھی کچھ آگے بڑھتے ہوئے احساسات،شبانہ روز انتھک محنت اور ہمالیہ سے محو کلام جرأت و ہمت یہ ہیں الشیخ ابن بشیر الحسینوی، جیسے انہیں میں نے محسوس کیا ہے!!۔
دارالحدیث راجووال کے مکتبہ میں مسلسل کئی گھنٹے بیٹھے رہتے، کتابوں کے ڈھیر میں گم سم، ان کے ذوق مطالعہ کے پیش نظرمیں نے مکتبہ کی چابی انہی کو دے رکھی تھی۔ مطالعہ میں استغراق و انہماک کے باجود دنیا کے جدید حالات اور تقاضوں سے بھی آگاہ اور باخر، انٹرنیٹ پر مسلسل نہ صرف اکثر محدثین سے رابطے میں رہتے ہیں، بلکہ اولاً لائن تدریس مصروفیات بھی رکھتے ہیں۔
بالخصوص تدریس حدیث کے اسلوب و منہاج میں ہمارے عربی، ہمارے محسن ہمارے شیخ مکرّم، محدث العصر، فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریفd أستاذ الحدیث و پیش مرکز التربیۃ الإسلامیۃ فیصل آباد سے بھی بہت متاثر ہیں۔ منہج الدراسۃ المقارنۃ یعنی ایک ایک حدیث کو اصل مصادر سے پڑھنا، ان کے طرق و اسانید کو دیکھنا، الفاظ و کلمات اور تعبیرات کا مطالعہ کرنا، متعلقہ شروح الحدیث کی گہرائی میں جانا اور پھر ان سے احکام و سائل کا استنباط کرنا اور فقہ الحدیث میں مہارت حاصل کرنا……
یقینا اس منہج تدریس کی بدولت ہماری مادر علمی ’’مرکز التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ سے علماء کی ایک کھیپ تیار ہوئی جو اس وقت متعدد دینی مدارس اور تحقیقی اداروں میں دقیع خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہمارے ممدوح، فاضل دوست ابن بشیر صاحب اس منہج تدریس کا دینی مدارس میں احیاء کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح تحقیق و تصنیف کے حوالے سے بھی موصوف بڑے اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ایسے خوبصورت جذبات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمارے فاضل بھائی نے گزشتہ سال شہر قصور میں جامعہ امام احمد بن حنبل کی بنیاد رکھی، میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس فاضل بھائی کے عظیم الشان منصوبہ جات کی تکمیل فرمائے، ان کیلئے مطلوبہ افراد و وسائل اپنے غیبی خزانوں سے مہیا فرمائے۔ شفاعت حفہ کے طور پر ہر قاری سے بالعموم اور شہر قصور کے احباب سے بالخصوص میری درخواست ہے کہ خیر کے ان کاموں میں موصوف کے دست و بازو بنیں تاکہ یہ کھل کر کام کر سکیں۔
وصل اللّٰہ وسلم و بارک علی النبی الکریم
وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسنا إلی یوم الدین
کتبہ الفقیر إلی اللّٰہ
ابوسعد عبیدالرحمن محسن
بن شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف
مہتمم دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ
راجووال۔ ضلع اوکاڑہ
1436ھ
15-04-2015ء
اس میں ان لوگوں کے لئے ایک نصیحت بھی ہے کہ جامعہ یا مسجد چھوڑ دینا کوئی معیوب نہیں لیکن اس چھوڑنے کو کفر واسلام کی جنگ سمجھنا اور عداوت پھیلانا معیوب ہے ۔۔ہر ہر انسان کو دین کی سربلندی کے اچھے اقدام اٹھانے کا حق ہے ۔۔
۵:اس جامعہ ایک سال کے دوران بہت زیادہ تعلمی اصلاحات نافذ کروائیں اور طلبہ میں تحقیق و فکری منھج عام کیا سب سے اہم بات یہ ہے کہ مکتبہ دروازے چوبیس گھنٹے کھلوا ئے اور الحمدللہ اب بھی مسلسل دروازے کھلے ہیں طلبہ ڈٹ کر فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔۔۔میرے جانے سے پہلے مکتبہ کی صورت حال کافی پریشان کن تھیں ۔۔۔۔ہر اچھی بات شیخ محسن صاحب چند مجلسوں کے بعد مان جاتے تھے ۔۔۔
۶:راقم نے راجووال میں سب سے اہم کام شرح صحیح بخاری والا کام تھا جس کی خاطر شیخ محسن صاحب نے میر بہت زیادہ ساتھ دیا بلکہ یہاں تک کہ اس پر مراجع و مصادر کی کتب جو بھی میں کہتا وہ فورا منگواتے اور میں اس سے فائدہ اٹھاتا ۔۔اور مجھے یہ بھی سہولت مہیا کی جامعہ کے پرنٹر سے مجھے اجازت دی گئی کہ جب بھی ابن بشیر کو کسی پرنٹر کی ضرورت ہو تو فورا نکا ل کر دیا جائے ۔۔۔۔
اور شرح صحیح بخاری پر کام کرنے کے دوران مسلسل اپنی ذاتی آمدنی سے میری مالی معاونت بھی کرتے رہے اور ابھی تک وہ معاونت کئی ایک شکلوں میں جاری و ساری ہے فجزاہ اللہ خیرا۔بلکہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں جب کوئی مشکل آتی ہے تو فورا اس میں میراساتھ دیتے ہیں ۔۔
المختصر دارالحدیث میں رہ کر مجھے بہت فائدہ ہوا اور اب بھی مسلسل اس سے فائدہ اٹھا رہا ہوں اور مرنے تک فائدہ اٹھا تا رہوں گا اس جامعہ کی انتظامیہ نے میری بڑی قدر کی اور اب بھی کرتے ہیں فجزاھم اللہ خیرا۔