النصیحۃ فی التعلیق علی انوار الصحیفۃ
امام ابن شھاب زہری کی معنعن احادیث کا دفاع
تالیف:
ابن بشیر الحسینوی
ہم اپنی اس بحث میں ان احادیث کو صحیح ثابت کریں گے جو امام زہری صیغہ عن سے بیان کرتے ہیں اور محدثین ان کو صحیح قرار دیتے ہیں لیکن بعض الناس ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں ہم اپنی اس بحث میں ان احادیث کو محدثین کے نزدیک صحیح ثابت کریں گے ان شاء اللہ ۔
بعض الناس خود زہری کی عن والی ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
''امام دارقطنی ،امام حاکم ،امام بیہقی اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔(دیکھئے سنن دار قطنی ١/٣٢٢ ح١٢١٩،المستدرک ٢/٢٣٩ح٨٧٤،السنن الکبری للبیہقی٢/١٦٨ح١٩٦۔١٩٥،جزء القراء ت للبیہقی ص٩٢،٩٤) اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر تدلیس کا الزام ثابت ہے لہذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں ۔کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے ۔واللہ اعلم ۔(الکواکب الدریۃ مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:٩٠)
اور ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:'
'ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمین ۔(صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣)
تحقیق
سند کی تحقیق
اسے درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے ۔
١:ابن حبان (صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣)
٢:ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ :١/٢٨٧)
٣:حاکم (مستدرک حاکم :١/٢٢٣،معرفۃ السنن والآثار :١/٥٣٢)
٤:ذھبی (تلخیص المستدرک :١/٢٢٣)
٥:دارقطنی (سنن الدارقطنی :١/٣٣٥،وقال:ہذا اسناد حسن )
٦:بیہقی (التلخیص الحبیر :١/٢٣٦بلفظ :حسن صحیح )
٧:ابن قیم (اعلام المؤقعین :٢/٣٩٧)
٨:ابن حجر (تلخیص الحبیر میں تصحیح نقل کرکے سکوت اختیار کیا ہے)
حافظ ابن حجر کا تلخیص میں کسی حدیث کو ذکر کے سکوت کرنا دیوبندی علماء کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے لہذا یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا گیا ہے ۔
(دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث للشیخ ظفر احمد تھانوی ص٥٥،معارف السنن :١/٣٨٥،توضیح الکلام :١/٢١١ )
امام زہری بہت کم تدلیس کرتے تھے ۔(میزان الاعتدال :٤/٤٠)
حافظ صلاح الدین کیکلدی نے جامع التحصیل میں انھیں دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کی صورت میں )قبول کیا ہے ،مولاناارشاد الحق اثری نے توضیح الکلام :١/٣٨٨۔٣٩٠)میں امام زہری کی تدلیس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں
تنبیہ :لیکن میری تحقیق میں راجح یہی ہے کہ اما م زہری مدلس ہیں لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔لیکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحیح ہے۔(القول المتین ص٢٦۔٢٧)
قارئین نے ہمارا مقصود سمجھ لیا کہ یہ حدیث متقدمین محدثین کے نزدیک صحیح ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کی شرط پر تو صحیح ہوتا ہے
امام دارقطنی ،حاکم ۔بیہقی اور ذہبی،معتمدعلیہ حفاظ حدیث، ائمہ دین کی شرط پر تو صحیح ہے اور یہی صحیح بات ہے ۔ !!!
علائی نے کہا :قبل الائمۃ قولہ عن''(جامع التحصیل ص١٠٩)یہی بات سبط العجمی نے اپنی کتاب( التبیین ص:٨٠)میں کہی ہے ۔
دکتور حاتم العونی نے کہا :''العلماء متفقون علی قبول عنعنۃ الزہری ومنھم ابن حجر نفسہ''تمام علماء ، محدثین امام زہری کے عن والی روایات کو قبول کرنے پر متفق ہیں اور ان میں ابن حجر خود بھی ہیں ۔(التخریج و دراسۃ الا سانید ص٧٧)ہمارے علم کے مطابق حافظ ابن حجر نے کسی بھی حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف قرار نہیں دیا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر کا تیسرے طبقے میں شمار کرنا مرجوح قول ہے ۔
تو آئیں ملاحظہ فرمائیں امام زہری رحمہ اللہ کی عن سے مروی احادیث کا دفاع جن کو بعض الناس نے زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف کہا ہے! ۔
انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من السنن الاربعۃ
میں زہری کی عن سے مروی ہونے کی وجہ سے جن احادیث کو ضعیف قرار دیا گیا ان کے حدیث نمبر درج زیل ہیں ۔
سنن ابی داود:
رقم الحدیث :
١٤۵، ٢٨١، ٢٨٦، ٢٩٦، ٣٤٦، ٧٣٨ ،٧٨٥، ٩٢٢، ١٠٠٤، ١٣٧٩، ١٦٠٧، ١٦١٩،١٦٣٢،٢٠٨٦، ٢٣٩٣، ٢٤٥٤، ٢٤٧٣، ٢٦١١، ٢٨٣٢، ٢٩٦٦، ٢٩٦٧، ٢٩٧١، ٢٩٨٩، ٢٩٧١، ٢٩٨٩، ٣٠٠٠، ٣٠٠٤، ٣٠١٧، ٣٠١٨، ٣١٣٦، ٣١٣٧، ٣٥٦٩، ٣٨٤٢، ٣٩٧٦، ٤٠٠٠، ٤٥٢٦، ٤٥٣٤، ٤٦٣٦، ٥٢٦٧۔
سنن الترمذی :
رقم الحدیث۔
٤٤٠،٧٠٠،٧٣٥،١١٢٨،١١٤٩،١٨٩٥،٢٣١٨،٢٤٦٤،٣١٦٥،٣١٧٠،٣١٩١۔
سنن النسائی
رقم الحدیث
٢١٦،١٢٣٣،١٨٤٠،٢٢٨٨،٣٧٩٣،٥١٤٦،٥٢٩٨،٥٦٧٩،٥٧٣٤۔
سنن ابن ماجہ
رقم الحدیث
١٢٦٨،١٤٦٧،١٥٧٣،١٦٦٦،١٧٠٠،٢٤٤١،٣٥٥٨،٤٠٣٨
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ہماری تحقیق میں زہری کا عن بیان کرنا محدثین کی شرط کے مطابق مضر نہیں ہوتا بلکہ وہ ایسی حدیث کو صحیح کہتے تھے ۔
اس کی چند مثالیں ملاحظ فرمائیں ۔
مبعض الناس لکھتے ہیں :'' ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ؐ سورہ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہوتے تو اپنی آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمین ۔(صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣)
تحقیق
سند کی تحقیق
اسے درج ذیل محدثین نے صحیح کہا ہے ۔
١:ابن حبان (صحیح ابن حبان :٣/١٤٧ح١٨٠٣)
٢:ابن خزیمہ (صحیح ابن خزیمہ :١/٢٨٧)
٣:حاکم (مستدرک حاکم :١/٢٢٣،معرفۃ السنن والآثار :١/٥٣٢)
٤:ذھبی (تلخیص المستدرک :١/٢٢٣)
٥:دارقطنی (سنن الدارقطنی :١/٣٣٥،وقال:ہذا اسناد حسن )
٦:بیہقی (التلخیص الحبیر :١/٢٣٦بلفظ :حسن صحیح )
٧:ابن قیم (اعلام المؤقعین :٢/٣٩٧)
٨:ابن حجر (تلخیص الحبیر میں تصحیح نقل کرکے سکوت اختیار کیا ہے)
حافظ ابن حجر کا تلخیص میں کسی حدیث کو ذکر کے سکوت کرنا دیوبندی علماء کے نزدیک صحیح یا حسن ہونے کی دلیل ہے لہذا یہ حوالہ بطور الزام پیش کیا گیا ہے ۔
(دیکھئے قواعد فی علوم الحدیث للشیخ ظفر احمد تھانوی ص٥٥،معارف السنن :١/٣٨٥،توضیح الکلام :١/٢١١ )
[امام زہری بہت کم تدلیس کرتے تھے ۔(میزان الاعتدال :٤/٤٠)حافظ صلاح الدین کیکلدی نے جامع التحصیل میں انھیں دوسرے طبقے میں شمار کیا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کی صورت میں )قبول کیا ہے ،مولاناارشاد الحق اثری نے توضیح الکلام :١/٣٨٨۔٣٩٠)میں امام زہری کی تدلیس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہیں ۔]
تنبیہ :لیکن میری تحقیق میں راجح یہی ہے کہ اما م زہری مدلس ہیں لہذا یہ سند ضعیف ہے ۔لیکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحیح ہے۔(القول المتین ص٢٦۔٢٧)
ایک جگہ پر واجب الاحترام بعض الناس لکھتے ہیں : کہ ''اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر تدلیس کا الزام ثابت ہے لہذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں ۔کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے ۔واللہ اعلم ۔(الکواکب الدریۃ مسئلہ فاتحہ خلف الامام ص:٩٠)
قارئین نے ہمارا مقصود سمجھ لیا کہ
(١)یہ حدیث متقدمین و متاخرین محدثین کے نزدیک صحیح ہے ۔
(٢)امام زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کے نزدیک مضر نہیں ہوتا بلکہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے تھے ۔
(٣)جو حدیث محدثین کی شرط مطابق صحیح ہو اس کو صحیح سمجھا جائے گا ،محڈثین کے خلاف آج کے کسی محقق کی شرط کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور خصوصا اس وقت کہ جب متقدمین و متاخرین کی مخالفت ہو رہی ہو ۔
امام دارقطنی ،امام ابن خزیہ ،امام ابن حبان ،حاکم ۔بیہقی ، ذہبی،ابن حجر ،ابن قیم معتمدعلیہ حفاظ حدیث، ائمہ دین کی شرط پر تو صحیح ہے اور یہی صحیح بات ہے ۔ !!!
علائی نے کہا :قبل الائمۃ قولہ عن''(جامع التحصیل ص١٠٩)یہی بات سبط العجمی نے اپنی کتاب( التبیین ص:٨٠)میں کہی ہے ۔
اور یہی دکتور حاتم العونی نے کہا :''العلماء متفقون علی قبول عنعنۃ الزہری ومنھم ابن حجر نفسہ''تمام علماء ، محدثین امام زہری کے عن والی روایات کو قبول کرنے پر متفق ہیں اور ان میں ابن حجر خود بھی ہیں ۔(التخریج و دراسۃ الا سانید ص٧٧)ہمارے علم کے مطابق حافظ ابن حجر نے کسی بھی حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف قرار نہیں دیا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابن حجر کا تیسرے طبقے میں شمار کرنا مرجوح قول ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امام زہری کی عن سے مروی احادیث کا دفاع
انوار الصحیفۃ میں (٦٧)احادیث کو زہری کے عن کی وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے ترتیب وار ان کا دفاع پیش خدمت ہے ۔
[پہلی صحیح حدیث کا دفاع]
١:داڑھی کے خلال کے متعلق رسول اللہ ؐ نے فرمایا:''ہکذا امرنی ربی''مجھے میرے رب نے اسی طرح حکم دیا ہے ۔
اس کے متعلق (انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃمن السنن الاربعۃ ص١٨ح١٤٥)میں لکھ گیا ۔اسنادہ ضعیف ۔ولید بن زوران :لیّن الحدیث (تق:٧٤٢٣)وللحدیث شاہد ضعیف عندا لحاکم (ج١ص١٤٩،ح٥٢٩)فیہ الزہری مدلس (طبقات المدلسین :٠٢ا۔٣)و عنعن''
جواب :
تو آئیے جو علتیں تحقیق میں بیان کی گئی ہیں ان کا جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
ہم بڑے ادب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ضعیف کہنا درست نہیں ہے اس اجمال کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :''اسنادہ حسن لان الولید وثقہ ابن حبان ولم یضعفہ احد وتابعہ علیہ ثابت البنانی عن انس رضی اللہ عنہ ۔''(النکت علی ابن الصلاح ج١ص٤٢٣)اس کی سند حسن درجے کی ہے کیونکہ ولید بن مسلم کو امام ابن حبان نے ثقہ کہا ہے کسی نے بھی ان کو ضعیف نہیں کہا اور ثابت البنانی نے ان کی متابعت کی ہے ۔
محترم کا یہ کہنا کہ اس کا ایک شاہد بی ہے اور اس کی سند میں زہری مدلس ہیں اور وہ عن سے بیان کر رہے ہیں ۔تو عرض ہے کہ سلف وخلف محدثین میں سے کسی نے بھی اس حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا بلکہ محدثین تو اس حدیث کو صحیح کہ رہے ہیں مثلا ۔
١:امام حاکم نے کہا :''اسنادہ صحیح''(المستدرک :ج١ص٢٧٦)
٢:امام ضیا ء مقدسی نے کہا :''اسنادہ صحیح ''(الاحادیث المختارہ :ج٣ص١٦٩،ح٢٧١٠)
٣:امام ابن قطان الفاسی نے کہا :''ہذاالاسناد صحیح ''(بیان الوہم والایھام :ج٥ص٢٢٠)
حافظ نووی نے کہا:''اسنادہ حسن او صحیح''(المجموع :ج١ص٣٧٦)
٤:حافظ ذ ہبی نے کہا :''صحیح''(تلخیص المستدرک ج١ص٢٧٦)
٥:حافظ ا بن قیم نے کہا :''ہذا اسناد صحیح ''(تہذیب سنن ابی داود :ج١ص٧٦)
٦:حافظ ابن حجرنے کہا :''اسنادہ حسن''(النکت :ج١ص٤٢٣)
٧:علامہ عبدالروف المناوی نے کہا :''حسن''(التیسیر بشرح الجامع الصغیر ج٢ص٢٧٦)
٨:علامہ حمدی بن عبدالمجید السلفی نے کہا :''صحیح''(تحقیق مسند الشامیین ج٣ص٦)
٩:امام ناصر الدین البانی نے کہا :''صحیح ''(ارواء الغلیل ج١ص١٣٠)
١٠:علامہ ابو عبیدہ مشہور حسن نے کہا :''والحدیث صحیح''(تحقیق المجالسہ وجواہر العلم ج٣ص٣٢٣ح٩٤٩)
تلک عشرۃ کاملۃ ولدینا مزید
قارئین نے ہمارا مقصود سمجھ لیا کہ
(١)یہ حدیث متقدمین و متاخرین محدثین کے نزدیک صحیح ہے ۔
(٢)امام زہری کا عن سے بیان کرنا محدثین کے نزدیک مضر نہیں ہوتا بلکہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیتے تھے ۔
(٣)جو حدیث محدثین کی شرط مطابق صحیح ہو اس کو صحیح سمجھا جائے گا
(٤)یاد رہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی بھی محدث نے اس حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا ۔!
والحمدللہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[دوسری صحیح حدیث کا دفاع]
استحا ضہ کے بارے میں فاطمہ بنت ابی حبیش کے متعلق حدیث ہے :''فامرھا ان تقعد الایام''آپ ؐ نے اس کو ایام حیض میں بیٹھنے کا حکم دیا (کہ وہ نماز نہ پڑھے)
انوار الصحیفہ (ح٢٨١،ص٢٤)میں اس کے متعلق لکھا ہوا ہے :''اسنادہ ضعیف ،الامام الزہری عنعن (تقدم:١٤٥)وعند النسائی (١/١١٦ح٢٠١)لفظ آخر بسند صحیح ،فھو یغنی عنہ ۔
اقول:
امام ابن حزم نے کہا :''صحیح''(المحلی:٢٫١٩٥)
امام البانی نے کہا :''صحیح''(صحیح ابی داود:٢٨١)
اس کی اصل صحیح البخاری (٣٠٦)اور صحیح مسلم(٣٣٣)میں ہے ۔
اور صاحب انوار الصحیفہ بذات خود تسلیم کرتے ہیں :''وعند النسائی (١/١١٦ح٢٠١)لفظ آخر بسند صحیح ،فھو یغنی عنہ ۔''
یاد رہے کہ ہمارے علم کے مطابق کسی بھی محدث نے اس حدیث کو زہری کے عن سے بیان کرنے کی وجہ سے ضعیف نہیں کہا ۔!
والحمدللہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Raza نے کہا ہے: ↑
ReplyDeleteاسلام علیکم
، جبکہ حافظ زبیر علی زئ نے اپنے رسالے "اِمام شافعي رحمہ اللہ اور مسئلہ تدليس" میں یہ ثابت کیا ھے کہ یہ موقف جمہور کے خلاف ہے۔ جمہور کے متابق تو ایک بار تدلیس کرنے والے کی بھی معنعن روایت قابل قبول نھی۔
ملاحظہ فرمایں، حافظ صاحب کا رسالہ "اِمام شافعي رحمہ اللہ اور مسئلہ تدليس"
دين خالص || مصطلح الحدیث
ہم اہل علم علماء سے انصاف چاہتے ہیں ؟
استاد محترم شیخ ابن بشیر صاحب اس کے جواب میں لکھتے ہیں :
ملاحطہ فرمائیں کہ جمہور کس طرح بنائے گئے ہیں
بعض الناس لکھتے ہیں :''امام شافعی اس اصول میں اکیلے نہیں بلکہ جمہور علماء ان کے ساتھ ہیں لہذا زرکشی کا ''وہو نص غریب لم یحکمہ الجمہور ''(النکت:ص١٨٨)کہنا غلط ہے اگر کوئی شخص اس پر بضد ہے کہ اس منھج اور اصول میں امام شافعی اکیلے تھے یا جمھور کے خلاف تھے !!تو وہ درج ذیل اقتباسات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے :
(٢)امام ابو قدید عبیداللہ بن فضالہ النسائی (ثقہ مامون )سے روایت ہے کہ (امام )اسحق بن راھویہ نے فرمایا:میں نے احمد بن حنبل کی طرف لکھ کر بھیجا اور درخواست کی کہ وہ میری ضرورت کی ضرورت کے مطابق (امام)شافعی کی کتابوں میں سے (کچھ )بھیجیں تو انھوں نے میرے پاس الرسالہ بھیجی ۔(کتاب الجرح والتعدیل :٧/٢٠٤وسندہ صحیح ،تاریخ دمشق لابن عساکر :٥٤/٢٩١۔٢٩٢،نیز دیکھئے مناقب الشافعی للبیھقی :١/٢٣٤وسندہ صحیح )اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب الرسالہ سے راضی (متفق)تھے اور تدلیس کے اس مسئلے میں ان کی طرف سے امام شافعی پر رد ثابت نہیں ،لہذا ان کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہے چاہے قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک جگہ لکھتے ہیںامام اسحق بن راہویہ کے پاس امام شافعی کی کتاب الرسالہ پہنچی،لیکن انھوں نے تدلیس کے اس مسئلے پر کوئی رد نہیں فرمایا،جیسا کہ کسی روایت سے ثابت نہیں ،لہذا معلوم ہوا کہ وہ تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی کے موافق تھے ۔''(ماہنامہ محدث لاہور جنوری ٢٠١٠ص:٩٦۔٩٧)
جواب:
یہ کہاں کی تحقیق ہے کہ جمھور کو ثابت کرنے کی خاطر اس طرح کا طریقہ اپنایا جائے ،کتاب کی تعریف سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے ان سب چیزوں سے اتفاق ہو۔موصوف اس اندازسے استدلال کرنے میں اکیلے ہیںسلف و خلف میں ان کا ساتھی کوئی بھی نہیں ۔کیا کوئی شخص ہمیں دکھایا جا سکتا ہے کہ امام شافعی سے لے کرآج تک کسی عالم نے اس طریقے سے امام شافعی کے موقف کی تائید میں استدلال کیا ہواور کہا ہو کہ امام احمد اورامام اسحق بن راہویہ کا بھی امام شافعی والا موقف ہے !!!اور دلیل میں یہ حوالہ پیش کیا ہو اس طریقے سے جرح و تعدیل کے اصول ثابت کرنے والوں کی تحقیق کیسی ہو گی ۔ہم نے تو اختصار کی خاطر صرف دو حوالے پیش کئے ورنہ سارا مضمون اسی طرح کی بے شمار بے بنیاد باتوں سے لبریز ہے ۔
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابوالحسن علوی صاحب لکھتے ہیں :
ReplyDeleteمجھے ابن بشیر الحسینوی صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ اس قسم کے طر زاستدلال کا خاتمہ ہونا چاہیے اور استدلال کا یہ طریق کار درست نہیں ہے۔ کسی ایک عالم دین کی کسی دوسرے عالم دین کی کتاب کی تحسین کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتا کہ ان عالم دین کو اس کتاب کے جمیع مندرجات سے اتفاق ہے اور عقل عام کا اصول ہے۔ہم سب کو اہل الحدیث کے مابین بحث وتحقیق میں سنجیدہ اور پختہ طر زاستدلال کو رواج دینا چاہیے ۔
اس بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے اصحاب الحدیث صاحب لکھتے ہیں :
ReplyDeleteأثنى العلامة محب الله الراشدي على كتاب سيد قطب " في ظلال القرآن " كثيرا في كتابه المقالات مع أن العلماء اعترضوا على الأشياء الكثيرة في تفسيره ، فهل معنى هذا أن العلامة الراشدي يوافق سيد قطب على جميع ما ذكره في تفسيره ؟؟؟
وما قاله الأخ أبو الحسن العلوي فهو مما يشكر عليه ، عندما طبع هذا المقال في مجلة المحدث الشهرية تعجبت كثيرا كيف أدرجوه مع هذا الاستدلالات الغريبة العجيبة ۔ نسأل التوفيق والسداد۔
اصحاب الحدیث صاحب لکھتے ہیں :
ReplyDeleteهل احتج الإمام ابن راهويه وأحمد بن حنبل والمزني بكلام الإمام الشافعي في موضع؟؟ وذكروه في تأييدهم؟
اصحاب الحدیث صاحب لکھتے ہیں :
ReplyDeleteطالب نور نے کہا ہے: ↑
شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے امام زہری رحمہ اللہ کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کہہ رکھا ہے کہ میری شرط پر صحیح نہیں۔ آئمہ محدثین کی کا اصول و شرائط کے ضمن میں اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو جس اصول و شرط کو اپنائے اسے اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ شیخ محترم سے اس سلسلے میں اختلاف رکھنے والوں سے اسی لیے گزارش ہے کہ پہلے اپنے اصول و شرائط کو دلائل کے ساتھ واضح کر دیں اور پھر اس کے تحت شیخ زبیر علی زئی کا علمی تعاقب کریں نیز صرف شیخ زبیر علی زئی ہی کیوں؟ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر محترم ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ اور دوسرے علماء کا بھی تعاقب کریں۔ مگر پہلے اپنے اصول و شرائط واضح تو کریں۔ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے اور، ایک مضمون میں اور دوسرے مضمون میں اور، اہل حدیث کے مئوقف کی تائید میں اور مخالفین کے رد میں اور، ایک مسئلہ میں اور دوسرے مسئلہ میں اور اصول و شرائط کو پیش کرنا ہرگز مناسب و منصفانہ نہیں۔ اس ضمن میں چاہے شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ہوں یا شیخ ارشاد الحق اثری، محترم ابو یحییٰ نور پوری ہوں یا محترم خبیب احمد غلطی و کوتاہی کو تسلیم کرنا چاہئے اور اس سے رجوع کرنا چاہئے۔ عصت و معصومیت مخلوق مین صرف انبیاء علیھم السلام کی ذوات کے لیے ہی ہے۔ اللہ ہم سب بھائیوں کو اصلاح کے بہترین جذبہ و طریق سے نوازے، آمین یا رب العالمین۔
أخي الكريم
هل معنى هذا بأن ما كتبه الأخ ابن بشير الحسينوي هو صحيح وحق وأنت توافقه على ذلك ؟؟ لأن أهل الحديث يتبع الحق لا الأشخاص۔
يظهرمن قولك بأن هناك اختلافا بين الأئمة في الاحتجاج بحديث الإمام الزهري المعنعن ، حبذا لو تذكر على ذلك بعض أقوال الأئمة خاصة المتقدمين عندكم۔
وهل توافق شخصا يقول اليوم : لي قواعد كما للمحدثين قواعد في تصحيح الحديث وتضعيفه ؟ ما أظن أحدا يوافق كلامك هذا۔
أخي الكريم يظهر من كلامك بأن كل من يعمل في ميدان الحديث ينبغي له أولا أن يجعل ويعلن قواعد خاصة للجرح والتعديل ، فنقول بأن قواعد الجرح والتعديل وتصحيح الحديث وتضعيفه مذكورة في كتب المصطلح وأهل الحديث ولكن لا ينبغي لأحد أن يجتهد في الأصول والقواعد أو يحب الشواذ ، فهذا الذي نخالفه ، أذكر لك مثالا على هذا بأن بعض الناس يطالبون في مبحث الحسن لغيره بأقوال المتقدمين مع أنهم في مبحث التدليس يذكرون أكثر أقوالهم من المتأخرين كما ذكرت - أخي الكريم - ويعتمدون عليها ،
أخي الكريم ليس السؤال بأن كل واحد يتمسك بأصوله بل ينبغي أن يأخذ أقوال المحدثين ويعتصم بها ، وذلك في كل أصل،
ما ندري من تشير إليه بأنهم يأخذون بعض الأصول في موضع ويتركونه في موضع آخر لا شك أن هذا الصنيع مذموم وكل عاقل برئ منه،
وأخيرا أخي الكريم أمامك مجال واسع لا يمنعك أحد أن تذكر أخطاء الشيخ الأثري أو غيره لكن المهم بأنه إذا ثبت خطأ أحد في مسأله أن نوافق الصواب ونقبله
نوٹ:یہ بحث محدث فورم ،مجلس علمی مشاورت سے لی گئی ہے اور یہ بحث بھی خالص علمی تھی اس لئے اس کو استاد محترم کی علمی تراث میں جمع کیا گیا ۔
ReplyDelete