Sunday 15 February 2015

حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات قسط 2


تالیف : فضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ ساتواں اشکال : بسا اوقات کسی ضعیف حدیث کی متعد د سندیں ہوتی ہیں یا اس کے ضعیف شواہد موجود ہوتے ہے، مگر اس کے باوجود محدثین اسے حسن لغیرہ کے درجے میں نہیں لاتے۔ جواب: حسن لغیرہ کی عدمِ حجیت کے بارے میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے اور اسی سے وہ لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں۔ اس کا جواب ہم محتر م حافظ خبیب احمد الاثری کی قیمتی کتاب ’’مقالات اثریہ ‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔ کثرتِ طرق کے باوجود حدیث کو مقبول نہ ماننے کی وجوہات کا بیان۔ عدمِ تقویت کے اسباب: ایسی حدیث کے حسن لغیرہ نہ ہونے میں پہلا سبب یہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں شاہد حدیث کے کسی راوی نے غلطی کی ہے، لہٰذا غلط متابع یا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہیں کر سکتے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک حدیث کی دو سندیں ہیں، اس کی ایک سند کے راوی کے بارے میں راجح یہ ہے کہ اس نے سند یا متن میں غلطی کی ہے، یعنی وہ دوسروں کی مخالفت کرتا ہے، یا اس سے بیان کرتے ہوئے راویان مضطرب ہیں تو ایسی سند دوسری سند سے مل کر تقویت حاصل نہیں کر سکتی۔ اسے تطبیقی انداز میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ امام حاکم نے سفیان بن حسین عن الزہری ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے، پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہری) ذکر کیا، اس مرفوع حدیث میں جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حدیث سے دور کرنے کی کوشش کی۔ (المستدرک: ۱/ ۳۹۲۔ ۳۹۳) مگر حافظ ابن حجر اس مرفوع حدیث کو اس مرسل روایت سے تقویت دینے کے قائل نہیں کیونکہ سفیان بن حسین، امام زہری سے بیان کرنے میں متکلم فیہ ہے، بنابریں اس نے یہ روایت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بیان کی ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’قلت: بل ھو علتہ۔‘‘ تغلیق التعلیق لابن حجر (۳/ ۱۷) کہ ابن المبارک کا اس حدیث کو زہری سے مرسل بیان کرنا سفیان کی غلطی کی دلیل ہے، لہٰذا یہ روایت مرسل ہی راجح ہے اور وہ مرفوع کو تقویت نہیں دیتی، کیونکہ اس کا مرفوع بیان کرنا غلط ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ امام حاکم ایک حدیث کو متأخرین کی اصطلاح کے مطابق حسن لغیرہ قرار دے رہے ہیں، اسی حدیث کو حافظ ابن حجر مرسل ہونے کی بنا پر ضعیف قرار دے رہے ہیں، کیونکہ حافظ صاحب کے نزدیک مرفوع بیان کرنا غلطی ہے، جس کی وجہ مرسل روایت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محدثین کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینے کے لیے قرائن کو پیشِ نظر رکھتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی تغلیق التعلیق میں ذکر کیا ہے، ضعیف+ ضعیف کو مطلق طور پر حسن لغیرہ قرار دینا محدثین کا منہج نہیں ہے۔ بسا اوقات کوئی محدث کسی حدیث کو تقویت دینے میں وہم کا شکار ہوجاتا ہے جوکہ استثنائی صورت ہے، اس سے حسن لغیرہ کے حجت ہونے میں قطعی طور پر زد نہیں پڑتی، کسی حدیث کے حسن لغیرہ ہونے یا نہ ہونے میں محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، حقائق بھی اس کے مؤید ہیں، مگر ان سب کے باوجود محدثین حسن لغیرہ کے حجیت کے قائل ہیں۔ کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینا ایک اجتہادی امر ہے، جس میں صواب اور غلط دونوں کا امکان ہوتا ہے، جس طرح راویان کی توثیق و تجریح بھی اجتہادی امر ہے، اسی طرح غلط اور صحیح کا تعین بھی اجتہادی معاملہ ہے، جس کا فیصلہ قرائن کے پیش نظر ہوتا ہے، ملحوظ رہے کہ راوی کی غلط متعابعت سے دور نہیں ہوتی، خواہ وہ حافظ راوی کی ہو۔ دوسرا سبب: حدیث میں فرضیت یا حرمت ہو: ایسی حدیث جس میں کسی چیز کی فرضیت (جس کا تارک گناہ گار ہو) یا حرمت (جس کا مرتکب گناہ گار ہو) ہو تو ایسی ضعیف حدیث کو محدثین حسن لغیرہ قرار دینے میں تأمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک یہ دونوں چیزیں یا ایک چیز صحیح سند (صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ) سے ثابت ہونا ضروری ہے، جیسا کہ امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ نے فرمایا: ’’مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی۔‘‘ امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: ’’میرا بھی یہی موقف ہے۔‘‘ المراسیل لابن أبي حاتم (ص: ۷) فضائل، رقائق بلکہ احکامِ شرعیہ میں محدثین حسن لغیرہ روایات قبول کرتے ہیں، بلکہ جن کا ضعف خفیف ہو اس سے بھی استدلال کرتے ہیں، جیسا کہ وضو سے پہلے تسمیہ کے بارے میں ہے۔ مگر جن مسائل کا تعلق عقائد سے ہوئے اس میں محدثین وہی احادیث قبول کرتے ہیں جو صحیح ہوں، وہ حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے۔ تیسرا: ضعیف راوی کا تفرد: جس ضعیف حدیث کو بیان کرنے میں راوی اپنے شیخ سے منفرد ہو تو محدثین ایسے تفرد کو قابلِ تقویت نہیں سمجھتے، مثلاً وہ کسی مشہور سند سے کوئی ایسی منفرد حدیث بیان کرتا ہے جو اس شیخ کے مشہور شاگرد بیان نہیں کرتے یعنی وہ امام زہری یا امام سفیان ثوری جیسے شیخ سے روایت بیان کرنے میں منفرد ہے۔ ایسی صورت میں محدثین زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، چہ جائیکہ وہ زیادۃ الضعیف کو تقویت دیں۔ جب ضعیف راوی کسی مشہور سند سے حدیث بیان کرنے میں منفرد ہوگا تو اس کی غلطی کا قوی یقین ہوجائے گا یا یہ تصور کیا جائے گا کہ اسے کسی اور روایت کا شبہ ہے، یا اس کی حدیث میں دوسری حدیث داخل ہوگئی ہے یا اسے وہم ہوا کہ اس سند سے یہ متن مروی ہے یا اسے تلقین کی گئی تو اس نے قبول کر لی یا اس کی کتاب وغیرہ میں حدیث داخل کر دی گئی اور وہ اس سے بے خبر رہا۔ چوتھا سبب: جب ایک سے زائد سبب ضعف ہوں: جب حدیث کی کسی سند میں ایک سے زائد ضعف ہوں مثلاً روایت میں انقطاع بھی ہے اور راوی بھی ضعیف ہے، یا اس میں دو راویان ضعیف ہیں تو بسا اوقات محدثین ایسی سند کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث غریب ہے، امام حاکم نے الإکلیل میں اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ علی بن قادم، اس کا استاذ (ابو العلاء خالد بن طہمان) اور اس کا استاد (عطیہ) کوفی اور شیعہ ہیں، ان میں کلام ہے، ان میں سب سے زیادہ ضعیف عطیہ ہے، اگر اس کی متابعت ہوتی تو میں اس حدیث کو حسن (لغیرہ) قرار دیتا۔‘‘ موافقۃ الخُبر الخَبر (۱/ ۲۴۵) حافظ ابن حجر نے اس کے بعد اس کے شواہد بیان کیے ہیں مگر اس کے باوجود اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایک سے زائد وجۂ ضعف ہے ۔ ملاحظہ ہو: موافقۃ الخُبر الخَبر (۱/ ۲۴۵۔ ۲۴۷) دیگر اسبابِ ضعف: بعض ایسے ضعف کے اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور یہ اسباب متعدد ہیں جن کا شمار مشکل ہے، تاہم ذیل میں چند اسباب بیان کیے جاتے ہیں: ۱۔ اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو ایسی روایت متابع یا شاہد نہیں بن سکتی۔ ۲۔ سند میں راوی کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے؟ ۳۔ اس میں متروک اور انتہائی کمزور راویوں کی منقطع اور مرسل روایات بھی داخل ہیں۔ ۴۔ جب ضعیف راوی کسی حدیث کو مرسل بیان کر دے، مثلاً امام دارقطنی فرماتے ہیں: ’’ابن بیلمانی ضعیف ہے، جب وہ موصول حدیث بیان کرے تو وہ حجت نہیں، جب وہ مرسل بیان کرے تو کیسے حجت ہوسکتا ہے؟‘‘ سنن الدارقطنی (۳/ ۱۳۵) (مقالات اثریہ ،از حافظ خبیب احمد )

3 comments:

  1. حسن لغیرہ کی حجیت اور علمائے اہلحدیث:
    ہم اس بحث میں ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حسن لغیرہ کی حجیت موجودہ تمام اہلحدیث علما ء تسلیم کرتے ہیں چنانچہ ذیل میں ان کے اسماء پیش خدمت ہیں:
    ۱۔ حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ گوجرانوالا )
    ۲۔ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (مدیر ادارۃ علوم اثریہ فیصل آباد )
    ۳۔ شیخ رفیق اثری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ جلالپور )
    ۴۔ حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد )
    ۵۔ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ لاہور )
    ۶۔ شیخ عبداللہ امجد چھتوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ )
    ۷۔ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد )
    ۸۔ شیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مدرسہ مرآۃ القرآن منڈی وار برٹن )
    ۹۔ شیخ الیاس اثری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث )
    ۱۰۔ حافظ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مرکز الدراسات خانیوال )
    ۱۱۔ حافظ عبدالسلا م بھٹوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مرکز طیبہ مرید کے )
    ۱۲۔ شیخ محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور)
    ۱۳۔ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ معھد القرآن ،کراچی)
    ۱۴۔ حافظ ثناء اللہ الزاہدی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ امام بخاری )
    ۱۵۔ شیخ عبداللہ رفیق حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ لوکو ورکشاپ لاہور )
    ۱۶۔ مفتی عبیداللہ عفیف حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ قدس اہلحدیث لاہور )
    ۱۷۔ شیخ امین اﷲ پشاوری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث پشاور)
    ۱۸۔ شیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث پشاور)
    ۱۹۔ شیخ -عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث پشاور )
    ۲۰۔ شیخ عبدالروف بن عبدالحنان بن حکیم محمد اشرف سندھو حفظہ اللہ
    ۲۱۔ شیخ امین محمدی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث گوجرانوالہ)
    ۲۲۔ شیخ ابو صہیب داود ارشد حفظہ اللہ
    ۲۳۔ مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ
    ۲۴۔ مفتی عبدالحنان حفظہ اللہ (مفتی جامعہ سلفیہ فیصل آباد )وغیرہ
    کسی اصول میں اختلاف ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں جو کسی کو صحیح موقف لگتا ہے وہ اس کو اپنائے اور علماء کا احترام انتہائی ضروری ہے ۔

    ReplyDelete
  2. آٹھواں اشکال:
    غلط، غلط کو تقویت نہیں پہنچا سکتا۔ متقدمین محدثین بعض احادیث کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ’’کلھا ضعیفۃ‘‘ یا ’’أسانیدھا کلھا معلولۃ‘‘ وغیرہ ،ان سے حسن لغیرہ کو حجت نہ سمجھنے والے استدلال کرتے ہیں حالانکہ ان روایات میں راویات میں راوی کی کئی اغلاط ہوتی ہیں۔
    محترم حافظ خبیب الاثری لکھتے ہیں:
    ’’چنانچہ اسی حوالے سے امام البانی رقمطراز ہیں:
    ’’أن الشاذ والمنکر مردود، لأنہ خطأ والخطأ لا یتقوی بہ۔‘‘
    ’’شاذ اور منکر قابلِ ردّ ہے کیونکہ وہ غلط ہے اور غلط سے تقویت حاصل نہیں کی جاسکتی۔‘‘
    نیز فرمایا:
    ’’وما ثبت خطؤہ فلا یعقل أن یقوی بہ روایۃ أخری في معناہا، فثبت أن الشاذ والمنکر مما لا یعتد بہ ولا یستشہد بہ، بل إن وجودہ وعدمہ سوائٌ۔‘‘
    ’’اور جس (سند یا متن) کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو یہ معقول نہیں کہ اس کے ہم معنی روایت اسے تقویت پہنچائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ شاذ اور منکر حدیث کی وہ اقسام ہیں جو کسی قطار وشمار میں نہیں اور نہ انھیں بطورِ شاہد پیش کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کا وجود اور عدمِ وجود دونوں برابر ہیں۔‘‘ (صلاۃ التراویح للألباني، ص: ۵۷)
    اسی لیے تو امام احمدؒ نے فرمایا کہ ’’والمنکر أبدا منکر‘‘ کہ ’’منکر روایت ہمیشہ منکر ہی رہتی ہے۔‘‘
    (العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ المروذی، ص: ۱۶۷، رقم: ۲۸۷۔ ومسائل الإمام أحمد روایۃ ابن ہانئ، ج:۲، ص:۱۶۷، رقم: ۱۹۲۵)
    اسی مفہوم کو شیخ طارق بن عوض اللہ نے اپنی کتاب ’’الإرشادات في تقویۃ الأحادیث بالشواہد والمتابعات‘‘ کے مقدمہ میں بڑے بسط سے بیان کیا ہے۔ (مقالات اثریہ، از حافظ خبیب احمد )

    ReplyDelete
  3. حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات

    ۱:محدث یمن مقبل بن ھادی کے نزدیک حسن لغیرہ کی حجیت :
    مقبل بن ھادی کی متقدمین کے متعلق عبارتیں نقل کرنا کہ تحقیق حدیث میں متقدمین کی تحقیق معتبر ہے ۔اور اس سے نتیجہ یہ نکا لا جائے کہ جب متقدمین کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں تو ان کی بات ہی مانی جائے گی ؟؟۔
    حسن لغیرہ کا انکار کرنے والے کے بارے میں یمن کے عظیم محدث علامہ مقبل بن ہادی فرماتے ہیں:
    ’’أما الذین یردون الحسن لغیرہ، فإن کان في بعض المواضع أداھم اجتھادھم ۔وھم أھل لذلک۔ إلی أن الحدیث لا یرتقي إلی الحسن لغیرہ فلھم ذلک، وأما ردہ بالکلیۃ فھذہ خطوۃ إلی رد السنن۔‘‘ (القول الحسن، ص: ۷)
    ’’جو لوگ حسن لغیرہ حدیث کو رد کرتے ہیں اگر بعض مواقع پر ان کا اجتہاد، بشرطیکہ وہ اجتہاد کے اہل بھی ہوں، یہ ہو کہ یہ حدیث درجہ حسن لغیرہ کو نہیں پہنچتی تو ان کو یہ حق حاصل ہے۔ رہی یہ بات کہ بالکلیہ حسن لغیرہ حدیث کو رد کیا جائے تو یہ سنتوں کو ٹھکرا دینے کی طرف ایک قدم ہے۔‘‘
    اس قول سے آپ اندازہ لگائیں کہ محدث یمن علامہ مقبل بن ہادی کتنے سخت خلاف ہیں ان لوگوں کے جو حسن لغیرہ کو حجت نہیں مانتے حالانکہ وہ متقدمین کے علم و فضل کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک جگہ پر لکھتے ہیں:
    ’’و نحن ما نظن أن المتأخرین یعثرون علی ما لم یعثر علیہ المتقدمون اللھم إلا في النادر۔‘‘ (أسئلۃ في المصطلح، السؤال:۲۰)
    ’’ہمارا نہیں خیال کہ متاخرین اس بات پر اطلاع پا لیں جس پر متاخرین اطلاع نہ پا سکے ہوں ،ہاں کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘
    نیز ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
    ’’أروني شخصا یحفظ مثل ما یحفظ البخاري، أو أحمد بن حنبل، أو تکون لہ معرفۃ بعلم الرجال مثل یحییٰ بن معین، أو لہ معرفۃ بالعلل مثل علي بن المدیني، والدارقطني، بل مثل معشار الواحد من ہولائ، ففرق کبیر بین المتقدمین والمتأخرین۔‘‘ (أیضا)
    ’’مجھے ایک ایسا شخص دکھائیں جو امام بخاری یا امام احمد بن حنبل کی طرح کا حافظہ رکھتا ہو یا اسے امام یحییٰ بن معین کی طرح علم رجال کی معرفت ہو یا اسے امام علی بن مدینی اور امام دار قطنی کی طرح علل حدیث کی معرفت ہو، بلکہ ان کے عشر عشیر کے برابر بھی موجودہ دور میں کوئی نہیں۔ لہٰذا متقدمین اور متاخرین میں بہت فرق ہے۔‘‘
    اس سے ہر منصف مزاج شخص بآسانی یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ متقدمین کے علوم وفنون کے اس قدر اعتراف کے باوجودبھی وہ کہتے ہیں کہ حسن لغیرہ کو مطلقاً حجت نہ سمجھنے والا شخص سنتوں کو ٹھکرانے والا ہے۔ تو اب آپ غور کریں:
    ۱۔ کیا علامہ مقبل بن ہادیؒ متقدمین کو سنتوں کا ٹھکرانے والا کہہ رہے ہیں؟
    ۲۔ کیا وہ ایک جگہ متقدمین کو لیتے ہیں (کہ ان کی بات ہی معتبر ہے ) اور دوسری جگہ(حسن لغیرہ کی عدمِ حجیت) ان کو چھوڑ رہے ہیں؟
    ۳۔ علامہ مقبل بن ہادی اپنے شاگرد ابن ابی العینین کی کتاب ’’القول الحسن‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
    ’’فقد اطلعت علی جل کتاب أخینا في اﷲ الشیخ أحمد بن إبراھیم بن أبي العینین، الذي کتبہ في الحدیث الحسن، فوجدت الکتاب قد اشتمل علی فوائد تشد لھا الرحال، فللہ در من باحث، لقد أعطاہ اﷲ صبرا و فہما ودرایۃ، فلا یخرج من البحث إلا بنتائج طیبۃ مفیدۃ لطالب العلم۔‘‘ (مقدمۃ القول الحسن ص: ۵)
    اور اسی کتاب کے متعلق لکھتے ہیں:
    ’’وأخیرا فقد کفانا أخونا في اللہ الشیخ أحمد بن أبي العینین الرد علی ھؤلاء وأولئک، فجزاہ اﷲ خیرا۔‘‘ (أیضا ص:۸)
    ۴۔ اور اسی کتاب میں امام سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، شافعی، یحییٰ بن سعید القطان، احمد بن حنبل، ترمذی، ابن عدی، محمد بن یحییٰ الذہلی، بخاری، ابوحاتم الرازی، نسائی، ابوداود السجستانی، دارقطنی وغیرہم کے اقوال و نصوص کی روشنی میں ائمۂ متقدمین کے نزدیک حدیث حسن لغیرہ کی حجیت کا اثبات کیا گیا ہے، بلفظ دیگر علامہ مقبل بن ہادی کے نزدیک بھی متقدمین کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے۔ والحمدللہ

    ReplyDelete